ہم قادیانیوں کا بائیکاٹ کیوں کرتے ہیں؟

admin

admin

کافروں کی تین بڑی قسمیں ہیں۔

1) عام کافر (یہودی، عیسائی وغیرہ)
2) مرتد
3)
زندیق

عام کافر یعنی یہودی، عیسائی، ہندو، سکھ اور بدھ مت وغیرہ

اگر عام کافر مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچاتے اور ان کے خلاف سازشیں وغیرہ نہیں کرتے تو ان کے ساتھ تجارت بھی کی جاسکتی ہے۔اور ان سے عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق اچھے تعلقات بھی رکھے جاسکتے ہیں۔لیکن عام کفار کے ساتھ قلبی دوستی لگانا جائز نہیں ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

“لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ۔إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ۔”

“جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا۔اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اللہ ان ہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں۔”

(سورۃ الممتحنہ:آیت 8-9)

“عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ؓ قَالَتْ قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ إِذْ عَاهَدَهُمْ فَاسْتَفْتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِﷺ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ رَاغِبَةٌ أَفَأَصِلُ أُمِّي قَالَ نَعَمْ صِلِي أُمَّكِ۔”

“حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ قریش کے ساتھ معاہدے کے زمانے میں،جب آپ نے ان سے معاہدہ صلح کیا تھا،میری والدہ آئیں،وہ مشرک تھیں تو میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا اور عرض کی:اے اللہ کے رسولﷺ!میری والدہ میرے پاس آئی ہیں اور (مجھ سے صلہ رحمی کی) اُمید رکھتی ہیں تو کیا میں اپنی ماں سے صلہ رحمی کروں؟آپﷺ نے فرمایا:ہاں،اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔”

(مسلم:حدیث نمبر 2325،باب فضل النفقة والصدقة)

“عَنْ أَنَسٍ ؓ أَنَّ غُلَامًا لِيَهُودَ كَانَ يَخْدُمُ النَّبِيَّﷺ فَمَرِضَ،فَأَتَاهُ النَّبِيُّﷺ يَعُودُهُ،فَقَالَ:أَسْلِمْ۔”

“حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا نبی کریمﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا وہ بیمار ہوا تو نبی کریمﷺ اس کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے۔نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اسلام قبول کر لے چنانچہ اس نے اسلام قبول کر لیا۔”

(بخاری:حدیث نمبر 5657،باب عیادة المشرک)

عام کفار کے ساتھ تعلقات کی چار قسمیں ہیں۔

1) موالات:

یعنی قلبی محبت اور دوستی،یہ کسی غیر مسلم سے کسی بھی حال میں قطعاً جائز نہیں۔

2) مواسات:

یعنی ہمدردی خیر خواہی اور نفع رسانی،اس کی اجازت ہے لیکن جو کفار مسلمانوں کے خلاف برسرِ پیکار ہوں ان کے ساتھ اس کی بھی اجازت نہیں۔

3) مدارات:

یعنی ظاہری خوش خلقی اور رکھ رکھاؤ،یہ بھی غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے،بشرطیکہ اس سے مقصود ان کو دینی نفع پہچانا ہو یعنی اسلام کی طرف راغب کرنا مقصود ہو،یا وہ کبھی بحیثیت مہمان آئے ہوئے ہوں یا ان کے شر اور فتنہ سے خود کو بچانا مقصود ہو۔

4) معاملات:

یعنی عام کفار سے تجارت،صنعت و حرفت اور کاروباری روابط رکھنا،یہ بھی جائز ہیں البتہ اگر ایسی حالت ہو کہ اس سے عام مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو جائز نہیں۔

مرتد وہ ہوتا ہے جس کا مذہب پہلے اسلام ہو لیکن بعد میں وہ اپنا مذہب اسلام سے تبدیل کر کے یہودی،عیسائی، قادیانی وغیرہ بن جائے۔

مرتد کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ اسلامی حکومت میں رہتا ہے تو حکومت ایسے شخص کو فورا گرفتار کرے اور علمائے کرام کو متعین کرے کہ وہ مرتد کو سمجھائیں اور جس وجہ سے اس نے اسلام کو چھوڑا ہے وہ وجہ معلوم کر کے اس کے جوابات دئیے جائیں۔اگر بار بار سمجھانے پر بھی یہ شخص اسلام میں واپس نہیں آتا تو ایسے شخص کو اسلامی حکومت قتل کردے۔مرتد کے ساتھ کسی قسم کا تعلق یا تجارت وغیرہ جائز نہیں۔

حضرت موسیؑ جب طور پر رب سے ملاقات کرنے گئے تھے تو پیچھے ان کی قوم کے کچھ لوگ مرتد ہوگئے تھے۔ جن کا درج ذیل آیات میں ذکر ہے۔

“قَالُوۡا یٰمُوۡسَی اجۡعَلۡ لَّنَاۤ اِلٰـہًا کَمَا لَہُمۡ اٰلِـہَۃٌ۔”

“بنی اسرائیل کہنے لگے:اے موسیٰ!ہمارے لیے بھی کوئی ایسا ہی دیوتا بنا دو جیسے ان لوگوں کے دیوتا ہیں۔”

(سورة الاعراف:آیت 138)

“یٰقَوۡمِ اِنَّمَا فُتِنۡتُمۡ بِہٖ ۚ وَ اِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحۡمٰنُ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ وَ اَطِیۡعُوۡۤا اَمۡرِیۡ۔”

“میری قوم کے لوگو!تم اس (بچھڑے) کی وجہ سے فتنے میں مبتلا ہوگئے ہو۔”

(سورة طه:آیت 90)

“قَالُوۡا لَنۡ نَّبۡرَحَ عَلَیۡہِ عٰکِفِیۡنَ حَتّٰی یَرۡجِعَ اِلَیۡنَا مُوۡسٰی۔”

“وہ کہنے لگے: جب تک موسیٰ واپس نہ آجائیں،ہم تو اسی کی عبادت پر جمے رہیں گے۔”

(سورة طه:آیت 91)

“اِنَّ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوا الۡعِجۡلَ سَیَنَالُہُمۡ غَضَبٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ ذِلَّۃٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُفۡتَرِیۡنَ۔”

“جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا ہے،ان پر جلد ہی ان کے رب کا غضب اور دنیوی زندگی ہی میں ذلت آپڑے گی۔ جو لوگ افترا پردازی کرتے ہیں،ان کو ہم اسی طرح سزا دیتے ہیں۔”

(سورة الاعراف:آیت 152)

ان مرتدین کو موت کی سزا دی گئی تھی جس کا درج ذیل آیت میں ذکر ہے:

“وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اِنَّکُمۡ ظَلَمۡتُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ بِاتِّخَاذِکُمُ الۡعِجۡلَ فَتُوۡبُوۡۤا اِلٰی بَارِئِکُمۡ فَاقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ۔”

“جب (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو،اپنے کو آپس میں قتل کرو۔”

(سورة البقرة:آیت 54)

ان آیات سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل جب موسیؑ کے وقت میں مرتد ہوئے تھے تو ان کو موت کی سزا دی گئی تھی اور اصول یہ ہے کہ قرآن مجید میں اگر کسی سابقہ نبی کی شریعت کا کوئی حکم اللہ بیان فرمائیں اور اس حکم کو ختم یا تبدیل نہ کریں تو وہ حکم امت محمدیہ میں بھی ایسے ہی ہوگا۔

علامہ علاء الدین بخاریؒ(037ھ) لکھتے ہیں:

“وَالصَّحِيحُ عِنْدَنَا أَنَّ مَا قَصَّ اللَّهُ تَعَالَى مِنْهَا عَلَيْنَا مِنْ غَيْرِ إنْكَارٍ أَوْ قَصَّهُ رَسُولُ اللَّهِﷺ۔مِنْ غَيْرِ إنْكَارٍ فَإِنَّهُ يَلْزَمُنَا عَلَى أَنَّهُ شَرِيعَةُ رَسُولِنَا عَلَيْهِ السَّلَامُ۔”

“ہمارے نزدیک صحیح قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو پچھلی شریعت کے احکام انکار کے بغیر ہمارے سامنے بیان فرمائے یا رسول اللہﷺ نے انکار کے بغیر بیان فرمائے،تو ہمارے اوپر اس حیثیت سے ان کی پیروی لازم ہے کہ وہ ہمارے رسولﷺ کی شریعت ہے۔”

(کشف الاسرار شرح اصول البزدوی:باب شرائع من قبلنا،جلد 3 صفحہ 212)

“اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیۡنَ یُحَارِبُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا اَنۡ یُّقَتَّلُوۡۤا اَوۡ یُصَلَّبُوۡۤا اَوۡ تُقَطَّعَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَرۡجُلُہُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ اَوۡ یُنۡفَوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ ؕ ذٰلِکَ لَہُمۡ خِزۡیٌ فِی الدُّنۡیَا وَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ۔اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَقۡدِرُوۡا عَلَیۡہِمۡ ۚ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ۔”

“جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے اور زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں،ان کی سزا یہی ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے،یا سولی پر چڑھا دیا جائے،یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں،یا انہیں زمین سے دور کردیا جائے۔یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے،اور آخرت میں ان کے لیے زبردست عذاب ہے۔ہاں وہ لوگ اس سے مستثنی ہیں جو تمہارے ان کو قابو میں لانے سے پہلے ہی توبہ کرلیں۔ایسی صورت میں یہ جان رکھو کہ اللہ بہت بخشنے والا،بڑا مہربان ہے۔”

(سورة المائدہ:آیت 33،34)

اس آیت کے ذیل میں تقریباً تمام مفسرین و محدثین نے ان لوگوں کا واقعہ لکھا ہے جو اسلام لائے تھے،مگر مدینہ منورہ کی آب و ہوا ان کو راس نہ آئی تو ان کی شکایت پر آنحضرتﷺ نے ان کو صدقہ کے اونٹوں کے ساتھ بھیج دیا،جہاں وہ ان کا دودھ وغیرہ پیتے رہے،جب وہ ٹھیک ہوگئے تو مرتد ہوگئے اور اونٹوں کے چرواہے کو قتل کرکے صدقہ کے اونٹ بھگا لے گئے،جب مسلمانوں نے ان کو گرفتار کرلیا اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں لائے گئے تو آنحضرتﷺ نے ان کے سیدھے ہاتھ اور اُلٹے پاؤں کاٹ دیئے اور وہ حرہ میں ڈال دیئے گئے،پانی مانگتے رہے،مگر ان کو پانی تک نہ دیا،یہاں تک کہ وہ تڑپ تڑپ کر مرگئے۔

“أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُمْ ،أَنَّ نَاسًا أَوْ رِجَالًا مِنْ عُكْلٍ وعُرَيْنَةَ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِﷺ وَتَكَلَّمُوا بِالْإِسْلَامِ،وَقَالُوا:يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا أَهْلَ ضَرْعٍ وَلَمْ نَكُنْ أَهْلَ رِيفٍ،وَاسْتَوْخَمُوا الْمَدِينَةَ فَأَمَرَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِﷺ بِذَوْدٍ وَبِرَاعٍ،وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَخْرُجُوا فِيهِ فَيَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا،وَأَبْوَالِهَا،فَانْطَلَقُوا حَتَّى كَانُوا نَاحِيَةَ الْحَرَّةِ، كَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَقَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللَّهِﷺ،وَاسْتَاقُوا الذَّوْدَ ، فَبَلَغَ النَّبِيَّﷺ:فَبَعَثَ الطَّلَبَ فِي آثَارِهِمْ،وَأَمَرَ بِهِمْ،فَسَمَرُوا أَعْيُنَهُمْ،وَقَطَعُوا أَيْدِيَهُمْ،وَتُرِكُوا فِي نَاحِيَةِ الْحَرَّةِ حَتَّى مَاتُوا عَلَى حَالِهِمْ۔”

“حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کے بارے میں گفتگو کی۔انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے نبی!ہم مویشی والے ہیں ہم لوگ اہل مدینہ کی طرح کاشتکار نہیں ہیں۔مدینہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہیں آئی تھی،چنانچہ نبی کریمﷺ نے ان کے لیے چند اونٹوں اور ایک چرواہے کا حکم دیا اور آپﷺ نے فرمایا کہ وہ لوگ ان اونٹوں کے ساتھ باہر چلے جائیں اور ان کا دودھ اور پیشاب پئیں۔وہ لوگ چلے گئے لیکن حرہ کے نزدیک پہنچ کر وہ اسلام سے مرتد ہو گئے اور نبی کریمﷺ کے چرواہے کو قتل کر ڈالا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ پڑے جب نبی کریمﷺ کو اس کی خبر ملی تو آپ نے ان کی تلاش میں آدمی دوڑائے پھر آپ نے ان کے متعلق حکم دیا اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی،ان کے ہاتھ کاٹ دئیے گئے اور حرہ کے کنارے انہیں چھوڑ دیا گیا،وہ اسی حالت میں مر گئے۔”

(بخاری:حدیث نمبر 5727،باب من خرج من أرض لا تلایمه)

“عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ؓ،قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ،إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ:النَّفْسُ بِالنَّفْسِ،وَالثَّيِّبُ الزَّانِي،وَالْمَارِقُ مِنَ الدِّينِ التَّارِكُ لِلْجَمَاعَةِ۔”

حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

“کسی مسلمان کا خون جو کلمہ لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کا ماننے والا ہو حلال نہیں ہے البتہ تین صورتوں میں جائز ہے۔ جان کے بدلہ جان لینے والا،شادی شدہ ہو کر زنا کرنے والا اور اسلام سے نکل جانے والا (مرتد)جماعت کو چھوڑ دینے والا۔”

(بخاری:حدیث نمبر 6878،باب قول اللہ تعالیٰ ان النفس بالنفس)

“عَنْ عِكْرِمَةَ ؓ،أَنَّ عَلِيًّا ؓ حَرَّقَ قَوْمًا ارْتَدُّوا عَنِ الإِسْلاَمِ،فَبَلَغَ ذَلِكَ ابْنَ عَبَّاسٍ،فَقَالَ:لَوْ كُنْتُ أَنَا لَقَتَلْتُهُمْ بِقَوْلِ رَسُولِ اللهِﷺ:مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ۔وَلَمْ أَكُنْ لأُحَرِّقَهُمْ لِقَوْلِ رَسُولِ اللهِﷺ:لاَ تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللهِ،فَبَلَغَ ذَلِكَ عَلِيًّا،فَقَالَ:صَدَقَ ابْنُ عَبَّاسٍ۔”

“حضرت عکرمہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت علی ؓ نے کچھ ایسے لوگوں کو زندہ جلا دیا جو اسلام سے مرتد ہو گئے تھے، جب ابن عباس ؓ کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا: اگر (علی ؓ کی جگہ) میں ہوتا تو انہیں قتل کرتا، کیونکہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:
“جو اپنے دین (اسلام) کو بدل ڈالے اسے قتل کرو۔”
اور میں انہیں جلاتا نہیں کیونکہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: “اللہ کے عذاب خاص جیسا تم لوگ عذاب نہ دو۔”
پھر اس بات کی خبر علی ؓ کو ہوئی تو انہوں نے کہا:
ابن عباس ؓ ؓ نے سچ کہا۔”

(ترمذی:حدیث نمبر 1458،باب ما جاء فی المرتد)

امام ترمذی اس حدیث پر اپنا تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ۔وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ العِلْمِ فِي الْمُرْتَدِّ،وَاخْتَلَفُوا فِي الْمَرْأَةِ إِذَا ارْتَدَّتْ عَنِ الإِسْلاَمِ،فَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ:تُقْتَلُ،وَهُوَ قَوْلُ الأَوْزَاعِيِّ،وَأَحْمَدَ،وَإِسْحَاقَ۔وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ:تُحْبَسُ وَلاَ تُقْتَلُ،وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ،وَغَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الكُوفَةِ۔”

امام ترمذی کہتے ہیں:

“یہ حدیث صحیح حسن ہے،مرتد کے سلسلے میں اہل علم کا یہی موقف ہے کہ اسے قتل کیا جائے۔اور جب عورت اسلام سے مرتد ہو جائے تو اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے اسے قتل کیا جائے گا،اوزاعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،اور اہل علم کی دوسری جماعت کہتی ہے:اسے قتل نہیں بلکہ قید کیا جائے گا(یعنی اگر توبہ کرلے تو فبہا،ورنہ زندگی بھر اسے جیل میں رکھا جائے)سفیان ثوری اور ان کے علاوہ بعض اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔”

(ترمذی:حدیث نمبر 1458،باب ما جاء فی المرتد)

“فَسَارَ مُعَاذٌ فِي أَرْضِهِ قَرِيبًا مِنْ صَاحِبِهِ أَبِي مُوسَى،فَجَاءَ يَسِيرُ عَلَى بَغْلَتِهِ حَتَّى انْتَهَى إِلَيْهِ،وَإِذَا هُوَ جَالِسٌ،وَقَدِ اجْتَمَعَ إِلَيْهِ النَّاسُ وَإِذَا رَجُلٌ عِنْدَهُ قَدْ جُمِعَتْ يَدَاهُ إِلَى عُنُقِهِ،فَقَالَ لَهُ مُعَاذٌ:يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ،أَيُّمَ هَذَا؟قَالَ:هَذَا رَجُلٌ كَفَرَ بَعْدَ إِسْلَامِهِ،قَالَ:لَا أَنْزِلُ حَتَّى يُقْتَلَ،قَالَ:إِنَّمَا جِيءَ بِهِ لِذَلِكَ،فَانْزِلْ،قَالَ:مَا أَنْزِلُ حَتَّى يُقْتَلَ، فَأَمَرَ بِهِ فَقُتِلَ۔”

“(حضرت معاذ ؓ اور حضرت ابوموسیٰ ؓ کو رسول اللہﷺ نے یمن کے دو علاقوں کا گورنر بنا کر بھیجا تھا)ایک مرتبہ معاذ ؓ اپنے علاقہ میں اپنے ابوموسیٰ ؓ کے قریب پہنچ گئے اور اپنے خچر پر ان سے ملاقات کے لیے چلے۔جب ان کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہ بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے پاس کچھ لوگ جمع ہیں اور ایک شخص ان کے سامنے ہے جس کی مشکیں کسی ہوئی ہیں۔معاذ ؓ نے ان سے پوچھا:اے عبداللہ بن قیس!یہ کیا واقعہ ہے؟ ابوموسیٰ ؓ نے بتلایا کہ یہ شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پھر جب تک اسے قتل نہ کر دیا جائے میں اپنی سواری سے نہیں اتروں گا۔ابو موسیٰ ؓ نے کہا کہ قتل کرنے ہی کے لیے اسے یہاں لایا گیا ہے۔آپ اتر جائیں لیکن انہوں نے اب بھی یہی کہا کہ جب تک اسے قتل نہ کیا جائے گا میں نہ اتروں گا۔آخر ابو موسیٰ ؓ نے حکم دیا اور اسے قتل کر دیا گیا۔”

(بخاری:حدیث نمبر 4342،باب بعث ابی موسی و معاذ الی الیمن)

“عن زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ:أَنَّ رَسُولَ اللهِﷺ قَالَ:مَنْ غَيَّرَ دِينَهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَهُ۔”

حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

“جو شخص اسلام چھوڑ کر دوسرا دین اپنائے،اس کی گردن کاٹ دو۔”

(موطا امام مالک:حدیث نمبر 2726،باب القضاء فی من ارتد عن الاسلام،جلد 4 صفحہ 1065،طبع ابو ظہبی 2004ء)

امام مالک اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:

“قَالَ يَحْيَى،وَسَمِعْتُ مَالِكاً يَقُولُ:وَمَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّﷺ،فِيمَا نُرَى۔وَاللهُ أَعْلَمُ«مَنْ غَيَّرَ دِينَهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَهُ»۔أَنَّهُ مَنْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلاَمِ إِلَى غَيْرِهِ،مِثْلُ الْزَّنَادِقَةِ وَأَشْبَاهِهِمْ۔فَإِنَّ أُولَئِكَ إِذَا ظُهِرَ عَلَيْهِمْ،قُتِلُوا وَلَمْ يُسْتَتَابُوا۔لِأَنَّهُ لاَ تُعْرَفُ تَوْبَتُهُمْ،وَأَنَّهُمْ كَانُوا يُسِرُّونَ الْكُفْرَ وَيُعْلِنُونَ الْإِسْلاَمَ۔فَلاَ أَرَى أَنْ يُسْتَتَابَ هؤُلاَءِ۔وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهُمْ قَوْلُهُمْ۔وَأَمَّا مَنْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلاَمِ إِلَى غَيْرِهِ،وَأَظْهَرَ ذلِكَ،فَإِنَّهُ يُسْتَتَابُ۔فَإِنْ تَابَ،وَإِلاَّ قُتِلَ وَذلِكَ،لَوْ أَنَّ قَوْماً كَانُوا عَلَى ذلِكَ،رَأَيْتُ أَنْ يُدْعَوْا إِلَى الْإِسْلاَمِ وَيُسْتَتَابُوا،فَإِنْ تَابُوا قُبِلَ ذلِكَ مِنْهُمْ۔وَإِنْ لَمْ يَتُوبُوا قُتِلُوا۔وَلَمْ يَعْنِ بِذلِكَ،فِيمَا نُرَى وَاللهُ أَعْلَمُ مَنْ يَخْرُجُ مِنَ الْيَهُودِيَّةِ إِلَى النَّصْرَانِيَّةِ۔وَلاَ مِنَ النَّصْرَانِيَّةِ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ۔وَلاَ مَنْ يُغَيِّرُ دِينَهُ مِنْ أَهْلِ الْأَدْيَانِ كُلِّهَا إِلاَّ الْإِسْلاَمَ۔فَمَنْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلاَمِ إِلَى غَيْرِهِ،وَأَظْهَرَ ذلِكَ،فَذلِكَ الَّذِي عُنِيَ۔”

“یعنی امام مالک سے ارتداد کی تعریف میں منقول ہے کہ کوئی شخص اسلام سے نکل کر کسی دوسرے مذہب میں داخل ہوجائے تو اس کی گردن کاٹ دی جائے،جیسے کوئی زندیق ہوجائے،ایسے لوگوں کے بارہ میں اصول یہ ہے کہ جب زندیق پر غلبہ وتسلط حاصل ہوجائے تو اس سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے،کیونکہ ان لوگوں کی سچی توبہ کا اندازہ نہیں ہوسکتا،اس لئے کہ یہ لوگ کفر کو چھپاتے ہیں اور اسلام کا اظہار کرتے ہیں،پس میرا (امام مالک کا) خیال یہ ہے کہ ان کے کفر کی بنا پر ان کو قتل کردیا جائے،ہاں اگر کوئی اسلام سے نکل کر مرتد ہوجائے تو اس سے توبہ کرائی جائے،توبہ کرلے تو فبہا ورنہ اسے قتل کردیاجائے۔حضورﷺ کے ارشاد:”من بدل دینہ فاقتلوہ” کا معنی یہ ہے کہ جو شخص اسلام کو چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرلے وہ مرتد ہے،لہٰذا وہ شخص مرتد نہیں کہلائے گاجو اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین پر تھا،اوراس نے اپنا وہ مذہب چھوڑ کر کوئی دوسرا دین و مذہب اختیار کرلیا،لہٰذا نہ تواس سے توبہ کرائی جائے گی اور نہ ہی اس کو قتل کیا جائے گا،مثلاً:اگر کوئی یہودی،نصرانی بن جائے یاکوئی نصرانی،مجوسی بن جائے،خواہ وہ ذمی ہی کیوں نہ ہو،نہ تو اس سے توبہ کرائی جائے گی اور نہ ہی اس کو قتل کیا جائے گا۔”

(موطا امام مالک:باب القضاء فی من ارتد عنہ الاسلام،جلد 4 صفحہ 1065،طبع ابوظہبی 2004ء)

فقہ حنفی کی مشہور کتاب “ہدایہ” میں ہے:

“واذا ارتد المسلم عن الاسلام والعیاذ باللہ عرض علیہ الأسلام فان کانت لہ شبہة کشفت عنہ۔۔۔ویحبس ثلاثة ایام فان اسلم والا قتل۔”

”اور جب کوئی مسلمان نعوذباللہ! اسلام سے پھر جائے تو اس پر اسلام پیش کیا جائے،اس کو کوئی شبہ ہو تو دور کیا جائے، اس کو تین دن تک قید رکھا جائے،اگر اسلام کی طرف لوٹ آئے تو ٹھیک،ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔“

(ہدایة:باب احکام المرتدین،جلد 2 صفحہ 406،طبع بیروت)

فقہ شافعی کی شہرہ آفاق کتاب “المجموع شرح المھذب” میں ہے:

“اذا ارتد الرجل وجب قتلہ،سواء کان حرا اوعبدا۔۔۔وقد انعقد الاجماع علی قتل المرتد۔”

“اور جب آدمی مرتد ہوجائے تو اس کا قتل واجب ہے،خواہ وہ آزاد ہو یا غلام،اور قتلِ مرتد پر اجماع منعقد ہوچکا ہے۔”

(المجموع شرح المھذب:باب قتل المرتد،جلد 19 صفحہ 228،طبع دارالفکر)

فقہ حنبلی کی کتاب المغنی میں ہے:

“وَأَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى وُجُوبِ قَتْلِ الْمُرْتَدِّ۔وَرُوِيَ ذَلِكَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ،وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ،وَعَلِيٍّ،وَمُعَاذٍ،وَأَبِي مُوسَى،وَابْنِ عَبَّاسٍ،وَخَالِدٍ، وَغَيْرِهِمْ،وَلَمْ يُنْكَرْ ذَلِكَ،فَكَانَ إجْمَاعًا۔”

“قتل مرتد کے واجب ہونے پر اہل علم کا اجماع ہے،یہ حکم حضرت ابوبکر،عمر،عثمان،علی،معاذ،ابو موسیٰ،ابن عباس،خالد اور دیگر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے اور اس کا کسی صحابی نے انکار نہیں کیا،اس لئے یہ اجماع ہے۔”

(المغنی:جلد 9 صفحہ 3،طبع قاھرہ)

فقہ مالکی کے عظیم محقق ابن رشد مالکی کی مشہور زمانہ کتاب ”بدایة المجتہد“ میں ہے:

“وَالْمُرْتَدُّ إِذَا ظُفِرَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يُحَارِبَ فَاتَّفَقُوا عَلَى أَنَّهُ يُقْتَلُ الرَّجُلُ:لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ:مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ”

“اور مرتد جب لڑائی سے قبل پکڑا جائے تو تمام علمائے امت اس پر متفق ہیں کہ مرتد کو قتل کیا جائے گا‘ کیونکہ آنحضرتﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
“جو شخص اپنا مذہب بدل کر مرتد ہوجائے ، اس کو قتل کردو۔”

(بدایة المجتہد:باب فی حکم المرتد،جلد 4 صفحہ 242،طبع قاھرة 2004ء)

اسلامی حکومت کا کام ہے کہ زندیق کو فورا گرفتار کرے۔اگر زندیق گرفتاری سے قبل توبہ کرلے تو اس کی توبہ قابل قبول ہے۔لیکن اگر وہ گرفتاری کے بعد توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور اسے قتل کیا جائے گا۔
زندیق کے ساتھ کسی قسم کی تجارت کرنا یا تعلقات رکھنا جائز نہیں۔

جیسا کہ علامہ ابن عابدین شامیؒ(1252ھ) لکھتے ہیں:

“مَطْلَبٌ الزِّنْدِيقُ إذَا أُخِذَ قَبْلَ التَّوْبَةِ يُقْتَلُ وَلَا تُؤْخَذُ مِنْهُ الْجِزْيَةُ [تَنْبِيهٌ]قَالَ فِي الْفَتْحِ قَالُوا لَوْ جَاءَ زِنْدِيقٌ قَبْلَ أَنْ يُؤْخَذَ فَأَخْبَرَ بِأَنَّهُ زِنْدِيقٌ وَتَابَ تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ، فَإِنْ أُخِذَ ثُمَّ تَابَ لَا تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ وَيُقْتَلُ لِأَنَّهُمْ بَاطِنِيَّةٌ يَعْتَقِدُونَ فِي الْبَاطِنِ خِلَافَ ذَلِكَ فَيُقْتَلُ وَلَا تُؤْخَذُ مِنْهُ الْجِزْيَةُ۔وَسَيَأْتِي فِي بَابِ الْمُرْتَدِّ أَنَّ هَذَا التَّفْصِيلَ هُوَ الْمُفْتَى بِهِ۔”

“زندیق جب وہ توبہ سے پہلے پکڑا جائے تو اسے قتل کیا جائے گا۔اور اس سے جزیہ نہیں لیا جائے گا۔
(علامہ شامیؒ) نے فتح کے اندر فرمایا ہے۔اگر زندیق پکڑے جانے سے پہلے آجائے پھر اس بات کی خبر ہو جائے کہ وہ زندیق ہے۔اور توبہ کرلے تو اس کی توبہ کو قبول کیا جائے گا۔پس اگر وہ پکڑا جائے پھر توبہ کرے تو اس کی توبہ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔اور اسے قتل کیا جائے گا۔اس وجہ سے کہ باطنی طور پر اس کا عقیدہ فاسد ہے۔اس کے برخلاف (یعنی جو پکڑے جانے سے پہلے توبہ کرلے)قتل کیا جائے گا اور اس سے جزیہ نہیں لیا جائے گا۔”

(رد المحتار على الدر المختار:جلد 4 صفحہ 199،طبع دارالفکر بیروت 1992ء)

“عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ؓ،قَالَ النَّبِيُّﷺ:إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ،لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ،يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ۔”

حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
“اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کے صرف لفظ پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکال کر پھینک دئیے جائیں گے جس طرح تیر شکاری جانور میں سے پار نکل جاتا ہے، وہ اہل اسلام کو (کافر کہہ کر) قتل کریں اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے اگر میں نے ان کا دور پایا تو انہیں قوم عاد کی طرح قتل کر دوں گا۔”

(بخاری:حدیث نمبر 7432،باب قول اللہ تعالیٰ:تعرج الملائکة)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کلمہ گو بظاہر مسلمان بھی اگر ضروریات دین میں سے کسی کا انکار کرے تو اسلام سے نکل جاتا ہے۔فقہاء کی اصطلاح میں ایسے شخص کو زندیق کہا جاتا ہے۔

“عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؓ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِﷺ يَقُولُ:سَيَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ مَسْخٌ،أَلَا وَذَاكَ فِي الْمُكَذِّبِينَ بِالْقَدَرِ وَالزِّنْدِيقِيَّةِ۔”

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

“(آئیندہ زمانے میں)اس امت کے اندر بھی مسخ ہوگا۔(یعنی انسانوں کی صورتیں بدل کر جانور بنادی جائیں گی)ہوشیار رہنا یہ مسخ تقدیر کے منکروں اور زندیقوں کے لئے ہوگا۔”

(مسند احمد:حدیث نمبر 5867،مسند عبداللہ بن عمر ؓ)
(الخصائص الکبری:جلد 2 صفحہ 252)

اس حدیث میں زندیقوں کو بھی تقدیر کے منکروں کے ساتھ شامل کیا گیا ہے کہ جس طرح تقدیر کے منکر مسلمان نہیں رہتے اسی طرح ضروریات دین میں سے کسی ایک کا انکار کر کے زندیق بننے والے بھی مسلمان نہیں۔

امام طبرانی ؒ(063ھ) لکھتے ہیں:

“رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِﷺ يَقُولُ:يَكُونُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَكْفُرُونَ بِاللهِ وبِالْقُرَآنِ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ كَمَا كَفَرَتِ الْيَهُودُ، وَالنَّصَارَى،قَالَ:قُلْتُ:جُعِلْتُ فِدَاكَ يَا رَسُولَ اللهِ وَكَيْفَ ذَاكَ؟، قَالَ:يُقِرُّونَ بِبَعْضِ الْقَدَرِ ويَكْفُرُونَ بِبَعْضِهِ قَالَ:قُلْتُ:ثُمَّ مَا يَقُولُونَ؟قَالَ:يَقُولُونَ:الْخَيْرُ مِنَ اللهِ وَالشَّرُّ مِنْ إِبْلِيسَ،فَيُقِرُّونَ عَلَى ذَلِكَ كِتَابَ اللهِ ويَكْفُرُونَ بِالْقُرْآنِ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَالْمَعْرِفَةِ،فَمَا يَلْقَى أُمَّتِي مِنْهُمْ مِنَ الْعَدَاوَةِ وَالْبَغْضَاءِ وَالْجِدَالِ أُولَئِكَ زَنَادِقَةُ هَذِهِ الْأُمَّةِ فِي زَمَانِهِمْ يَكُونُ ظُلْمُ السُّلْطَانِ،فَيَنَالُهُمْ مِنْ ظُلْمٍ وَحَيْفٍ وَأَثَرَةٍ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ طَاعُونًا فَيُفْنِي عَامَّتَهُمْ،ثُمَّ يَكُونُ الْخَسْفُ فَمَا أَقَلَّ مَا يَنْجُو مِنْهُمْ،الْمُؤْمِنُ يَوْمَئِذٍ قَلِيلٌ فَرَحُهُ،شَدِيدٌ غَمُّهُ،ثُمَّ يَكُونُ الْمَسْخُ فَيَمْسَخُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ عَامَّةَ أُولَئِكَ قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ،ثُمَّ يَخْرُجُ الدَّجَّالُ عَلَى أَثَرِ ذَلِكَ قَرِيبًا،ثُمَّ بَكَى رَسُولُ اللهِﷺ حَتَّى بَكَيْنَا لِبُكَائِهِ،قُلْنَا:مَا يُبْكِيكَ؟قَالَ:رَحْمَةً لِهَمِّ الْأَشْقِيَاءِ،لِأَنَّ فِيهِمُ الْمُتَعَبِّدَ، وَمِنْهُمُ الْمُجْتَهِدَ،مَعَ أَنَّهُمْ لَيْسُوا بِأَوَّلِ مَنْ سَبَقَ إِلَى هَذَا الْقَوْلِ، وَضَاقَ بِحَمْلِهِ ذَرْعًا،إِنَّ عَامَّةَ مَنْ هَلَكَ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِالتَّكْذِيبِ بِالْقَدَرِ قُلْتُ:جُعِلْتُ فِدَاكَ يَا رَسُولَ اللهِ فَقُلْ لِي كَيْفَ الْإِيمَانُ بِالْقَدَرِ؟ قَالَ:تُؤْمِنُ بِاللهِ وَحْدَهُ وَأَنَّهُ لَا يَمْلِكُ مَعَهُ أَحَدٌ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَتُؤْمِنُ بِالْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَتَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ خَالِقُهُمَا قَبْلَ خَلْقِ الْخَلْقِ،ثُمَّ خَلَقَ خَلْقَهُ فَجَعَلَهُمْ مَنْ شَاءَ مِنْهُمْ لِلْجَنَّةِ، وَمَنْ شَاءَ مِنْهُمْ لِلنَّارِ،عَدْلًا ذَلِكَ مِنْهُ،وَكُلٌّ يَعْمَلُ لِمَا فُرِغَ لَهُ وَهُوَ صَائِرٌ إِلَى مَا فُرِغَ مِنْهُ قُلْتُ:صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ۔”

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

میری امت میں ایک قوم ایسی بھی ہوگی جو خدا اور قرآن کی منکر اور کافر ہو جائے گی۔اور ان کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔(کہ ہم کافر ہوگئے)جیسے یہودی اور نصرانی کافر ہوگئے۔یہ وہی لوگ ہوں گے جو تقدیر کے ایک جزو کا اقرار کریں گے اور ایک جزو کا انکار کریں گے۔یہ کہیں گے کہ خیر اللہ کی طرف سے ہے اور شر شیطان کی جانب سے ہے۔(یعنی ان کا عقیدہ یہ ہوگا کہ خیر کا خالق اللہ اور شر کا خالق شیطان ہے)اپنے اس عقیدے کے ثبوت میں وہ قرآن مجید کی آیات پڑھیں گے۔چنانچہ یہ لوگ قرآن پر ایمان لانے اور علم و معرفت حاصل کرنے کے بعد محض اس عقیدے کی وجہ سے کافر ہو جائیں گے۔میری امت(یعنی مسلمانوں) کو ان لوگوں سے کس قدر جنگ و جدل اور بغض و عناد کا سامنا کرنا پڑے گا۔یہ لوگ اس امت کے زندیق ہیں۔ان کے عہد میں حکمرانوں کا ظلم و ستم حد سے بڑھ جائے گا۔ایسے ظلم اور ایسی حق تلفی سے اللہ کی پناہ۔اس کے بعد اللہ تعالٰی ایک ایسا طاعون بھیجیں گے جو ان میں سے اکثر لوگوں کو ہلاک کردے گا۔اس کے بعد خسف ہوگا۔(یعنی یہ لوگ زمین میں دھنسا دئیے جائیں گے)تو شاید ہی ان میں سے کوئی زندہ بچے۔ان دنوں میں اہل ایمان کے لئے خوشی اور مسرت ختم اور غم و الم حد سے زیادہ ہوگا۔اس کے بعد مسخ ہوگا تو اللہ تعالیٰ ان میں سے باقی تمام لوگوں کو بندر اور خنزیر بنادے گا۔پھر اس کے بعد دجال کا ظہور ہوگا۔

(المعجم الکبیر للطبرانی:حدیث نمبر 4270،جلد 4 صفحہ 245،طبع قاھرہ)

(کنزالعمال:حدیث نمبر 38828،باب خروج الدجال)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زندیق کافر ہیں۔

“عَنْ عِکْرَمَۃَ أَنَّ عَلِیًّا ؓ ‌أُتِیَ بِقَوْمٍ مِنْ ھٰؤُلَائِ الزَّنَادِقَۃِ وَمَعَہُمْ کُتُبٌ، فَأَمَرَ بِنَارٍ فَأُجِّجَتْ ثُمَّ أَحْرَقَہُمْ وَکُتُبَہُمْ۔”

حضرت عکرمہ سے روایت ہے:

“سیدنا علی ؓ کے پاس زندیق لوگوں کو لایا گیا،ان کے پاس ان کی کتابیں بھی تھیں،سیدنا علی ؓنے پہلے آگ جلانے کا حکم دیا،پس آگ بھڑ کائی گئی،پھر انھوں نے ان زندیقوں اور ان کی کتابوں کو جلا دیا۔”

(مسند احمد:حدیث نمبر 2551،مسند عبداللہ بن عباس ؓ)

“عَنْ قَابُوسَ بْنِ مُخَارِقٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: بَعَثَ عَلِيٌّ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ أَمِيرًا عَلَى مِصْرَ فَكَتَبَ مُحَمَّدُ إِلَى عَلِيٍّ يَسْأَلُهُ عَنْ زَنَادِقَةٍ مِنْهُمْ مَنْ يَعْبُدُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَعْبُدُ غَيْرَ ذَلِكَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يُدْعَى لِلْإِسْلَامِ:فَكَتَبَ عَلِيٌّ وَأَمَرَ بِالزَّنَادِقَةِ أَنْ يَقْتُلَ مَنْ يُدْعَى لِلْإِسْلَامِ، وَيُتْرَكُ سَائِرُهُمْ يَعْبُدُونَ مَا شَاءُوا۔”

حضرت مخارق فرماتے ہیں:

“حضرت علی ؓ نے محمد بن ابی بکر کو مصر والوں پر امیر بنا کر بھیجا۔تو انہوں نے حضرت علی ؓ سے خط لکھ کر زنادقہ کے بارے میں سوال کیا۔جن میں سے کچھ سورج اور چاند کی پوجا کرتے تھے۔اور ان میں سے کچھ ان کے علاوہ چیزوں کی پرستش کرتے تھے اور کچھ اسلام کا دعویٰ کرتے تھے۔حضرت علی ؓ نے ان کو خط میں زنادقہ کے بارے میں حکم دیا کہ ان میں سے جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں ان کو قتل کردو۔باقی سب کو چھوڑ دو وہ جس کی چاہیں عبادت کریں۔”

(مصنف ابن ابی شیبہ:حدیث نمبر 33410،باب فی الزنادقه ما حدھم؟)

علامہ ابنِ تیمیہؒ(728ھ) “الصارم المسلول” میں لکھتے ہیں:

“و روي عن أبي إدريس قال:أتي علي برجل قد تنصر فاستتابہ فأبى أن يتوب فقتله۔و أتي برهط يصلون القبلة و هم زنادقة و قد قامت عليهم بذلك الشهود العدول فجحدوا و قالوا:”ليس لنا دين إلا الإسلام”فقتلهم و لم يستتبهم ثم قال:أتدرون لم استتبت هذا النصراني؟استتبته:لأنه أظهر دينه،و أما الزنادقة الذين قامت عليهم البينة و جحدوني فإنما قتلتهم لأنهم جحدوا و قامت عليهم البينة۔”

ابو ادریس سے منقول ہے:

حضرت علی ؓ کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جو نصرانی بن گیا تھا،آپ نے ان سے توبہ کرنے کو کہا،اس نے انکار کیا پس آپ نے اسے قتل کرڈالا۔اور آپ کے پاس کچھ ایسے لوگوں کو لایا گیا جوقبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے حالانکہ وہ زنادقہ تھے اور ان کے زندیق ہونے پر عادل گواہ موجود تھے،لیکن انہوں نے زندیق ہونے کا انکار کیا اور کہا کہ ہمارا دین اسلام ہی ہے،پس حضرت علی ؓ نے ان کو قتل کردیا اور ان سے توبہ کرنے کو نہیں فرمایا۔ پھر آپ ؓ نے فرمایا:
“کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے اس نصرانی سے کیوں توبہ کرنے کو کہا؟ (پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ) میں نے اس سے اس لیے توبہ کرنے کو کہاکہ اس نے اپنے دین کا اظہار کیا، جہاں تک زنادقہ کا تعلق ہے جن کے خلاف بینہ قائم ہوگیا تھا اور انہوں نے میرے سامنے (زندیق ہونے سے) انکار کیا تو میں نے ان کو اس لیے قتل کیا کہ انہوں نے انکار کیا اور ان پر بینہ قائم ہوگیا۔”

(الصارم المسلول ابن تیمیہ:جلد 1 صفحہ 360،المسألة الثالثة:انه یقتل ولا یعستتاب)

حضرت علی ؓ کے اس بیان پر علامہ ابنِ تیمیہؒ تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

“فهذا من أمير المؤمنين عَلیٍٍّ بيان أن كل زنديق كتم زندقته و جحدها حتى قامت عليه البينة قتل و لم يستتب۔و أن النبيﷺ لم يقتل من جحد زندقته من المنافقين لعدم قيام البينة۔ “

“یہ امیر المومنین علی ؓ کی طرف سے اس بات کا بیان ہے کہ ہر وہ زندیق جو اپنے زندقہ کو چھپائے اور اس سے انکار کرے یہاں تک کہ اس کے خلاف گواہی آجائے تو اس کو قتل کیا جائے گا اور اس سے توبہ نہیں طلب کی جائے گی۔ اور حضورﷺ نے ان منافقین کو جنہوں نے اپنا زندقہ چھپایا تھا، اس لیے قتل نہیں کیا کہ ان کے خلاف بینہ قائم نہیں ہوئی تھی۔”

(الصارم المسلول ابن تیمیہ:جلد 1 صفحہ 360،المسألة الثالثة:انه یقتل ولا یعستتاب،طبع سعودیہ)

مندرجہ بالا احادیث اور حضرت علی ؓ کے اس عمل سے زندیقوں کی سزا متعین ہوتی ہے۔زندیق کی سزا قتل ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ زندیق جب کسی ضرورت دین کا انکار کرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں رہتا بلکہ مرتد ہوجاتا ہے اور مرتد کی سزا قتل ہے جیسا کہ دلائل مرتد کے حوالہ جات میں گزر چکے ہیں۔زندیق کا دوسرا جرم یہ ہے کہ وہ باوجود کافر ہونے کے اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتا ہے۔

مرتد اور زندیق کی مذکورہ سزا کے اجرا کا حق ہر فرد کو حاصل نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف حکومتِ وقت کو حاصل ہے۔

مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے ماننے والے تمام قادیانی،چاہے وہ اپنے آپ کو احمدی اور لاہوری کہیں وہ تمام قادیانی خارج از اسلام،کافر،مرتد اور زندیق ہیں۔جو پہلے مسلمان ہو پھر قادیانی بنے تو ایسا شخص مرتد کہلائے گا اور اگر پیدائشی قادیانی ہے تو ایسا شخص زندیق کہلاتا ہے۔کیونکہ تمام قادیانی باوجود کافر ہونے کے اپنے آپ کو مسلمان اور اپنے مذہب کو اسلام کہتے ہیں۔
قادیانیوں سے معاملات کا حکم دیگر کفار سے مختلف ہے کیونکہ یہ مرتد اور زندیق ہونے کے باوجود اپنے کفر کو اسلام کہتے ہیں۔اس لئے قادیانیوں سے کسی قسم کا تعلق رکھنا،ان کی امداد کرنا یا تجارت کرنا جائز نہیں۔ورنہ تعلقات رکھنے والے یا تجارت کرنے والے بھی قیامت کے دن رسول اللہﷺ کے مجرم ہیں۔

جیسا کہ ہمیں قادیانیوں کا حکم معلوم ہوا کہ قادیانی مرتد اور زندیق ہیں اور ان سے کسی قسم کا تعلق رکھنا یا تجارت وغیرہ کرنا جائز نہیں ہے۔اس لئے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ کم از کم قادیانی مصنوعات کا بائیکاٹ کرے۔ذیل میں چند قادیانی مصنوعات کی لسٹ دی جارہی ہے قادیانیوں کی ان مصنوعات کا خود بھی بائیکاٹ کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں کہ وہ یہ قادیانی مصنوعات استعمال نہ کریں۔

1) شیزان(Shezan) کمپنی کے جوس،کیچپ،اچار،چٹنی،جام،ثمر قند شربت اور شیزان کی تمام پراڈکٹس
2) ذائقہ(Zaiqa) گھی اور کوکنگ آئل
3) مشموم(Mashmoom) آئل
4) شاہ تاج (ShahTaj)شوگر مل کی چینی
5) کنگ(King) کوکنگ آئل اور بناسپتی
6) سنگم (Singham)دودھ
7) وورٹیکس (Vortex) اسٹیبلائزر
8) یونیورسل(Universal) اسٹیبلائزر
9) کوکنگ آئل Canolive
01) پرل(Pearl) بناسپتی
11) بیٹا(Beta) پائپ
21) ماسٹر(Master) بلیڈ
31) شان(Shan) آٹا
41) سونی(Sony) سائیکل
51) سپیڈ (Speed)انرجی ڈرنک
61) ماسٹر(Master) ٹیکسٹائل ملز
71) نیٹس (Nets) کالج
81) تھرمو (Thermo)پلاسٹک
91) ٹربو(Turbu) پلاسٹک
02) سابقہ Ocs کورئیر سروس موجودہ M&P کورئیر کورس
12) کلفٹن(Clifton)شوز
22) کمبائنڈ (Combined)ٹیکسٹائل
32) رومی(Romi) ٹریولز
42) شاہ نواز(ShahNawaz) ٹیکسٹائل ملز
52
) راجہ (Raja)سوپ

1) کیوریٹیو(Curative) ہومیو کمپنی
2) لیکسو(Lexo)ہومیو کمپنی
3) ہومیو کمپنی (B.F)
4) وارسن(nosraW) ہومیو کمپنی
5) مطب حمید(گوجرانوالہ)
6)
خورشید یونانی دواخانہ
7) دواخانہ حکیم نظام جان

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *