’’۷؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء کو ملتان قلعہ کہنہ قاسم باغ میں جنوبی پنجاب کی سطح پر عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے زیرِاہتمام ایک بڑی عظیم الشان ختمِ نبوت کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں اور مہمانانِ گرامی کے علاوہ جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مہتمم اور عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے نائب امیر مرکزیہ حضرت مولانا سید سلیمان یوسف بنوری دامت برکاتہم، نائب مہتمم مولانا احمد یوسف بنوری مدظلہٗ اور استاذِ جامعہ مولانا محمد عمر انور مدظلہٗ اور امیر عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کراچی واستاذِ جامعہ مولانا محمد اعجازمصطفیٰ مدظلہٗ بھی شریک ہوئے۔ مہتمم جامعہ اور نائب امیرِ مرکزیہ حضرت مولانا سید سلیمان یوسف بنوری دامت برکاتہم نے ایک نشست کی صدارت فرمائی، جس میں حضرت مولانا احمد یوسف بنوری مدظلہٗ نے شرکائے کانفرنس سے ایک پرمغز، مؤثر اور بہت ہی اہم خطاب کیا، جسے اُن کی نظرثانی کے بعد افادۂ عام کی غرض سے ہدیۂ قارئینِ بینات کیا جارہا ہے۔ ‘‘ (ادارہ)
الحمد للہ وحدہٗ والصلاۃ والسلام علٰی من لانبي بعدہٗ، أما بعد: أعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم’’وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللہِ کَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَلَمْ یُوْحَ اِلَیْہِ شَیْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللہ۰ۭ وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗىِٕکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْہِمْ۰ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْ۰ۭ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ ‘‘ (الانعام:۹۳)
ہو نہ یہ گل تو بلبل کا ترنّم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو مے بھی نہ ہو خُم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی نہ ہو اور تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا اِستادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
اکابرین علماء امت، اساطینِ علم اور وہ بزرگ جن کے ہاتھوں میں ہم نے اپنے ہاتھ شفاعت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم حاصل کرنے کی غرض سے دے دئیے ہیں اور اس کھلے آسمان کے تلے پاکستان کے اطراف واکناف سے پیادہ اور سوار ہو کر خدا کے حضور گواہی دینے والے میرے عزیز مؤمن برادرانِ گرامی!
حقیقت یہ ہے ہم بہت سی نسبتوں سے ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنی شناخت کے لیے بہت سے نام رکھ رکھے ہیں۔ ہم پرچم اختیار کرتے ہیں تو اس کی سربلندی کے ساتھ ہمارا سر اس پرچم کے ساتھ افتخار سے بلند ہوتا ہے، لیکن آسمان گواہ ہے، اس شب کی تاریکی میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ اس سچائی پر پردہ ڈال سکے کہ ہم نے تمام نسبتیں، تعلُّق اور ناتے چھوڑ کر چودہ سو سال پہلے فاران کی گھاٹیوں میں پیغامِ حق بلند کرنے والے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کے علاوہ کسی نسبت کو ترجیح نہیں دی۔ یہ وہ اصل ہے، وہ حقیقت ہے کہ کوئی حقیقت اس سے بالا نہیں ہوسکتی، ہم ناتواں ہیں، ہم بہت کمزور ہیں، خالقِ کائنات جانتا ہے کہ بولنے والی زبان کے اندر اتنی طاقت اور توانائی نہیں کہ وہ اس حقیقت کا حق ادا کرسکے اورشاید سننے والے بھی اس کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ اخلاص کے ساتھ اس پیغام کو سچ سمجھ سکیں۔
لیکن یہ حقیقت ہے کہ ماں ہمیں عزیز ہے، ہم اس کے قدموں کے تلے جنت دیکھتے ہیں، لیکن محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے بعد دیکھتے ہیں۔ ہم اپنے باپ کا نام اپنے نام سے پہلے لگانا فخر سمجھتے ہیں، لیکن اس ملتان کی سرزمین میں اس بات کا اعلان پھر کر دینا چاہتے ہیں کہ باپ کی نسبتوں کا افتخار ایک طرف، آمنہ کے لال ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عظمت سب سے مقدم ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو ختمِ نبوت کے نام سے دہرائی جارہی ہے، بتلائی جارہی ہے۔ نسل کے بعد نسل، فرد کے بعد فرد، خاندان میں کوئی مجھ سا نکما ہو یا کوئی اعلیٰ منصب پرفائز ہو، اسی ایک بات کو کہنے کے لیے اپنے حصہ کی توانائی جمع کرکے خدا سے اپنے لیے اخلاص مانگ کر اس عہد کا اعلان کرنے آتے ہیں۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجانی چاہیے کہ یہ گواہی اس گواہی کا تسلسل ہے، جب اس کائنات کی سب سے عظیم ہستی، اس کائنات کی وجہِ تخلیق محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے مقام پر اپنے ایک لاکھ جان نثار صحابہؓ سے ایک طویل خطبہ کے بعد پوچھا تھا: ’’اَلا ہَلْ بَلَّغتُ؟‘‘ کیا جو آسمان سے مجھ پرامانت اُتری تھی، ذاتِ الٰہی نے آسمان کے سات پردے فاش کرکے میرے قلب کو مہبطِ وحی بنا کر جس حقیقت کا اعلان کیا تھا، کیا میں نے تمہیں پہنچا دیا؟ تو پورے مجمع نے یک زبان ہوکر کہا تھا: ’’نعم نحن نشہد أنت بلّغت ہٰذہ الأمانۃ‘‘ اور اس وقت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر کہا تھا: اے بارگاہِ خداوندی! تو اس بات کی شہادت دے ، یہ تمام مجمع کہہ رہا ہے کہ جو پیغام مجھ تک پہنچا تھا، وہ میں نے پہنچا دیا اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انسانوں کو کہا تھا:’’ فلیبلغ الشاہد الغائب‘‘جو تم میں سے موجود ہیں، وہ یہ پیغام اگلی نسلوں کو پہنچائیں۔ تاریخ گواہ ہے، اس کے بعد کربلاہو، شاملی ہو یا اس ملتان میں اس کا نسلی بیٹا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ہو، ہم اور ہمارے آباء تمام یہ گواہیاں اپنی پوری ایمان داری کے ساتھ دیتے رہے ہیں۔
آج اس آسمان کو مخاطب کرکے پھر اس کے امتی اﷲتبارک وتعالیٰ سے عاجزانہ درخواست کرتے ہیں، ہم ناتواں ہیں، مجمع کی طاقت کا بھروسہ نہیں، آواز کے خروش کا سہارا نہیں، اخلاص پر یقین نہیں، ہمیں لوگوں کے عزائم کے بارے میں کوئی اچھا گمان نہیں، لیکن ہم جتنی کچھ صلاحیت اور زورِ بیان رکھتے ہیں، یہ پیغام بتائیں گے کہ آسمان نے آخری بار کسی سے خطاب کیا تو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا۔ ہم یہ پیغام دیں گے اور دیتے رہیں گے، تم لوگ بھی یہ شہادت دیتے ہو؟ …… ہاتھ اُٹھانے میں جلدی مت کرنا …… بہت سے اور حضرات آئیں گے، وہ آپ حضرات سے اپنے انداز سے آپ کے جذبات اُبھاریں گے۔ گزارش یہ ہے کہ ہاتھ اُٹھانے میں جلدی مت کرنا، ہاں! اس پیغام کے سامنے سر جھکانے میں دیر نہ کرو۔ ایک بار دامنِ دل کو ٹٹول کر دیکھو، دیکھو! اگر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا چراغ جل رہا ہے تو کل مدِ مقابل تاجِ برطانیہ ہو یا امریکہ ہو، کوئی طاقت، کوئی مائی کا لال اس پیغام کی گواہی دینے سے ہمیں روک نہیں سکتا، کیونکہ ہم نے یہ گواہی مجمعوں کے زور پر نہیں دی، ہم نے یہ گواہی طاقت کے نشے میں نہیں دی، طاقت پہ بھروسہ سے بدترین گالی ہمارے مذہب میں نہیں۔ طاقت کا نشہ نہیں، مجمع کا نشہ نہیں، اپنے حواس کا نشہ نہیں، علم کا نشہ نہیں، بات صرف اتنی ہے اس امانت کے ساتھ ہماری نجات وابستہ ہے اور پوری کائنات کی نجات وابستہ ہے۔
ہم اس موقع پر پورے اطمینان کے ساتھ پوری دنیا سے مخاطب ہونا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے ہمارے لہجے میں اتنی سچائی کی جھلک محسوس نہ ہوتی ہو، جو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جانثاران صحابہؓ اور اہلِ بیتؓ کا اثاثہ تھی۔ ممکن ہے ہمارے اخلاق میں کمی آگئی ہو، رات کی تاریکیوں نے ہمارے دامن کو اتنا اُجالا نہ بخشا ہو کہ ہم اس منصب کا مرتبہ دکھا سکیں کہ کائنات میں پیغمبرانہ سچائی چلتی کس طرح تھی، بولتی کس طرح تھی، اس کی صرف انگلی اُٹھتی تھی تو خدا کی طاقت کیسے جواب دیا کرتی تھی۔ خدا نے اس پر ایمان لانے کے نتیجہ میں ہمارے لیے انعامات کیا رکھے ہیں۔
مگر ہم عاجزانہ درخواست کرتے ہیں، ہمیں تمہاری ایجادات سے مسئلہ نہیں، ہمیں تمہاری عقل وشعور کی ترقیوں سے بَیر نہیں، ہماری تمہاری جنگ ملک اور ملت کی نہیں، وہ جنگیں ہم نئے عنوان سے لڑتے ہیں، وہ جنگیں بھی انسانی جنگیں ہیں، اس کا بھی عقلی جواز ہے، مگر ہم اس کے لیے عنوان الگ الگ کرتے ہیں۔ لیکن یہ سچ پوری دیانت داری کے ساتھ سنو، اگر تم عقل و شعور کے ساتھ واسطہ رکھتے ہو تو یہ ہمارا پیغام سمجھو۔ ہماری بات پہ غور کرو کہ کسی کو یہ جرأت نہیں دی جاسکتی، یہ بات سرے سے قابلِ فہم نہیں ہوسکتی، اس بات کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ کسی خطے میں جس کا دل چاہے وہ دامنِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہاتھ ڈالے۔
یہ ہماری اَنا کا مسئلہ نہیں ہے، یہ ہمارے علم کا مسئلہ ہے۔ یہ وہ علم ہے جو علم مل نہیں سکتا، مگر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ یہ مسئلہ طاقت کا مسئلہ نہیں، یہ مسئلہ سیٹ اور اقتدار کا مسئلہ نہیں۔ ہم میں اتنی غیرت ہے کہ جب اقتدار کی جنگ لڑتے ہیں تو اسی عنوان سے لڑتے ہیں، ہمارے اندر اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ جب ہم کوئی چیز مانگتے ہیں تو اس کے اصولوں پر مانگتے ہیں، مگر یہ مسئلہ تمہاری نجات کا ہے۔ تم نے فلسفہ کی اڑھائی ہزار سال تاریخ دیکھ رکھی ہے، پچھلے اڑھائی سو سالوں میں انڈسٹریل ریولوشن (صنعتی انقلاب) برپا ہوتے ہوتے دیکھا ہے۔ آج ان نئے عنوانوں سے ہم تم سے استفادہ کررہے ہیں اور کرنے کو تیار ہیں، مگر جان رکھو! یہ ختمِ نبوت سے مقابلہ آسمانی علم سے مقابلہ ہے۔ یہ واحد امانت ہے جو غریب کو تسلی دیتی ہے، میں غریب مرجائوں گا، میرے رب کی رحمت جنت دے گی، تم اس علم پر ہاتھ اٹھائو گے، غریب سے اس کا آخری سہارا چھینوگے، ہمارے شعور کو چھینو گے، اس بات پر کمپرومائز نہیں ہوسکتا۔ یہ بات سمجھو، ہمارے لہجے کی طاقت پہ غور نہ کرو، ہماری دلیل سمجھو، ہماری بات کا خلوص تلاش کرو۔ ہم غریب سہی، ہم طاقت کے میدانوں میں کمزور سہی، مگر تم اپنے ایوانوں میں خود کاشتہ پودے پیدا کرکے اگر یہ چیز چھیننے کی کوشش کرو گے زمین پلٹ جائے گی، ہماری مائیں ہم سے رشتہ توڑ دیں گی، ہم کسی طور جی نہیں پائیں گے۔ یہ آخری وحی ہے، پورے اطمینان کے ساتھ ہم اس پر خدا سے اجر کی امید رکھتے ہیں، لہٰذا دھمکی کی بات نہیں، زورو زبردستی کے فیصلے نہیں۔ طاقت کی بات تو تم کررہے ہو، تم ہماری غربت کا مذاق اُڑاکر ہماری ظاہری دنیا میں پیچھے رہ جانے پر پھبتی کس رہے ہو، تمہارا خیال یہ ہے کہ تم نے برقی قمقمے بنائے تو شاید شعور کے نہاں خانوں میں جگمگاتی وحی کی روشنی بھی تم بنا سکو گے۔ لیکن یہ معاملہ کوئی اور ہے، یہ سلسلہ کوئی اور ہے، یہاں تمہاری چیز نہیں چلے گی۔
لہٰذا مہمانانِ گرامی! پورے اطمینان کے ساتھ اس قافلے کی ہمراہی میں شرکت اختیار کیجئے۔ فروعات سے بلند ہوکر اپنے سارے اختلاف کو ان کی اپنی جگہوں پر رکھتے ہوئے اور تمام اپنی شناختوں کو برقرار رکھتے ہوئے ہم ملتان سے لے کر چناب نگر، چناب نگر سے لے کر آسٹریلیا کے صحرائوں تک اس بات اور اس پیغام کو پہنچادیں گے کہ:
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
لہٰذا اس پیغام کی سچائی کو گلی گلی اور نگر نگر تک پہنچانے کے لیے اپنے پورے اخلاص کے ساتھ پوری تندہی کے ساتھ اس قافلہ کا حصہ بنئے، تاکہ پیغام دیا جاسکے کہ عمارتیں کہنہ ہوجاتی ہیں، اس آباد اسٹیڈیم کا نام کہنہ رکھ دیا جاتا ہے۔(1) سلطنتیں سکڑتی اور پھیلتی رہتی ہیں، لیکن عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کے بیٹے ملتان میں آکر ایک مرتبہ پھر کہتے ہیں: ایوب خان کی آمریت نہیں رہی تو آپ کا جبر بھی نہیں رہے گا۔ یہ چہرہ بدل سکتا ہے، مگر ہم سے کوئی اپنی نیّت نہیں چھپا سکتا، ہم جانتے اور سمجھتے ہیں، یہ طاقت زیادہ دیر نہیں رہے گی۔ یزید کے دربار میں نہیں رہی، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے منصور کے دربار میں نہیں رہی تو یہ طاقت زیادہ دیر نہیں رہے گی۔ یہ آسمان کا فیصلہ ہے اوراگر زمین میں ایک بھی اﷲ اﷲ کہنے والا نہیں ہوا تو پھر آسمان سے فیصلہ خود اُترے گا، یہ چراغ بجھا دئیے جائیں گے، میرے رب کو اس زمین کی ضرورت باقی نہیں رہے گی، سورج بے نور ہوجائے گا، ستارے کام کرنے چھوڑ دیں گے۔ پھر ربِ کائنات خود اس کائنات کو پکارے گا: ’’ لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ‘‘ آج کس کی حکومت ہے؟’’ لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ!‘‘
جاہ و جلال دام و درم اور کتنی دیر
ریگِ رواں پہ نقشِ قدم اور کتنی دیر
اب اور کتنی دیر یہ دہشت یہ ڈر یہ خوف
گرد و غبار عہدِ ستم اور کتنی دیر
حلقہ بگوشوں عرض گزاروں کے درمیان
یہ تمکنت یہ زعمِ کرم اور کتنی دیر
شام آ رہی ہے ڈوبتا سورج بتائے گا
تم اور کتنی دیر ہو ہم اور کتنی دیر
وآخر دعوانا أن الحمد ﷲ رب العالمین!
(1) یہ جلسہ ملتان کے کہنہ اسٹیڈیم (قلعہ کہنہ قاسم باغ)میں منعقد کیا گیا تھا۔