قادیانیوں سے ہمارے بنیادی اختلافات

admin

admin

قادیانیوں سے ہمارے تین بڑے بنیادی اختلافات ہیں۔

1) عقیدہ ختم نبوتﷺ
2)رفع و نزول سیدنا عیسٰیؑ
3)ظہور مہدی

1) عقیدہ ختم نبوتﷺ

ہمارے نزدیک نبیوں کی دو اقسام ہیں۔
1)شرعی نبی
2)غیر شرعی نبی

شرعی نبی:

شرعی نبی اللہ تعالیٰ کا منتخب کردہ وہ بندہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لئے منتخب کرتے ہیں اور ساتھ شریعت،کتاب یا صحیفے دئیے جاتے ہیں۔

غیر شرعی نبی:

غیر شرعی نبی اللہ تعالیٰ کا منتخب کردہ وہ بندہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لئے منتخب کرتے ہیں اور وہ اپنے سے پہلے شرعی نبی یا رسول کی شریعت کو پھیلاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں سب سے پہلے سیدنا آدمؑ کو پیدا فرمایا۔حضرت آدمؑ نہ صرف پہلے انسان تھے بلکہ پہلے نبی اور رسول بھی تھے۔آدمؑ کے بعد اللہ تعالٰی نے دنیا میں بہت سے نبی بھیجے۔

ایک حدیث میں ذکر ہے:

عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ الْبَاھْلِیِّ ؓ،قَالَ: قَالَ اَبُوْ ذَرٍّ ؓ:یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کَمْ وَفّٰی عِدَّۃُ الْاَنْبِیَائِ؟ قَالَ:مِائَۃُ اَلْفٍ وَ اَرْبَعَۃٌ وَ عِشْرُوْنَ اَلْفًا، اَلرُّسُلُ مِنْ ذٰلِکَ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَخَمْسَۃَ عَشَرَ جَمًّا غَفِیْرًا۔

سیدنا ابو امامہ باہلی ؓ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوذر ؓ نے کہا:اے اللہ کے رسول! انبیاء کی تعداد کتنی تھی؟آپﷺ نے فرمایا:ایک لاکھ چوبیس ہزار،ان میں تین سو پندرہ رسول تھے،جم غفیر تھا۔

(مسند احمد:حدیث نمبر 22644)

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی بھیجے ہیں جن میں سے شریعت لانے والے رسول 315 تھے۔

نبوت کے جس سلسلے کا آغاز حضرت آدمؑ سے ہوا تھا۔اس کا اختتام ہمارے آقا و مولا حضرت محمدﷺ پر ہوا۔آپ کو خاتم النبیینﷺ کا تاج پہنایا گیا اور دین کو کامل و مکمل کر کے نبوت کے سلسلے کو آپﷺ پر ہمیشہ کے لئے ختم کردیا گیا۔رسول اللہﷺ کی نبوت اتنی کامل ہے کہ جس میں قیامت تک کسی نئے نبی کی نہ ہی گنجائش ہے اور نہ ہی ضرورت ہے۔اس لئے رسول اللہﷺ کے بعد قیامت کی صبح تک نہ کسی کو شرعی نبوت دی جائے گی اور نہ ہی کسی کو غیر شرعی نبوت دی جائے گی۔یعنی رسول اللہﷺ کے بعد نبیوں کی تعداد میں کسی ایک نبی یا رسول کا اضافہ نہیں ہوگا۔اسی عقیدے کو عقیدہ ختم نبوتﷺ کہا جاتا ہے۔

عقیدہ ختم نبوتﷺ قرآن مجید کی 100 کے قریب آیات اور رسول اللہﷺ کی 200 سے زائد احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے۔ذیل میں قرآن مجید کی آیت اور چند احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں جن سے عقیدہ ختم نبوتﷺ ثابت ہوتا ہے۔

عقیدہ ختم نبوتﷺ ازروئے قرآن:

قرآن مجید میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں۔

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا۔

محمدﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں،لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں،اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں،اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے۔

(سورۃ الاحزاب آیت نمبر 40)

آیت کا شان نزول:

عرب معاشرے میں یہ قبیح رسم موجود تھی کہ وہ لےپالک بیٹے کو حقیقی بیٹا سمجھتے تھے اور اس لےپالک کو تمام احوال و احکام میں بھی حقیقی بیٹا ہی سمجھتے تھے اور مرنے کے بعد وراثت،حلت و حرمت،رشتہ،ناطہ وغیرہ تمام احکام میں بھی حقیقی بیٹا ہی تصور کرتے تھے۔

جس طرح نسبی بیٹے کے مرجانے یا طلاق دینے کے بعد باپ کے لئے حقیقی بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے اسی طرح وہ لےپالک بیٹے کی طلاق یافتہ یا بیوہ بیوی سے نکاح کو حرام سمجھتے تھے۔

اس آیت میں اللہ تعالٰی نے ان کی قبیح رسم کا خاتمہ فرمایا۔

حضرت زید ؓ بن حارث حضورﷺ کے غلام تھے۔حضورﷺ نے انہیں آزاد کرکے اپنا بیٹا بنالیا۔صحابہ کرام ؓ نے بھی ان کو زید ؓ بن حارث کی بجائے زید ؓ بن محمد کہنا شروع کردیا تھا۔

حضرت زید ؓ بن حارث کی اپنی بیوی حضرت زینب ؓ سے ناچاتی ہوگئی اور انہوں نے حضرت زینب ؓ کو طلاق دے دی۔

تو اللہ تعالٰی نے حضورﷺ کو حکم فرمایا کہ آپ حضرت زینب ؓ سے نکاح فرمالیں۔تاکہ اس قبیح رسم کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے۔

جب حضورﷺ نے حضرت زینب ؓ سے نکاح فرمالیا تو مشرکین نے اعتراض شروع کر دیا کہ آپﷺ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا ہے۔

چنانچہ جواب میں اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمایئں۔اس ایک فقرے میں ان تمام اعتراضات کی جڑ کاٹ دی گئی ہے جو مخالفین نبیﷺ کے اس نکاح پر کر رہے تھے۔

ان کا اولین اعتراض یہ تھا کہ آپﷺ نے اپنی بہو سے نکاح کیا ہے حالانکہ آپﷺ کی اپنی شریعت میں بھی بیٹے کی منکوحہ باپ پر حرام ہے۔

اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ محمّد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں،یعنی جس شخص کی مطلقہ سے نکاح کیا گیا ہے وہ بیٹا تھا کب کہ اس کی مطلقہ سے نکاح حرام ہوتا؟تم لوگ تو خود جانتے ہو کہ محمدﷺ کا سرے سے کوئی بیٹا ہے ہی نہیں۔جو بلوغت کی عمر کو پہنچا ہو۔

ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اچھا!اگر منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہے تب بھی اس کی چھوڑی ہوئی عورت سے نکاح کر لینا زیادہ سے زیادہ بس جائز ہی ہو سکتا تھا،آخر اس نکاح کا کرنا کیا ضروری تھا؟

اس کے جواب میں فرمایا گیا مگر وہ اللہ کے رسولﷺ ہیں،یعنی رسول ہونے کی حیثیت سے ان پر یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ جس حلال چیز کو تمہاری رسموں نے خواہ مخواہ حرام کر رکھا ہے اس کے بارے میں تمام تعصبات کا خاتمہ کر دیں اور اس کی حلت کے معاملے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں۔

پھر مزید تاکید کے لئے فرمایا اور وہ خاتم النبیین ہیں،یعنی ان کے بعد کوئی نیا رسول تو درکنار کوئی نیا نبی تک آنے والا نہیں ہے کہ اگر قانون اور معاشرے کی کوئی اصلاح ان کے زمانے میں نافذ ہونے سے رہ جائے تو بعد کا آنے والا نیا نبی یہ کسر پوری کر دے،لہٰذا یہ اور بھی ضروری ہو گیا تھا کہ اس رسم جاہلیت کا خاتمہ وہ خود ہی کر کے جائیں۔

اس کے بعد مزید زور دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے یعنی اللہ کو معلوم ہے کہ اس وقت محمد ﷺ کے ہاتھوں اس رسم جاہلیت کو ختم کرا دینا کیوں ضروری تھا اور ایسا نہ کرنے میں کیا قباحت تھی۔

وہ جانتا ہے کہ اب اس کی طرف سے کوئی نیا نبی آنے والا نہیں ہے لہٰذا اگر اپنے آخری نبی کے ذریعہ سے اس نے اس رسم کا خاتمہ اب نہ کرایا تو پھر کوئی دوسری ہستی دنیا میں ایسی نہ ہو گی جس کے توڑنے سے یہ تمام دنیا کے مسلمانوں میں ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے۔بعد کے مصلحین اگر اسے توڑیں گے بھی تو ان میں سے کسی کا فعل بھی اپنے پیچھے ایسا دائمی اور عالمگیر اقتدار نہ رکھے گا کہ ہر ملک اور ہر زمانے میں لوگ اس کا اتباع کرنے لگیں،اور ان میں سے کسی کی شخصیت بھی اپنے اندر اس تقدس کی حامل نہ ہو گی کہ کسی فعل کا محض اس کی سنت ہونا ہی لوگوں کے دلوں سے کراہیت کے ہر تصور کا قلع قمع کر دے۔


عقیدہ ختم نبوتﷺ ازروئے احادیث مبارکہ:

عقیدہ ختم نبوتﷺ پر چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں۔

حدیث نمبر 1:

“عَن جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ،أَنَّ النَّبِيَّﷺ،قَالَ:أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ،وَأَنَا الْمَاحِي،الَّذِي يُمْحَى بِيَ الْكُفْرُ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى عَقِبِي،وَأَنَا الْعَاقِبُ وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ۔”

حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

“میں محمد ہوں،میں احمد ہوں،میں ماحی (مٹانے والا) ہوں،میرے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کفر مٹادے گا،میں حاشر (جمع کرنے والا) ہوں، لوگوں کو میرے پیچھے حشر کے میدان میں لایاجائےگا اور میں عاقب (آخر میں آنے والا) ہوں اور عاقب وہ ہوتاہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔”

(مسلم:حدیث نمبر 6105،باب اسماء النبیﷺ)

حدیث نمبر 2:

“عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ؓ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ لِعَلِيٍّ:أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟ إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي۔”

حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے علی ؓ سے فرمایا:
“تمہیں یہ پسند نہیں کہ تمھارا میرے ساتھ وہی مقام ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھا،مگر یہ کہ میرے بعد نبوت نہیں ہے۔”

(مسلم:حدیث نمبر6220، باب من فضائل علی ؓ بن ابی طالب)

حدیث نمبر 3:

“عَنْ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ؓ، قَالَ :قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:‏‏‏‏إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ،فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ۔”

حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“رسالت و نبوت ختم ہوچکی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ نبی۔”

(ترمذی:حدیث نمبر 2272،باب ذهبت النبوة وبقيت المبشرات)

حدیث نمبر 4:

“عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؓ،أَنَّ رَسُولَ اللهِﷺ قَالَ:مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بُنْيَانًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ، إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ مِنْ زَوَايَاهُ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ: هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ۔”

حضرت ابوہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین و جمیل محل بنایا مگر اس کے کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔لوگ اس کے گرد گھومنے اور عش عش کرنے لگے۔اور یہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہ لگادی گئی۔
آپﷺ نے فرمایا:
میں وہی اینٹ ہوں اور نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔”

(مسلم:حدیث نمبر 5961، باب ذکر کونهﷺ خاتم النبیین)

حدیث نمبر 5:

“عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؓ،أَنَّ رَسُولَ اللهِﷺ قَالَ:فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ:أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ،وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ،وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ،وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا،وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً،وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ۔”


حضرت ابوہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
مجھے 6 چیزوں پر انبیاء کرام ؑپر فضیلت دی گئی ۔
1)مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے۔
2)رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی۔
3)مال غنیمت میرے لئےحلال کردیا گیا۔
4)روئے زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنادیاگیا۔
5)مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا۔
6)مجھ پر تمام نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔

( مسلم:حدیث نمبر 1167،کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ)

حدیث نمبر 6:

“عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ،عَنِ النَّبِيِّﷺ،قَالَ:‏‏‏‏كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ۔”

حضرت ابوہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے انبیاء ؑ کرتے تھے جب کسی نبی ؑ کی وفات ہوجاتی تھا تو دوسرا نبی اس کی جگہ آجاتا تھا۔لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہونگے۔”

(بخاری:حدیث نمبر 3455، باب ذکر عن بنی اسرائیل)

حدیث نمبر 7:

“أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ،قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِﷺ،يَقُولُ: لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ،قَالُوا:وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ ؟،قَالَ:الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ۔”

حضرت ابوہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“نبوت میں سے صرف اب مبشرات باقی رہ گئی ہیں۔صحابہ نے پوچھا کہ مبشرات کیا ہیں؟نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اچھے خواب۔”

(صحیح بخاری: حدیث نمبر 6990،باب المبشرات)

حدیث نمبر 8:

“عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:‏‏‏‏ لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ۔”

حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ؓ بن خطاب ہوتے۔”

(ترمذی: حدیث نمبر 3686، مناقب ابی حفص عمر ؓ بن الخطاب)

حدیث نمبر 9:

“عَنْ ثَوْبَانَ ؓ،‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:‏‏‏‏وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كَذَّابُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ،وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي۔”

حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“میری امت میں 30 جھوٹے پیدا ہوں گے ان میں سے ہر ایک کہے گا کہ میں نبی ہوں۔حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں۔میرے بعد کوئی نبی نہیں۔”

(ترمذی حدیث نمبر 2219، باب ما جاء لا تقوم الساعة حتی یخرج کذابون)

حدیث نمبر 10:

“عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؓ،قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:‏‏‏‏نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا وَأُوتِينَاهُ مِنْ بَعْدِهِمْ۔”

حضرت ابوہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“ہم سب کے بعد آئے اور قیامت کے دن سب سے آگے ہونگے۔صرف اتنا ہوا کہ ان کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی۔”

(بخاری:حدیث نمبر 896،باب ھل علی من لا یشھد الجمعة غسل من النساء والصبیان)

ان دس احادیث مبارکہ سے بھی یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ نبیوں کی تعداد حضورﷺ کے تشریف لانے سے مکمل ہوگئی ہے اور حضورﷺ کے بعد نبیوں کی تعداد میں کسی ایک نبی کا اضافہ بھی نہیں ہوگا۔

اجرائے نبوت کا قادیانی عقیدہ:

قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہﷺ کے بعد شرعی اور غیر شرعی نبوت کا دروازہ بند ہے صرف ظلی نبوت کا دروازہ کھلا ہے اور ظلی نبوت بھی صرف ایک شخص کو مل سکتی ہے۔

عقیدہ ختم نبوت پر ہمارا یعنی مسلمانوں کا اور قادیانیوں کا اصل اختلاف یہ ہے کہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ نبیوں کی تعداد حضورﷺ کے تشریف لانے سے مکمل ہوئی۔

جبکہ قادیانی کہتے ہیں کہ نبیوں کی تعداد نعوذ باللہ مرزا غلام احمد قادیانی کے آنے سے مکمل ہوئی۔ہم حضورﷺ کو نبوت کی عمارت کی آخری اینٹ مانتے ہیں جبکہ قادیانی نعوذ باللہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبوت کی عمارت کی آخری اینٹ مانتے ہیں۔

ہم کہتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا جبکہ قادیانی کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ مرزا غلام احمد قادیانی کے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا۔

قادیانیوں کے نزدیک نبیوں کی اقسام:

قادیانیوں کے نزدیک نبیوں کی تین اقسام ہیں۔

1)شرعی نبی:

قادیانیوں کے نزدیک جو نبی شریعت لے کر آئے وہ شرعی نبی کہلاتا ہے۔

2)غیر شرعی نبی:

قادیانیوں کے نزدیک جو نبی شریعت کے بغیر آئے وہ غیر شرعی نبی کہلاتا ہے۔

3)ظلی نبی:

قادیانیوں کے نزدیک جو نبی رسول اللہﷺ کی پیروی کر کے نبی بنتا ہے وہ ظلی نبی کہلاتا ہے۔

قادیانیوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ شرعی اور غیر شرعی نبوت کا دروازہ بند ہے صرف ظلی نبوت کا دروازہ کھلا ہے اور ظلی نبوت صرف ایک شخص کو مل سکتی ہے۔

حوالہ نمبر 1:

قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود نے لکھا ہے:

“میں نبیوں کی تین اقسام مانتا ہوں۔ایک جو شریعت لانے والے ہوں،دوسرا جو شریعت نہیں لائے لیکن ان کو نبوت بلاواسطہ ملتی ہے اور کام وہ پہلی امت کا ہی کرتے ہیں۔جیسے سلیمان و زکریا اور یحییٰ علیہم السلام اور ایک جو نہ شریعت لائے اور نہ ان کو بلاواسطہ نبوت ملتی ہے لیکن وہ پہلے نبی کی اتباع سے نبی ہوتے ہیں۔”

(قول فیصل: صفحہ 12،مندرجہ انوار العلوم جلد 2 صفحہ277)

حوالہ نمبر 2:

مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

“اس جگہ یاد رہے کہ نبوت مختلف نوع پر ہے اور آج تک نبوت تین قسم پر ظاہر ہوچکی ہے۔
(1) تشریعی نبوت :ایسی نبوت کو مسیح موعود نے حقیقی نبوت سے پکارا ہے۔
(2) وہ نبوت جس کیلئے تشریعی یا حقیقی ہونا ضروری نہیں،ایسی نبوت حضرت مسیح موعود کی اصطلاح میں مستقل نبوت ہے۔
(3) ظلی اور امتی نبی : حضور ﷺ سے مستقل اور حقیقی نبوتوں کا دروازہ بند ہوگیا اور ظلی نبوت کا دروازہ کھولاگیا۔”

(مسئلہ کفر و اسلام کی حقیقت: صفحہ 31)

حوالہ نمبر 3:

مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

“اس جگہ یہ یاد رہے کہ آج تک نبوت تین قسم پر ظاہر ہو چکی ہے اول تشریعی نبوت جس کی دو موٹی مثالیں موسیٰؑ کی نبوت اور نبوت محمدیہؐ ہیں ایسی نبوتوں کو مسیح موعود (مرزا قادیانی) نے حقیقی نبوت کے نام سے پکارا ہے۔دوئم وہ نبوت جس کے لئے تشریعی یعنی حقیقی ہونا ضروری نہیں بلکہ صرف اتنا ضروری ہے کہ وہ بلا واسطہ جناب باری تعالیٰ کی طرف سے ملے جیسے عیسیٰ یحییٰ داؤد سلیمان اور ذکریا علیہم السلام کی نبوتیں یہ لوگ گو موسیٰؑ کی شریعت کے پابند تھے اور ان کا مشن صرف تورات کی اشاعت تھا لیکن تاہم انہوں نے موسیٰؑ کی اتباع کی وجہ سے نبوت نہیں پائی کیونکہ تورات کی تعلیم بوجہ خصوصیات زمانی اور مکانی اس درجہ کی نہ تھی کہ اس پر کاربند ہونے کی وجہ سے کوئی شخص نبوت کا درجہ پاسکے بلکہ ایک حد تک تورات انسان کو چلاتی تھی اور پھر جس کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کا درجہ دینا ہوتا تھا اسے براہ راست بلند کر کے نبوت عطا کی جاتی تھی ایسی نبوت حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی از ناقل) کی اصطلاح میں مستقل نبوت ہے۔”

(کلمتہ الفصل:صفحہ 112,113)

حوالہ نمبر 4:

قادیانیوں کے دو فرقوں یعنی لاہوری فرقے اور محمودی فرقے کے درمیان 1937ء میں تفصیلی مباحثہ ہوا تھا جس میں قادیانیوں کے محمودی فرقے کی طرف سے اپنا درج ذیل عقیدہ بتایا گیا تھا۔

“انبیائے کرام علیہم السلام دو قسم کے ہوتے ہیں :(1) تشریعی (2) غیر تشریعی۔پھر غیر تشریعی بھی دو قسم کے ہوتے ہیں:(1)براہ راست نبوت پانے والے۔(2) نبی تشریعی کی اتباع سے نبوت حاصل کرنے والے۔۔۔۔۔۔۔۔آنحضرت ﷺ کے پیشتر صرف پہلی دو قسم کے نبی آتے تھے۔”

(مباحثہ راولپنڈی: صفحہ 175)

قادیانیوں کے نزدیک آخری نبی کون؟:

قادیانی مرزا غلام احمد قادیانی کو آخری نبی سمجھتے ہیں۔ذیل میں چند حوالے پیش خدمت ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قادیانی مرزا غلام احمد قادیانی کو نبوت کی عمارت کی آخری اینٹ اور آخری نبی سمجھتے ہیں۔

حوالہ نمبر 1:

مرزا بشیر الدین محمود نے لکھا ہے:

“آنحضرتﷺ کی شان ہی ایسی ہے کہ آپ کے ذریعے سے نبوت حاصل ہو سکتی ہے۔آپ نے رحمتہ اللعالمین ہو کر رحمت کے دروازے کھول دیئے ہیں اس لئے اب ایک انسان ایسا نبی ہوسکتا ہے جو کئی پہلے انبیاء سے بھی بڑا ہو مگر اس صورت میں کہ آنحضرتﷺ کا غلام ہو۔”

(انوار العلوم: جلد 30 صفحہ 127)
(انوار خلافت: صفحہ 67)

حوالہ نمبر 2:

مرزا بشیر الدین محمود نے لکھا ہے:

“ہم اس امت میں صرف ایک ہی نبی کے قائل ہیں۔آئیندہ کا حال پردہ غیب میں ہے۔اسکی نسبت ہم کچھ کہ نہیں سکتے آئیندہ کے متعلق ہر ایک خبر پیشگوئی کا رنگ رکھتی ہے اس پر بحث کرنا انبیاء کا کام ہے نہ ہمارا۔پس ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس وقت تک اس امت میں کوئی اور شخص نبی نہیں گزرا۔کیونکہ اس وقت تک نبی کی تعریف کسی اور انسان پر صادق نہیں آتی۔”

(انوار العلوم :جلد 2 صفحہ 461)

حوالہ نمبر 3:

مرزا بشیر الدین محمود نے لکھا ہے:

“حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی از ناقل) نے اس امت میں اپنے سے پہلے کسی اور شخص کے نبی ہونے سے قطعی انکار کیا ہے پس جب مسیح موعود کہتا ہے کہ امت محمدیہ میں اس وقت تک صرف میں ہی ایک شخص ہوں جو نبی کہلانے کا مستحق ہوں۔”

(انوار العلوم: جلد 2 صفحہ 547)

حوالہ نمبر 4:

قادیانیوں کے سرکاری اخبار الفضل میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یوں لکھا گیا ہے:

“آپ کا سوال ہے کہ غیر احمدیوں کو کافر جاننے کے باوجود پھر ہم دوسرے مسلمانوں کو کیوں مسلمان یا مسلم کہتے ہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلعم پر ایمان لانے والے لوگوں کی نسبت یہ لفظ بولا ہے۔(بلکہ مسلمانوں سے پہلی امتوں کو بھی حضرت ابراہیم نے مسلمان کہا ہے ھو سمکم المسلمین)اور حضرت صاحب (مرزا قادیانی از ناقل)کی آمد سے بیشتر واقعی اور بلاشبہ ہم مسلمانوں کے ہر ایک فرقے کو مسلمان ہی کہتے تھے۔اور جائز طور پر ایسا کہ سکتے تھے۔لیکن جب آخری نبی اور مامور من اللہ کا ظہور ہوا۔اور آخر وہ وقت آگیا کہ دودھ کو پانی سے الگ کیا جاوے۔تو اب دو فریق مختلف بن گئے۔یعنی مومن اور کافر۔حضرت صاحب (مرزا قادیانی از ناقل) کو ماننے والے مومن ٹھہرے اور محمد رسول اللہ صلعم اور دیگر انبیاء کی جماعتیں جنہوں نے اس آخری نبی کو نہ مانا کافر قرار پائیں۔”

(الفضل:8 جون 1914ء صفحہ 14)

حوالہ نمبر 5:

قادیانیوں کے رسالے تشہیذ الاذہان کے 27 مارچ1914ء کے شمارے میں لکھا ہے:

“اس امت میں نبی صرف ایک ہی آسکتا ہے جو مسیح موعود ہے۔اور قطعاً کوئی نہیں آسکتا۔جیسا کہ دیگر احادیث پر نظر کرنے سے یہ امر محقق ہو چکا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مسیح موعود کا نام نبی اللہ رکھا ہے اور کسی کو یہ نام ہرگز نہیں دیا۔”

(تشہیذ الاذہان: صفحہ 32 شمارہ 27 مارچ 1914)

حوالہ نمبر 6:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“چودھویں خصوصیت یسوع مسیح میں یہ تھی کہ وہ باپ کے نہ ہونے کی وجہ سے بنی اسرائیل میں سے نہ تھا مگر باایں ہمہ موسوی سلسلہ کا آخری پیغمبر تھا۔جو موسی کے بعد چودھویں صدی میں پیدا ہوا۔ایسا ہی میں بھی خاندان قریش میں سے نہیں ہوں اور چودھویں صدی میں مبعوث ہوا ہوں اور سب سے آخر میں ہوں۔”

(تذکرة الشہادتین: صفحہ 33مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 35)

حوالہ نمبر 7:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“دو قسم کے مرسل من اللہ قتل نہیں ہوا کرتے۔(1)وہ نبی جو سلسلہ کے اول میں آتے ہیں جیسے سلسلہ موسویہ میں حضرت موسیٰ اور سلسلہ محمدیہ میں ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (2)دوسرے وہ نبی اور مامور من اللہ جو سلسلہ کے آخر میں آتے ہیں جیسے کہ سلسلہ موسویہ میں حضرت عیسی علیہ السلام اور سلسلہ محمدیہ میں یہ عاجز(مرزا غلام احمد قادیانی از ناقل)”

(تذکرة الشہادتین: صفحہ 67٫68 مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 70)

حوالہ نمبر 8:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“مسیح موعود کے کئی نام ہیں منجملہ ان میں سے ایک نام خاتم الخلفاء ہے یعنی ایسا خلیفہ جو سب سے آخر میں آنے والا ہے۔”

(چشمہ معرفت: صفحہ 318 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 333)

حوالہ نمبر 9:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیشگوئی کو پورا کرے اور آخری اینٹ کے ساتھ بناء کو کمال تک پہنچا دے۔پس میں (مرزا قادیانی از ناقل) وہی اینٹ ہوں”

(خطبہ الہامیہ :صفحہ 112 مندرجہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 178)

حوالہ نمبر 10:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“وہ بروز محمدی جو قدیم سے موعود تھا وہ میں ہوں۔اس لئے بروزی نبوت مجھے عطاکی گئی۔اور اس نبوت کے مقابل پر تمام دنیا اب بےدست و پا ہے۔ کیونکہ نبوت پر مہر ہے۔
ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانے کے لئے مقدر تھا سو وہ ظاہر ہوگیا۔ اب بجز اس کھڑکی کے کوئی اور کھڑکی نبوت کے چشمہ سے پانی لینے کے لئے باقی نہیں رہی۔”

(ایک غلطی کا ازالہ: صفحہ 6 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 215)

حوالہ نمبر 11:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء،قطب،ابدال وغیرہ اس امت میں سے گزر چکے ہیں۔ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے صرف میں ہی محسوس کیا گیا ہوں۔اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔”

(حقیقة الوحی: صفحہ 391 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 406)

حوالہ نمبر 12:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“ہلاک ہوگئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہیں کیا۔مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا۔ میں خدا کی راہوں میں سب سے آخری راہ ہوں۔اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے۔کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے”

(کشتی نوح: صفحہ 56 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 61)

اتنے حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ قادیانیوں کا عقیدہ ہے:

“رسول اللہﷺ کے بعد شرعی اور غیر شرعی نبوت کا دروازہ بند ہے رسول اللہﷺ کی پیروی کر کے صرف ظلی نبوت کا دروازہ کھلا ہے اور ظلی نبوت بھی صرف ایک شخص کو مل سکتی ہے۔”

قادیانیوں کا یہ عقیدہ اس لئے غلط ہے کیونکہ نبوت کسبی چیز نہیں ہے جو رسول اللہﷺ کی پیروی کرنے سے مل جائے۔نبوت وہبی ہے جو صرف اس کو ملتی ہے جس کو اللہ چاہتے ہیں۔نبوت کے ملنے میں دعاؤں یا محنت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔

جب مشرکین نے مطالبہ کیا تھا کہ ہمیں بھی نبوت دی جائے تو اللہ تعالیٰ نے جواباً فرمایا:

اَللّٰہُ اَعۡلَمُ حَیۡثُ یَجۡعَلُ رِسَالَتَہٗ۔
“اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی پیغمبری کس کو سپرد کرے۔”

(سورۃ انعام:آیت 124)

اسی طرح رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مخاطب کر کے فرمایا کہ آپﷺ کو بھی پہلے سے نبوت ملنے کی امید نہیں تھی،بلکہ یہ اللہ کی طرف سے رحمت ہوئی کہ آپﷺ کو نبوت کے لئے منتخب کیا۔اور نہ صرف نبوت دی گئی بلکہ آپﷺ کو خاتم النبیینﷺ بھی بنایا گیا۔

وَ مَا کُنۡتَ تَرۡجُوۡۤا اَنۡ یُّلۡقٰۤی اِلَیۡکَ الۡکِتٰبُ اِلَّا رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوۡنَنَّ ظَہِیۡرًا لِّلۡکٰفِرِیۡنَ۔

“اور (اے پیغمبر) تمہیں پہلے سے یہ امید نہیں تھی کہ تم پر یہ کتاب نازل کی جائے گی،لیکن یہ تمہارے رب کی طرف سے رحمت ہے،لہذا کافروں کے ہرگز مددگار نہ بننا۔”

(سورۃ القصص:آیت 86)

اور یہی بات مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی تسلیم کی ہے۔مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“صراط الذین انعمت علیھم اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص کو یہ مرتبہ ملا انعام کے طور پر ملا یعنی محض فضل سے نہ کسی عمل کا اجر۔”

(چشمہ مسیحی صفحہ 42 مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 365)

ایک اور جگہ مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“اور اس میں کوئی شک نہیں کہ محدثیت محض وہبی ہے کسب سے حاصل نہیں ہوسکتی جیسا کہ نبوت کسب سے حاصل نہیں ہوسکتی۔”

(حمامة البشری اردو ترجمہ صفحہ 82،مندرجہ روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 301)

مندرجہ بالا آیات اور مرزا غلام احمد قادیانی کی عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ نبوت کسبی چیز نہیں جو رسول اللہﷺ کی پیروی کرنے یا کوشش وغیرہ سے حاصل ہوجائے۔نبوت وہبی چیز ہے جو صرف اللہ کے خاص فضل سے ملتی ہے۔اس میں دعا یا اعمال کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔

اگر نبوت رسول اللہﷺ کی پیروی سے ملنی ہوتی تو پھر نبوت ملنے کے سب سے زیادہ حقدارصحابہ کرام تھےجن کے ایمان کی گواہی اللہ نے قرآن میں دی۔خودرسول اللہﷺ نے حضرت عمر ؓؓکے بارے میں فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ؓؓہوتا۔ لیکن چونکہ نبوت کا دروازہ قیامت تک بند ہےجیسا کہ 100 کے قریب آیات اور 200 سے زائد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے، اس لئے حضرت عمر ؓبھی نہیں بن سکے تھے۔تو جب صحابہ کرام ؓ میں سے کوئی نبی نہیں بن سکا تو غیر صحابی کیسے نبی بن سکتا ہے۔

قادیانیوں کے اس عقیدے پر ہماراسوال ہے کہ قرآن مجید کی وہ کون سی آیت یا رسول اللہﷺ کی وہ کون سی حدیث ہے جس سے معلوم ہوتا ہو کہ شرعی اور غیر شرعی نبوت کا دروازہ بند ہے صرف ظلی نبوت کا دروازہ کھلا ہے اور ظلی نبوت بھی صرف ایک شخص کو مل سکتی ہے؟
قیامت کی صبح تو آسکتی ہے قادیانی اس سوال کا کوئی معقول جواب نہیں دے سکتے۔

2)رفع و نزول سیدنا عیسٰیؑ

مسلمانوں اور قادیانیوں کا دوسرا بنیادی اختلاف سیدنا عیسیؑ کے رفع و نزول کے بارے میں ہے۔

مسلمانوں کا عقیدہ:

مسلمان کا عقیدہ یہ ہے کہ یہودی سیدنا عیسیؑ کو گرفتار کر کے قتل کرنا چاہتے تھے۔لیکن یہودی نہ ہی قتل کرسکے اور نہ ہی صلیب دے سکے بلکہ اللہ تعالٰی نے سیدنا عیسیؑ کو آسمان پر اٹھا لیا۔اور وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے۔

مسلمانوں کا عقیدہ قرآن پاک سے اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔

سیدنا عیسیؑ کا رفع ازروئے قرآن:

سیدنا عیسیؑ کو یہود قتل کرنا چاہتے تھے۔اور آج تک یہودی یہی کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا عیسیؑ کو قتل کیا ہے۔اور اللہ تعالٰی یہود سے سیدنا عیسیؑ کو بچانا چاہتے تھے۔یہود سیدنا عیسیؑ کو مارنے کی تدبیر کررہے تھے۔اور اللہ تعالٰی سیدنا عیسیؑ کو بچانا چاہتے تھے۔اور یہ بات تو کسی کافر سے بھی پوچھ لیں کہ اگر کسی انسان کو ساری دنیا مارنے پر تل جائے اور اس انسان کو اللہ تعالٰی بچانا چاہتے ہوں تو کون کامیاب ہوگا۔تو یقینا وہ کافر بھی یہی جواب دے گا کہ اللہ تعالٰی کے مقابلے میں ساری دنیا ناکام ہوجائے گی۔اور جس انسان کو اللہ تعالٰی بچانا چاہتے ہیں اس کو ساری دنیا کے انسان بھی مل کر مارنا تو دور کی بات ہے ہاتھ بھی نہیں لگاسکیں گے۔

قرآن مجید کی آیت ہے:

وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ۔

اور ان کافروں نے (عیسیٰؑ کے خلاف) خفیہ تدبیر کی،اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی۔اور اللہ اور سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔

(سورۃ آل عمران:آیت 54)

اس آیت میں ذکر ہے کہ یہودی سیدنا عیسیؑ کے خلاف ان کو قتل کرنے کی تدبیر کررہے تھے اور اللہ تعالٰی نے یہود کے خلاف سیدنا عیسیؑ کو بچانے کی تدبیر کی۔

جس وقت یہود سیدنا عیسیؑ کو مارنے کی تدبیر کررہے تھے اس وقت اللہ تعالٰی نے سیدنا عیسیؑ سے 4 وعدے فرمائے جو کہ قرآن مجید میں موجود ہیں۔

اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ۔

“(اس کی تدبیر اس وقت سامنے آئی) جب اللہ نے کہا تھا کہ:اے عیسیٰ میں تمہیں پورا قبضے میں لے لوں گا،اور تمہیں اپنی طرف اٹھا لوں گا،اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ان (کی ایذا) سے تمہیں پاک کردوں گا۔اور جن لوگوں نے تمہاری اتباع کی ہے،ان کو قیامت کے دن تک ان لوگوں پر غالب رکھوں گا جنہوں نے تمہارا انکار کیا ہے۔پھر تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے،اس وقت میں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔”

(سورۃ آل عمران:آیت 55)

اس آیت میں اللہ تعالٰی نے سیدنا عیسیؑ کو یہود سے امن کی تسلی دیتےہوئےان سے 4 وعدے کئے۔

1)آپ کو پورا پورا قبضے میں لے لوں گا۔
2)آپ کو پورا پورا قبضے میں لے کر اپنی طرف اٹھا لوں گا۔
3)آپ کو یہود کی صحبت سے پاک کروں گا۔
4)آپ کے پیروکاروں کو قیامت تک یہود پر غالب رکھوں گا۔

معزز قارئین اب اگلا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے سیدنا عیسیؑ سے جو یہ 4 وعدے کئے ان کو کب اور کیسے پورا کیا۔

اس کا جواب بھی قرآن مجید میں مذکور ہے۔

“وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕمَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚوَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا۔بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕوَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا۔”

“اور یہ کہا کہ:ہم نے اللہ کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کردیا تھا،حالانکہ نہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا تھا،نہ انہیں سولی دے پائے تھے،بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا۔اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں،انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم حاصل نہیں ہے، اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کر پائے۔بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا،اور اللہ بڑا صاحب اقتدار،بڑا حکمت والا ہے۔”

(سورۃ النساء:آیت 157، 158)

ان آیات سے پتہ چلا کہ یہود جب سیدنا عیسیؑ کو قتل کرنا چاہتے تھے اس وقت اللہ تعالٰی نے سیدنا عیسیؑ کو آسمان پر اٹھا لیا تھا اور اس طرح سیدنا عیسیؑ سے کئے گئے وعدے پورے ہوگئے۔کہ میں آپ کو صحیح سالم اپنی طرف لے لوں گا اور یہود کی صحبت سے پاک کروں گا اور آپ کے پیروکاروں کو قیامت تک یہود پر غالب رکھوں گا۔

کیونکہ جب اللہ تعالٰی نے سیدنا عیسیؑ کو آسمان پر اٹھا لیا تو اس سے یہ وعدے پورے ہوگئے۔اور سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالٰی نے جب آسمان پر اٹھا لیا تو اس کے کچھ عرصے بعد عیسائیوں اس یہودیوں پر غلبہ حاصل ہوگیا۔ جوکہ ابھی تک حاصل ہے۔آج بھی یہود دنیا میں دربدر ہیں۔

ضروری نوٹ:

مسئلہ رفع و نزول سیدنا عیسیؑ پر یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ سیدنا عیسیؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے اور پھر دوبارہ زمین پر نازل ہونے کے بارے میں مرزا قادیانی سے پہلے کے کسی ایک مسلمان مفسر میں اختلاف نہیں۔اور یہ بات خود مرزا قادیانی نے بھی تسلیم کی ہے۔

تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالٰی نے سیدنا عیسیؑ کو آسمان پر اٹھالیا تھا اور وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے ۔
البتہ مفسرین میں سیدنا عیسیؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے کی کیفیت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

پہلا قول:

کچھ مفسرین کا خیال ہے کہ پہلے سیدنا عیسیؑ کو نیند دی گئی پھر ان کو نیند کی حالت میں آسمان پر اٹھایا گیا۔

دوسرا قول:

دوسرا قول یہ ہے کہ سیدنا عیسیؑ کو اسی حالت میں آسمان پر اٹھایا گیا۔

سیدنا عیسیؑ کے نزول پر قرآنی دلائل:

اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں سیدنا عیسیؑ کو قیامت کی نشانیوں میں سے بتایا ہے۔یعنی جب سیدنا عیسیؑ کا دوبارہ آسمان سے نزول ہوگا اس کے بعد قیامت نزدیک ہوگی۔جیسا کہ مندرجہ ذیل آیت میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ

“وَ اِنَّہٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمۡتَرُنَّ بِہَا وَ اتَّبِعُوۡنِ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ۔”

“اور یقین رکھو کہ وہ (یعنی عیسیٰؑ) قیامت کی ایک نشانی ہیں۔اس لئے تم اس میں شک نہ کرو،اور میری بات مانو،یہی سیدھا راستہ ہے۔”

(سورۃ الزخرف:آیت 61)

اس آیت میں اللہ تعالٰی سیدنا عیسیؑ کو قیامت کی نشانیوں میں سے قرار دے رہے ہیں۔یعنی جب وہ نازل ہوں گے وہ وقت قیامت کے بہت قریب ہوگا۔

قرآن مجید میں ایک اور آیت میں اللہ تعالٰی سیدنا عیسیؑ کے بارے میں فرماتے ہیں :

“وَ اِنۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا۔”

“اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اس(عیسیٰؑ) کی موت سے پہلے اس (عیسیٰؑ) پر ایمان نہ لائے،اور قیامت کے دن وہ ان لوگوں کے خلاف گواہ بنیں گے۔”

(سورۃ النساء:آیت 159)

اس آیت کی تشریح میں 2 قسم کے تفسیری اقوال ملتے ہیں۔

پہلا قول:

پہلے قول کے مطابق اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ سیدنا عیسیؑ جب دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے تو ہر اہل کتاب سیدنا عیسیؑ کی وفات سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔

دوسرا قول:

دوسرے قول کے مطابق اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہر اہل کتاب اپنی موت سے پہلے سیدنا عیسیؑ ایمان لے آتا ہے۔

مفسرین نے دونوں قسم کے اقوال کو اپنی تفاسیر میں نقل کیا ہے۔لیکن راجح پہلا قول ہے۔

دونوں اقوال میں تطبیق یہ ہے کہ جب تک سیدنا عیسیؑ کا نزول نہیں ہوتا اس وقت تک ہر اہل کتاب اپنی موت سے پہلے سیدنا عیسیؑ پر ایمان لے آتا ہے۔اور جب سیدنا عیسیؑ کا نزول ہوجائے گا اس وقت تمام اہل کتاب سیدنا عیسیؑ کی وفات سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔

اس آیت سے پتہ چلا کہ سیدنا عیسیؑ کی ابھی وفات نہیں ہوئی اور قرب قیامت جب وہ واپس تشریف لایئں گے تو اہل کتاب سیدنا عیسیؑ پر ایمان لے آئیں گے۔

اس آیت کی تشریح درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے۔

“عَنْ أَبی هُرَيْرَةَ ؓ،قَالَ:‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:‏‏‏‏ “وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ثُمَّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا۔”

“حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریمؑ تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔اس وقت کا ایک سجدہ «دنيا وما فيها» سے بڑھ کر ہو گا۔پھر ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو۔
«وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ويوم القيامة يكون عليهم شهيدا‏»
“اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہو گا جو عیسیٰؑ کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔”

(بخاری:حدیث نمبر 3448،باب نزول عیسیٰ بن مریمؑ)

قرآن مجید کی آیات سے ثابت ہوا کہ سیدنا عیسیؑ کو جب یہودی گرفتار کر کے قتل کرنا چاہتے تھے اس وقت اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیؑ کو یہودیوں سے بچا کر اپنی طرف اٹھا لیا تھا اب سیدنا عیسیؑ کا دوبارہ نزول قرب قیامت ہوگا۔اور کچھ عرصہ وہ زمین پر رہیں گے۔اس کے بعد ان کی وفات ہوگی۔

سیدنا عیسیؑ کا نزول ازروئے احادیث:

سیدنا عیسیؑ کا آسمان کی طرف اٹھایا جانا اور پھر ان کا قرب قیامت آسمان سے زمین کی طرف نازل ہونا قرآن مجید اور 100 سے زائد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔
اب ہم نزول سیدنا عیسیؑ کے متعلق چند احادیث مبارکہ کا جائزہ لیتے ہیں۔

حدیث نمبر 1:

“عَنْ أَبی هُرَيْرَةَ ؓ،قَالَ:‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:‏‏‏‏كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ۔”

حضرت ابو ہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب (عیسیٰؑ)ابن مریم تم میں اتریں گے (تم نماز پڑھ رہے ہو گے) اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا۔”

(بخاری:حدیث نمبر 3449 ٬ باب نزول عیسی بن مریمؑ)

حدیث نمبر 2:

“عَنْ أَبی هُرَيْرَةَ ؓ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:‏‏‏‏وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ثُمَّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا۔”

حضرت ابو ہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ قریب ہے کہ(عیسیٰؑ)ابن مریم تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔ اس وقت کا ایک سجدہ «دنيا وما فيها» سے بڑھ کر ہو گا۔ پھر ابوہریرة ؓ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو
«وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ويوم القيامة يكون عليهم شهيدا‏»
“اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہو گا جو عیسیٰ کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔”

(بخاری: حدیث نمبر 3448 ،باب نزول عیسی بن مریمؑ)

حدیث نمبر 3:

“عَنْ أَبی هُرَيْرَةَ ؓ،عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ،قَالَ:‏‏‏‏لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، ‏‏‏‏‏‏فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ،وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ۔”

حضرت ابو ہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک (عیسیؑ)ابن مریم کا نزول ایک عادل حکمران کی حیثیت سے تم میں نہ ہو جائے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سوروں کو قتل کر دیں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گے۔(اس دور میں) مال و دولت کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی قبول نہیں کرے گا۔”

(بخاری:حدیث نمبر 2476 ،باب کسر الصلیب و قتل الخنزیر)

حدیث نمبر 4:

“عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؓ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ الرُّومُ بِالْأَعْمَاقِ أَوْ بِدَابِقٍ فَيَخْرُجُ إِلَيْهِمْ جَيْشٌ مِنْ الْمَدِينَةِ مِنْ خِيَارِ أَهْلِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ فَإِذَا تَصَافُّوا قَالَتْ الرُّومُ خَلُّوا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الَّذِينَ سَبَوْا مِنَّا نُقَاتِلْهُمْ فَيَقُولُ الْمُسْلِمُونَ لَا وَاللَّهِ لَا نُخَلِّي بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ إِخْوَانِنَا فَيُقَاتِلُونَهُمْ فَيَنْهَزِمُ ثُلُثٌ لَا يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أَبَدًا وَيُقْتَلُ ثُلُثُهُمْ أَفْضَلُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللَّهِ وَيَفْتَتِحُ الثُّلُثُ لَا يُفْتَنُونَ أَبَدًا فَيَفْتَتِحُونَ قُسْطَنْطِينِيَّةَ فَبَيْنَمَا هُمْ يَقْتَسِمُونَ الْغَنَائِمَ قَدْ عَلَّقُوا سُيُوفَهُمْ بِالزَّيْتُونِ إِذْ صَاحَ فِيهِمْ الشَّيْطَانُ إِنَّ الْمَسِيحَ قَدْ خَلَفَكُمْ فِي أَهْلِيكُمْ فَيَخْرُجُونَ وَذَلِكَ بَاطِلٌ فَإِذَا جَاءُوا الشَّأْمَ خَرَجَ فَبَيْنَمَا هُمْ يُعِدُّونَ لِلْقِتَالِ يُسَوُّونَ الصُّفُوفَ إِذْ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ فَأَمَّهُمْ فَإِذَا رَآهُ عَدُوُّ اللَّهِ ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ فَلَوْ تَرَكَهُ لَانْذَابَ حَتَّى يَهْلِكَ وَلَكِنْ يَقْتُلُهُ اللَّهُ بِيَدِهِ فَيُرِيهِمْ دَمَهُ فِي حَرْبَتِهِ۔”

حضرت ابو ہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“قیامت قائم نہیں ہو گی،یہاں تک کہ رومی (عیسائی) اعماق (شام میں حلب اور انطاکیہ کے درمیان ایک پر فضا علاقہ جو دابق شہر سے متصل واقع ہے) یا دابق میں اتریں گے۔ان کے ساتھ مقابلے کے لئے (دمشق) شہر سے (یامدینہ سے) اس وقت روئے زمین کے بہترین لوگوں کا ایک لشکر روانہ ہو گا جب وہ (دشمن کے سامنے) صف آراءہوں گے تو رومی (عیسائی) کہیں گے تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان سے ہٹ جاؤ جنھوں نے ہمارے لوگوں کو قیدی بنایا ہوا ہے ہم ان سے لڑیں گے تو مسلمان کہیں گے۔اللہ کی قسم!نہیں ہم تمھارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے۔چنانچہ وہ ان (عیسائیوں) سے جنگ کریں گے۔ ان (مسلمانوں) میں سے ایک تہائی شکست تسلیم کر لیں گے اللہ ان کی توبہ کبھی قبول نہیں فرمائے گا اور ایک تہائی قتل کر دیے جائیں گے۔وہ اللہ کے نزدیک افضل ترین شہداء ہوں گے اور ایک تہائی فتح حاصل کریں گے۔ وہ کبھی فتنے میں مبتلا نہیں ہوں گے۔(ہمیشہ ثابت قدم رہیں گے) اور قسطنطنیہ کو (دوبارہ) فتح کریں گے۔(پھر) جب وہ غنیمتیں تقسیم کر رہے ہوں گے اور اپنے ہتھیار انھوں نے زیتون کے درختوں سے لٹکائے ہوئے ہوں گے تو شیطان ان کے درمیان چیخ کر اعلان کرے گا۔مسیح (دجال) تمھارےپیچھے تمھارے گھر والوں تک پہنچ چکا ہے وہ نکل پڑیں گے مگر یہ جھوٹ ہو گا۔جب وہ شام (دمشق) پہنچیں گے۔تووہ نمودار ہو جا ئے گا۔اس دوران میں جب وہ جنگ کے لیے تیاری کررہے ہوں گے۔صفیں سیدھی کر رہے ہوں گے تو نماز کے لیے اقامت کہی جائے گی اس وقت حضرت عیسیٰ بن مریمؑ اتریں گے تو ان کا رخ کریں گے پھر جب اللہ کا دشمن (دجال) ان کو دیکھے گاتو اس طرح پگھلےگا جس طرح نمک پانی میں پگھلتا ہے اگر وہ (حضرت عیسیٰؑ) اسے چھوڑ بھی دیں تو وہ پگھل کر ہلاک ہوجائے گا لیکن اللہ تعالیٰ اسے ان (حضرت عیسیٰؑ) کے ہاتھ سے قتل کرائے گااور لوگوں کو ان کے ہتھیارپر اس کا خون دکھائےگا۔”

(مسلم: حدیث نمبر 7278 ،کتاب الفتن)

حدیث نمبر 5:

“عَن جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ ؓ،يَقُولُ:سَمِعْتُ النَّبِيَّﷺ يَقُولُ:«لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»،قَالَ:فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ،فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ:تَعَالَ صَلِّ لَنَا، فَيَقُولُ:لَا،إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَاءُ تَكْرِمَةَ اللهِ هَذِهِ الْأُمَّةَ۔”

حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“میری امت کا ایک گروہ مسلسل حق پر (قائم رہتے ہوئے) لڑتا رہے گا،وہ قیامت کے دن تک (جس بھی معرکے میں ہوں گے)غالب رہیں گے، پھر عیسیٰ ابن مریمؑ اتریں گے تو اس طائفہ (گروہ) کا امیر کہے گا:آئیں ہمیں نماز پڑھائیں،اس پر عیسیٰؑ جواب دیں گے:نہیں،اللہ کی طرف سے اس امت کو بخشی گئی عزت و شرف کی بنا پر تم ہی ایک دوسرے پر امیر ہو۔”

(صحیح مسلم:حدیث نمبر 395،باب نزول عیسی ابن مریمؑ)

حدیث نمبر 6:

“عَنْ أَبی هُرَيْرَةَ ؓ،يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّﷺ قَالَ:وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُهِلَّنَّ ابْنُ مَرْيَمَ بِفَجِّ الرَّوْحَاءِ، حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا، أَوْ لَيَثْنِيَنَّهُمَا۔”

حضرت ابوہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“اس ذات اقدس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ابن مریمؑ (زمین پر دوبارہ آنے کے بعد) فج روحاء (کے مقام) سے حج کا یا عمرے کا یا دونوں کا نام لیتے ہوئے تلبیہ پکاریں گے۔”

(صحیح مسلم:حدیث نمبر 3030،باب اھلال النبیﷺ،جلد 2 صفحہ 915)


حدیث نمبر 7:

“عَنْ مجمع ابْنَ جَارِيَةَ الْأَنْصَارِيَّ ؓ، يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِﷺ يَقُولُ:‏‏‏‏يَقْتُلُ ابْنُ مَرْيَمَ الدَّجَّالَ بِبَابِ لُدٍّ۔”

مجمع بن جاریہ ؓسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا:
“ابن مریم علیہما السلام دجال کو باب لد کے پاس قتل کریں گے۔”

(سنن الترمذی:حدیث نمبر 2244،باب ما جاء فی قتل عیسی ابن مریم)

حدیث نمبر 8:

“عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ الْغِفَارِيِّ قَالَ اطَّلَعَ النَّبِيُّﷺ عَلَيْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ فَقَالَ مَا تَذَاكَرُونَ قَالُوا نَذْكُرُ السَّاعَةَ قَالَ إِنَّهَا لَنْ تَقُومَ حَتَّى تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ فَذَكَرَ الدُّخَانَ وَالدَّجَّالَ وَالدَّابَّةَ وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَنُزُولَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَيَأَجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَثَلَاثَةَ خُسُوفٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذَلِكَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنْ الْيَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ۔”

حضرت حذیفہ بن اسید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ہمارے پاس آئے ہم باتیں کر رہے تھے۔آپﷺ نے فرمایا کہ تم کیا باتیں کر رہے ہو؟ہم نے کہا کہ قیامت کا ذکر کرتے تھے۔آپﷺ نے فرمایا:
“قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ دس نشانیاں اس سے پہلے نہیں دیکھ لو گے۔پھر ذکر کیا دھوئیں کا،دجال کا،زمین کے جانور کا، سورج کے مغرب سے نکلنے کا،عیسیٰؑ کے اترنے کا،یاجوج ماجوج کے نکلنے کا،تین جگہ خسف کا یعنی زمین کا دھنسنا ایک مشرق میں، دوسرے مغرب میں،تیسرے جزیرہ عرب میں۔ اور ان سب نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہو گی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی ان کے (میدان) محشر کی طرف لے جائے گی۔

(صحیح مسلم:حدیث نمبر 7285،باب فی الآیات التی تکون قبل الساعة)

حدیث نمبر 9:

“عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِﷺ،قَالَ:‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:‏‏‏‏عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللَّهُ مِنَ النَّارِ:‏‏‏‏عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ، ‏‏‏‏‏‏وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلَام۔”

رسول اللہﷺ کے غلام حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“میری امت میں دو گروہ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے جہنم سے محفوظ کر دیا ہے۔ایک گروہ وہ ہو گا جو ہند پر لشکر کشی کرے گا اور ایک گروہ وہ ہو گا جو عیسیٰ بن مریمؑ کے ساتھ ہو گا۔”

(سنن النسائی:حدیث نمبر 3177،باب غزوة الھند)

حدیث نمبر 10:

“عن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ:‏‏‏‏مَكْتُوبٌ فِي التَّوْرَاةِ صِفَةُ مُحَمَّدٍﷺ،‏‏‏‏وَصِفَةُ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ يُدْفَنُ مَعَهُ۔”

حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کہتے ہیں کہ تورات میں محمدﷺ کے احوال لکھے ہوئے ہیں اور یہ بھی کہ عیسیٰ بن مریم انہیں کے ساتھ دفن کئے جائیں گے۔

(سنن الترمذی:حدیث نمبر 3617،باب فی فضل النبیﷺ)

خلاصہ کلام:

معزز قارئین سیدنا عیسیؑ کے نزول پر یوں تو 100 سے زائد احادیث مبارکہ موجود ہیں لیکن ہم نے 10 احادیث مبارکہ کو پیش کیا ہے۔ان احادیث مبارکہ سے سیدنا عیسیؑ کا آسمان سے زمین پر نازل ہونا ثابت ہوتا ہے۔اور نزول کے لئے حیات یعنی سیدنا عیسیؑ کا زندہ ہونا لازم و ملزوم ہے۔
اگر سیدنا عیسیؑ فوت ہوگئے ہیں تو وہ نازل کیسے ہوسکتے ہیں؟؟

سیدنا عیسیؑ کا آسمان سے زمین پر نازل ہونا ہی سیدنا عیسیؑ کے زندہ ہونے کی دلیل ہے۔

ان 10 احادیث مبارکہ میں حضورﷺ نے وضاحت کے ساتھ سیدنا عیسیؑ کے آسمان سے زمین پر نزول کے بارے میں بتایا ہے۔

پس ثابت ہوا کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا تھا اور وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے۔

وفات مسیحؑ کا مکمل قادیانی عقیدہ:

مرزا غلام احمد قادیانی(1839 – 1908) کا عقیدہ اپنی عمر کے تقريباً 52 سال (سن 1891 تک) نہ صرف خود بھی مسلمانوں والا تھا بلکہ اپنی اولین کتاب “براہين احمديہ” میں قرآنى آيات سے حضرت عيسىؑ ہی کا دوبارہ دنیا میں آنا ثابت بھی کیا۔
(اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح: صفحہ 6 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 113)

لیکن آخر عمر میں مرزا غلام احمد قادیانی نے ایک انوکھا اور نیا عقیدہ پیش کیا۔جس کا خلاصہ یہ ہے:

“سیدنا عیسیؑ کو یہودیوں نے صلیب پر چڑھایا اور وہ چند گھنٹے تک صلیب پر رہے لیکن وہ صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے قتل نہیں ہوئے بلکہ زخمی ہوگئے اور زخمی حالت میں آپ کو ایک غار میں لے جایا گیا اور وہاں آپ کا تین دن علاج ہوتا رہا۔تین دن کے بعد آپ صحت یاب ہوئے اور پھر اپنی والدہ کے ساتھ فلسطین سے افغانستان کے راستے سے ہوتے ہوئے کشمیر چلے گئے۔کشمیر میں 87 سال رہے۔پھر آپ کی وفات ہوئی۔اور آپ کی قبر کشمیر کے محلہ خان یار میں ہے۔”


اس کو اگر پوائنٹس کی صورت میں لکھیں تو درج ذیل پوائنٹ بنتے ہیں:

1) یہودیوں نے سیدنا عیسیؑ کو گرفتار کر لیا۔

(ست بچن:صفحہ الف،مندرجہ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 301)

2) یہودیوں نے سیدنا عیسیؑ کو دو چوروں کے ساتھ صلیب پر چڑھا دیا۔

(ازالہ اوہام حصہ اول: صفحہ 381 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 296)

3)سیدنا عیسیؑ دو گھنٹے صلیب پر رہے۔

(مسیح ہندوستان میں :صفحہ 20 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 22)

4)سیدنا عیسیؑ کو چند گھنٹوں بعد زخمی حالت میں صلیب سے اتار لیا گیا۔

5)سیدنا عیسیؑ کو زخمی حالت میں قبر نما میں لے جایا گیا۔اور وہاں تین دن تک رہے۔

(مسیح ہندوستان میں :صفحہ 19 روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 21)

6)تین دن کے علاج کے بعد سیدنا عیسیؑ تندرست ہو گئے۔

(تحفة الندوہ :صفحہ 10 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 104)

7)سیدنا عیسیؑ صحت یاب ہونے کے بعد اپنی والدہ سیدہ مریمؑ کو ساتھ لے کر افغانستان کے راستے سے کشمیر چلے گئے۔

(ضمیمہ براہین احمدیہ :صفحہ 100 مندرجہ روحانی خزائن جلد21 صفحہ262)

8)حدیث صحیح(یہ حدیث کے نام پر جھوٹ ہے۔از ناقل) سے ثابت ہے کہ سیدنا عیسیؑ کشمیر میں واقعہ صلیب کے بعد 87 سال رہے۔

(ست بچن:صفحہ ب،مندرجہ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 302)

9)سیدنا عیسیؑ کی وفات کشمیر میں 120 سال کی عمر میں ہوئی۔

(مسیح ہندوستان میں :صفحہ 12 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 14)

10)سری نگر کے محلہ خان یار میں “یوز آسف” کے نام سے جو قبر موجود ہے وہ سیدنا عیسیؑ کی ہے۔

(راز حقیقت :صفحہ 19 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 171)

چیلنج تا قیامت:

مرزا غلام احمد قادیانی کا کوئی پیروکار یہ سمجھتا ہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کا یہ پورا اور مکمل نظریہ قرآن وحديث سے صراحت کے ساتھ ثابت کر سکتا ہے تو وہ ہم سے رابطہ کرے،اور اگر اس نے مرزا غلام احمد قادیانی کے اس عقیدہ و نظریہ کے یہ تمام اجزاء قرآن مجید و احاديث صحيحہ سے ثابت کردیئے تو ہم اسے مبلغ ایک لاکھ روپیہ (100,000) پاکستانی سکہ رائج الوقت انعام میں دیں گے۔

اور اگر قادیانی یہ ثابت نہ کرسکیں اور یقیناً قیامت تک بھی ثابت نہیں کرسکیں گے تو مرزا غلام احمد قادیانی پر چار حرف بھیج کر اسلام کے وسیع دامن میں آجائیں۔

اب قادیانیوں کا مسیح یا مثیل مسیح کے آنے کا عقیدہ ملاحظہ فرمائیں:

عبارت نمبر 1:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود بھی ہمارا ہی نام رکھا ہے جس کے آنے کے متعلق احادیث میں وعدہ تھا۔”

(ملفوظات :جلد 5 صفحہ 553 پانچ جلدوں والا ایڈیشن)

عبارت نمبر 2:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“قرآن مجید و احادیث صحیحہ یہ امید اور بشارت بتواتر دے رہی ہیں کہ مثیل ابن مریم اور دوسرے مثیل بھی آئیں گے۔”

(ازالہ اوہام :صفحہ 412 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 314)

مرزا غلام احمد قادیانی کے مطابق وہ مثیل مسیح جس کی خبر احادیث میں دی گئی ہے وہ مثیل مسیح مرزا غلام احمد قادیانی بن چراغ بی بی ہے اور قرآن نے مرزا غلام احمد قادیانی کا نام ابن مریم رکھا ہے۔

عبارت نمبر 3:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“میں وہی مثیل موعود ہوں جس کے آنے کی خبر روحانی طور پر قرآن شریف اور احادیث نبویہ(یہ مرزا غلام احمد قادیانی کا قرآن و حدیث پر جھوٹ ہے قرآن و حدیث میں کہیں بھی مثیل موعود کی خبر نہیں-از ناقل) میں پہلے سے وارد ہو چکی ہے۔”

(ازالہ اوہام حصہ اول: صفحہ 191 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 192)

عبارت نمبر 4:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“میرے نزدیک ممکن ہے کہ کسی آئیندہ زمانے میں خاص کر دمشق میں بھی کوئی مثیل مسیح پیدا ہو جائے۔”

(ازالہ اوہام حصہ اول: صفحہ 73 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 138)

عبارت نمبر 5:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“اگر قرآن نے میرا نام ابن مریم نہیں رکھا تو میں جھوٹا ہوں۔”

(تحفتہ الندوہ :صفحہ 5 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 98)

اس ضمن میں ہمارا سوال یہ ہے کہ قرآن مجید کی کون سی آیت ایسی ہے جہاں یہ ذکر ہو کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور قرب قیامت ان کا کوئی مثیل آئے گا؟ قیامت کی صبح تک اس کا جواب قادیانیوں کے پاس نہیں ہے۔

مرزا غلام احمد قادیانی کے بقول سیدنا عیسیؑ فوت ہوگئے ہیں اور احادیث میں جس “مریم کے بیٹے” کے نزول کی خبر دی گئی ہے وہ “مریم کا بیٹا” مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔اور جن احادیث میں “مریم کے بیٹے عيسیؑ” کے نزول کی خبر دی گئی ہے،ان سے مراد اصلی عيسىؑ نہیں بلکہ ان کا ایک مثیل ہے،نیز قرآن كريم اور احاديث صحيحہ نے بشارت دی ہے کہ مثیل مسیح اور دوسرے مثیل بھی آئیں گے۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی یہ ساری باتیں خیالی ہیں۔اور یہ ایسی باتیں ہیں جن کا ثبوت قادیانی قیامت کی صبح تک نہیں دے سکتے۔ہمارا قادیانیوں سے صرف ایک سوال ہے کہ جیسے مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے کہ مثیل ابن مریم اور دوسرے مسیح بھی آئیں گے اس بات کو قرآن یا کسی حدیث سے ثابت کردیں۔ہم پورے یقین اور دعوے سے کہتے ہیں کہ اس عقیدے پر نہ قرآن کی آیت ملے گی اور نہ ہی کوئی حدیث ملے گی۔

 

ظہور مہدی کا قادیانی عقیدہ:

امام مہدی اور مرزا قادیانی کا تقابلی جائزہ

جائزہ نمبر 1:

امام مہدی کے بارے میں جو باتیں ہمیں احادیث سے معلوم ہوتی ہیں۔اب انہی پر مرزا غلام احمد قادیانی کو پرکھ لیتے ہیں۔

1) امام مہدی کا نام محمد ہوگا۔جبکہ مرزا کا نام غلام احمد قادیانی تھا۔
2) امام مہدی کے والد کا نام عبداللہ ہوگا۔جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی کے والد کا نام غلام مرتضی تھا۔
3) امام مہدی سادات میں سے ہوں گے۔جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی کا خاندان “مغل” تھا۔
4) امام مہدی بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوں گے جب ان کو پہچان کر ان کی بیعت کی جائے گی۔جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی ساری زندگی مکہ مکرمہ نہیں جاسکے۔
5) امام مہدی حاکم(بادشاہ) ہوں گے ۔ جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی غلام تھا۔
6) امام مہدی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی کو تو حکومت ہی نصیب نہیں ہوئی۔
7) امام مہدی کی حکومت 7 یا 9 سال ہوگی۔جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی کو تو حکومت ہی نصیب نہیں ہوئی۔
8) امام مہدی کے وقت میں سیدنا عیسیؑ کا آسمان سے نزول ہوگا۔جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دور میں سیدنا عیسیؑ آسمان سے نازل نہیں ہوئے۔

جب مرزا غلام احمد قادیانی سے اس بارے میں سوال کیا گیا کہ آپ تو کہتے ہیں کہ آپ امام مہدی ہیں،حالانکہ جس مہدی کے آنے کا حدیث میں ذکر ملتا ہے۔ان کا نام محمد ہوگا،ان کے والد کا نام عبداللہ ہوگا،وہ سادات میں سے ہوں گے جبکہ آپ کے اندر تو اس بارے میں کوئی نشانی نہیں پائی جاتی۔تو مرزا غلام احمد قادیانی نے جو جواب دیا وہ پڑھیں۔

“میرا یہ دعوی نہیں کہ میں وہ مہدی ہوں جو مصداق من ولد فاطمة ومن عترتی وغیرہ ہے۔ بلکہ میرا دعوی تو مسیح موعود ہونے کا ہے۔ اور مسیح موعود کے لئے کسی محدث کا قول نہیں کہ وہ بنی فاطمہ وغیرہ سے ہوگا۔ہاں ساتھ اس کے جیسا کہ تمام محدثین کہتے ہیں میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے میں جس قدر حدیثیں ہیں تمام مجروح اور مخدوش ہیں۔اور ایک بھی ان میں سے صحیح نہیں۔اور جس قدر افترا ان حدیثوں میں ہوا ہے کسی اور حدیث میں ایسا افترا نہیں ہوا۔”

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 185 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 356)

لیجیے اس جائزے اور مرزا غلام احمد قادیانی کی تشریح سے پتہ چلا کہ جس امام مہدی کے قرب قیامت آنے کی خبر احادیث میں دی گئی ہے۔مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوی اس مہدی ہونے کا نہیں ہے۔پتہ چلا کہ مرزا غلام احمد قادیانی اپنے دعوی مہدویت میں احادیث کی روشنی سے کذاب ہیں۔

جائزہ نمبر 2:

مرزا غلام احمد قادیانی کے امام مہدی کے عقیدے میں بہت سے تضاد ہیں۔آئیے مرزا غلام احمد قادیانی کے امام مہدی کے عقیدے کا مزید جائزہ لیتے ہیں تاکہ یہ تضادات مزید واضح ہو سکیں۔

مرزا غلام احمد قادیانی نے ایک جگہ قلابازی کھاتے ہوئے لکھا ہے:

“اگر مجھے قبول نہیں کرتے تو یوں سمجھ لو کہ تمہاری حدیثوں میں لکھا ہے کہ مہدی موعود خلق اور خلق میں ہمرنگ آنحضرتﷺ ہوگا۔اور اس کا اسم آنجناب کے اسم سے مطابق ہوگا۔یعنی اس کا نام بھی محمد اور احمد ہوگا۔اور اس کے اہل بیت میں سے ہوگا۔”

اس کے حاشیے میں مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“یہ بات میرے اجداد کی تاریخ سے ثابت ہے کہ ایک دادی ہماری شریف خاندان سادات سے اور بنی فاطمہ میں سے تھیں۔اس کی تصدیق آنحضرتﷺ نے بھی کی اور خواب میں مجھے فرمایا کہ “سلمان منااھل البیت علی مشرب الحسن” میرا نام سلمان رکھا یعنی دو سلم۔ اور سلم عربی میں صلح کو کہتے ہیں۔یعنی مقدر ہے کہ دو صلح میرے ہاتھ پر ہوں گی۔ایک اندرونی کہ جو اندرونی بغض اور شحنا کو دور کرے گی۔دوسری بیرونی کہ جو بیرونی عداوت کے وجوہ کو پامال کر کے اور اسلام کی عظمت دکھا کر غیر مذہب والوں کو اسلام کی طرف جھکادے گی۔معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں جو سلمان آیا ہے۔ اس سے بھی میں مراد ہوں۔ورنہ اس سلمان پر دو صلح کی پیشگوئی صادق نہیں آتی۔اور میں خدا سے وحی پاکر کہتا ہوں کہ میں بنی فارس میں سے ہوں۔اور بموجب اس حدیث کے جو کنزالعمال میں درج ہے۔بنی فارس بھی بنی اسرائیل اور اہل بیت میں سے ہیں۔اور حضرت فاطمہ نے کشفی حالت میں اپنی ران پرمیرا سر رکھا۔اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں۔چنانچہ یہ کشف براہین احمدیہ میں موجود ہے۔”

(ایک غلطی کا ازالہ: صفحہ 5 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 212،213)

مرزا غلام احمد قادیانی نے اس جگہ یہ تسلیم کیا ہے کہ تمہاری بات مان کر اگر یہ کہا جائے کہ امام مہدی کا نام محمد ہوگا اور وہ سادات میں سے ہوگا۔تو پھر بھی میں مہدی ہوں کیونکہ میری ایک دادی سادات میں سے تھیں۔اور حضرت فاطمہ ؓ نے مجھے خواب میں اپنا بیٹا کہا ہے۔
ماشاء اللہ کیا کہنے کہ جب صاف پتہ چلتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی “مہدی” کی بتائی گئی کسی ایک نشانی پر پورا نہیں اترا تو کس طرح کھینچ تان کر اپنے آپ کو سید ثابت کر دیا حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ نسب ماں سے نہیں بلکہ باپ سے چلتا ہے۔

اگر یوں کہا جائے کہ سادات بھی تو حضرت فاطمہ ؓ کی اولاد کو کہا جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ صرف حضرت فاطمہ ؓ کی اولاد کو سادات نہیں کہا جاتا بلکہ بنی ہاشم تمام سادات میں داخل ہیں۔جن میں حضرت علی ؓ ،حضرت عباس ؓ،حضرت عقیل ؓ اور حضرت جعفر ؓ کی اولاد شامل ہیں۔ جیسا کہ مسلم کی حدیث نمبر6225 میں ذکر ہے۔

اب اگر مرزا غلام احمد قادیانی کو بالفرض سادات میں سے تسلیم کر بھی لیا جائے تو مرزا غلام احمد قادیانی پھر بھی مہدی ثابت نہیں ہوتا کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی کا نام غلام احمد قادیانی تھا اور مہدی کا نام محمد ہوگا۔جیسا کہ خود بھی مرزا غلام احمد قادیانی نے تسلیم کیا ہے۔

لیجئے اس جائزے سے ثابت ہوا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے جھوٹ کا سہارا لے کر جو مہدی بننے کی ناکام کوشش کی ہے مرزا غلام احمد قادیانی اس میں بھی ناکام ہے کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی نا تو سید ہیں اور ہی مرزا غلام احمد قادیانی کا نام محمد ہے۔اور نہ ہی والد کا نام عبداللہ ہے۔اور نہ ہی مرزا غلام احمد قادیانی کبھی مکہ مکرمہ جاسکا ہے۔

پہلے جائزے کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی اس امام مہدی ہونے سے انکاری تھے جن کا ذکر احادیث میں آیا ہے۔اور دوسرے جائزے کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی اسی امام مہدی ہونے کے دعوے دار ہیں جن کا ذکر احادیث میں آیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی کون سی بات سچ تسلیم کی جائے؟؟؟
اور قانون یہ ہے کہ نبی جھوٹ نہیں بولتا اور جھوٹا شخص نبی نہیں ہوسکتا۔

جائزہ نمبر 3:

مرزا غلام احمد قادیانی کی کچھ تحریرات کے مطابق امام مہدی کے بارے میں جتنی بھی احادیث ہیں وہ سب جھوٹی،ضعیف ہیں۔چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔

حوالہ نمبر 1:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے میں جس قدر حدیثیں ہیں تمام مجروح و مخدوش ہیں اور ایک بھی اُن میں سے صحیح نہیں۔اور جسقدر افتراء اُن حدیثوں میں ہوا ہے کسی اور میں ایسا نہیں ہوا۔”

(ضمیمہ براہین احمدیہ پنجم:صفحہ 185مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 356)

حوالہ نمبر 2:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“مہدی کی حدیثوں کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی جرح سے خالی نہیں اور کسی کو صحیح حدیث نہیں کہہ سکتے۔”

(حاشیہ حقیقتہ الوحی:صفحہ 208 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 217)

حوالہ نمبر 3:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“سو سنت جماعت کایہ مذہب ہے کہ امام محمدمہدی فوت ہو گئے ہیں اور آخری زمانہ میں انہیں کے نام پر ایک اور امام پیدا ہوگا،لیکن محققین کے نزدیک مہدی کا آنا کوئی یقینی امر نہیں ہے۔”

(ازالہ اوہام حصہ دوم:صفحہ 457مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 344)

حوالہ نمبر 4:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“اور سچ یہ ہے کہ بنی فاطمہ سے کوئی مہدی آنے والا نہیں۔اور ایسی تمام حدیثین موضوع اور بے اصل اور بناوٹی ہیں۔”

(کشف الغطا ء:صفحہ12 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 193)

حوالہ نمبر 5:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“مسلمانوں کے قدیم فرقوں کو ایک ایسے مہدی کا انتظار ہے جو فاطمہ مادر حسین کی اولاد میں سے ہوگا اور نیز ایسے مسیح کا بھی انتظار ہے جو اس مہدی سے مِلکر مخالفانِ اسلام سے لڑائیاں کرے گا مگر میں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ سب خیالات لغو اور باطل اور جھوٹ ہیں۔”

(کشف الغطاء،:صفحہ 12 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 193)

حوالہ نمبر 6:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“میں کہتا ہوں کہ مہدی کی خبریں ضعف سے خالی نہیں ہیں کیونکہ امامین(بخاری و مسلم) نے ان کو نہیں لیا۔”

(ازالہ اوہام:صفحہ 568مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 406)

مرزا غلام احمد قادیانی کی ان تحریرات سے پتہ چلا کہ امام مہدی کے بارے میں جتنی بھی روایات ہیں وہ ضعیف ہیں اور باطل ہیں۔

اب مرزا غلام احمد قادیانی کی چند مزید تحریرات ملاحظہ فرمائیں جن میں مرزا غلام احمد قادیانی نے انہی روایات کو صحیح قرار دیا ہے۔اور خود کو امام مہدی انہیں روایات کی وجہ سے کہا ہے۔

حوالہ نمبر 1:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اُس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الٰہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریمﷺ نے دی تھی وہ میں ہی ہوں۔”

(تذکرة الشہادتین،:صفحہ 2،مندرجہ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 3 تا 4)

حوالہ نمبر 2:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“میں خدا سے وحی پا کر کہتا ہوں کہ میں بنی فارس میں سے ہوں اور بموجب اس حدیث کےجو کنزالعمال میں درج ہے بنی فارس بھی بنی اسرائیل اور اہل بیت میں سے ہیں اور حضرت فاطمہ نے کشفی حالت میں اپنی ران پرمیرا سر رکھا۔اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں۔”

(ایک غلطی کا ازالہ: صفحہ 5،مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 213)

حوالہ نمبر 3:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“اور بموجب حدیث لو کان الایمان عند الثریا لنا لہ رجال او رجل من ھٰولاء ای من فارس دیکھو بخاری صفحہ 727۔رجل فارسی کا جائے ظہور بھی یہ مشرق ہے۔اور ہم ثابت کر چکے ہیں کہ وہی رجل فارسی مہدی ہے اس لیے ماننا پڑا کہ مسیح موعود اور مہدی اور دجال تینوں مشرق میں ہی ظاہر ہوں گے اور وہ ملک ہند ہے۔”

(تحفہ گولڑویہ:صفحہ 47 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 167)

حوالہ نمبر 4:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“دوسری گواہی اس حدیث (ان لمھدینا آیتین) کی صحیح اور مرفوع متصل ہونے پر آیت “فلا یظھر علی غیبہ احد ا الا من ارتضی من رسول” میں ہے کیونکہ یہ آیت علم غیب صحیح اور صاف کا رسولوں پر حصر کرتی ہے جس سے بالضرورت متعین ہوتا ہے کہ “ان لمھدینا” کی حدیث بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے۔”

(حاشیہ تحفہ گولڑویہ: صفحہ 29 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 135)

حوالہ نمبر 5:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“اگر حدیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہیے جو صحت اور وثوق میں اس حدیث پر کئی درجہ بڑھی ہوئی ہیں۔مثلا صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن میں آخری زمانوں میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے۔خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کے لئے آواز آئے گی “ھذا خلیفتہ اللہ المھدی” اب سوچو یہ حدیث کس پائے اور مرتبے کی ہے۔جو ایسی کتاب میں درج ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے۔”

(شہادة القرآن :صفحہ 41مندرجہ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 337)

معزز قارئین دونوں قسم کے حوالہ جات آپ نے ملاحظہ کئے جن میں مرزا غلام احمد قادیانی نے پہلے کہا کہ امام مہدی کے بارے میں حدیثیں ضعیف ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ امام مہدی کے بارے میں بخاری اور مسلم میں کوئی روایت نہیں لہذا امام مہدی کے بارے میں احادیث ضعیف ہیں۔
اسی کے برعکس پھر مرزا غلام احمد قادیانی نے انہیں احادیث کو صحیح قرار دیا اور بخاری کی ایک روایت کا ذکر بھی کیا۔جو درحقیقت بخاری میں موجود نہیں بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی نے بخاری پر جھوٹ لکھا ہے۔

ہمارا قادیانیوں سے سوال ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی کون سی بات سچ تسلیم کی جائے۔ایک طرف تو مرزا غلام احمد قادیانی نے امام مہدی کے بارے میں تمام حدیثوں کو ضعیف اور جھوٹا لکھا ہے اور دوسری طرف انہی احادیث کو صحیح بھی کہا ہے۔اب دونوں میں سے ایک ہی بات سچی ہوسکتی ہے۔اور ایک بات یقینا جھوٹ ہوگی۔
اور قانون یہ ہے کہ نبی جھوٹ نہیں بولتا اور جھوٹا شخص نبی نہیں ہوسکتا۔

جائزہ نمبر 4:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“اگرچہ اس میں کچھ شک نہیں کہ احادیث میں جہاں جہاں مہدی کے نام سے کسی آنے والے کی پیشگوئی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ہے۔اس کے سمجھنے میں لوگوں نے بڑے بڑے دھوکے کھائے ہیں۔اور غلط فہمی کی وجہ سے عام طور پر یہی سمجھا گیا ہے کہ ہر ایک مہدی کے لفظ سے مراد محمد بن عبداللہ ہے۔جس کی نسبت بعض احادیث پائی جاتی ہیں۔لیکن نظر غور سے معلوم ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کئی مہدیوں کی خبر دیتے ہیں۔منجملہ ان کے وہ مہدی بھی ہے جس کا نام حدیث میں سلطان مشرق رکھا گیا ہے۔ جس کا ظہور ممالک مشرقیہ ہندوستان وغیرہ سے اور اصل وطن فارس سے ہونا ضرور ہے۔ درحقیقت اسی کی تعریف میں یہ حدیث ہے کہ اگر ایمان ثریا سے معلق یا ثریا پر ہوتا تب بھی وہ مرد وہیں سے اس کو لے لیتا۔اور اس کی یہ نشانی بھی لکھی ہے کہ وہ کھیتی کرنے والا ہوگا۔غرض یہ بات بالکل ثابت شدہ اور یقینی ہے کہ صحاح ستہ میں کئی مہدیوں کا ذکر ہے۔اور ان میں سے ایک وہ بھی ہے جس کا ممالک مشرقیہ سے ظہور لکھا ہے۔مگر بعض لوگوں نے روایات کے اختلاط کی وجہ سے دھوکا کھایا ہے۔لیکن بڑی توجہ دلانے والی یہ بات ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہدی کے ظہور کا زمانہ وہی زمانہ قرار دیا ہے جس میں ہم ہیں۔اور چودھویں صدی کا اس کو مجدد قرار دیا ہے۔”

(نشان آسمانی: صفحہ 9،10 مندرجہ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 370)

مرزا غلام احمد قادیانی کی اس تحریر سے پتہ چلا کہ صرف ایک مہدی نے نہیں آنا بلکہ احادیث میں بہت سے مہدیوں کے آنے کی خبر دی گئی ہے۔

اب مرزا غلام احمد قادیانی کی دو اور تحریرات دیکھتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی ہی آخری مہدی ہے اور اس کے بعد کسی مہدی نے نہیں آنا۔

تحریر نمبر 1:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اُس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الٰہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریمﷺ نے دی تھی وہ میں ہی ہوں۔”

(تذکرةالشہادتین :صفحہ 2مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 3 تا 4)

تحریر نمبر 2:

مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے:

“میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کا نام جنت تھا پہلے وہ لڑکی پیٹ سے نکلی تھی اور بعد اس کے میں نکلا تھا۔اور میرے بعد میرے والدین کے گھر میں کوئی اور لڑکا یا لڑکی نہیں ہوئی اور میں ان کے لئے خاتم الاولاد تھا۔اور یہ میری پیدائش کا وہ طرز ہے جس کو بعض اہل کشف نے مہدی خاتم الولایت کی علامتوں میں سے لکھا ہے۔اور بیان کیا ہے کہ وہ آخری مہدی جس کی وفات کے بعد کوئی اور مہدی پیدا نہیں ہوگا۔”

(تریاق القلوب :صفحہ 157 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 479)

ہمارا قادیانیوں سے سوال ہے کہ اگر ایک مہدی کی بجائے بہت سے مہدیوں نے آنا ہے تو ہمیں بتایا جائے کہ مرزا غلام احمد قادیانی سے پہلے کون سچا مہدی تھا؟؟؟
اور ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ وہ مہدی جس کے بارے میں ذکر ہے کہ اس کا نام محمد، والد کا نام عبداللہ اور وہ سادات میں سے ہوگا وہ کون تھا اس کی نشاندہی کی جائے ؟؟؟ کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے کہ میں آخری مہدی ہوں۔

معزز قارئین ان چاروں جائزوں کا خلاصہ یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا مہدی ہونے کا دعوی سچا نہیں تھا کیونکہ کبھی مرزا غلام احمد قادیانی نے کہا کہ میں وہی مہدی ہوں جس کا حدیث میں ذکر ہے۔کبھی کہا کہ میں وہ مہدی نہیں ہوں۔کبھی کہا کہ ایک نہیں،بہت سے مہدیوں نے ظاہر ہونا ہے،کبھی کہا کہ میں ہی آخری مہدی ہوں۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے اتنے پلٹے کھائے ہیں کہ اگر خود قادیانی بھی ٹھنڈے دماغ سے مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابوں کو پڑھیں تو چکرا جائیں۔ اتنے پلٹے کھانے والا سچا مہدی نہیں ہوسکتا۔ جبکہ ایک بھی نشانی مہدی کی مرزا غلام احمد قادیانی میں پوری بھی نہ ہوئی ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *