حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ کے بیٹے ابراہیم ؓ کا انتقال ہو گیا، تو آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی،اور فرمایا: “جنت میں ان کے لئے ایک دایہ ہے،اور اگر وہ زندہ رہتے تو صدیق اور نبی ہوتے،اور ان کے ننہال کے قبطی آزاد ہو جاتے،اور کوئی بھی قبطی غلام نہ بنایا جاتا۔”
(ابن ماجہ حدیث نمبر 1511، باب ما جاء فی الصلاۃ علی ابن رسول اللہﷺ)
قادیانی اس روایت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر نبوت جاری نہ ہوتی ختم ہوچکی ہوتی تو حضورﷺ یہ کیوں فرماتے کہ اگر ابراہیم ؓ زندہ رہتے تو نبی ہوتے۔آپﷺ کا اس طرح فرمانا ہمیں بتاتا ہے کہ نبوت جاری ہے اور نئے نبی آسکتے ہیں۔
قادیانیوں کے باطل استدلال کے جوابات
قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
جواب نمبر 1
ابن ماجہ میں ہی ایک اور روایت موجود ہے جو اس روایت کی واضح تشریح کرتی ہے۔وہ روایت درج ذیل ہے۔
(روایت کرنے والے راوی اسماعیل کہتے ہیں کہ)میں نے عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے پوچھا: آپ نے رسول اللہﷺ کے صاحب زادے ابراہیم ؓ کو دیکھا ہے؟انہوں نے کہا:
ابراہیم ؓ بچپن ہی میں انتقال کر گئے،اور اگر نبی اکرمﷺ کے بعد کسی کا نبی ہونا مقدر ہوتا تو آپ کے بیٹے زندہ رہتے،لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1510، باب ما جاء فی الصلاۃ علی ابن رسول اللہﷺ)
اس روایت سے پتہ چلا کہ حضورﷺ کے صاحبزادے اس لئے فوت ہوگئے کیونکہ نبوت جاری نہیں ہے ختم ہوگئی ہے۔
کیونکہ اگر وہ زندہ رہتے تو ان میں نبی بننے کی صلاحیت موجود تھی ۔
جواب نمبر 2
اس روایت پر محدثین نے کلام کیا ہے اور اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔اس لئے قرآن کی نص اور صحیح روایات کے ہوتے ہوئے ایک ضعیف اور کمزور روایت کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے۔
چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں جہاں محدثین نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔
1)شیخ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ اس قول کے کیا معنی ہیں کیوں کہ یہ کہاں ہے کہ ہر نبی کا بیٹا نبی ہو۔اس لئے کہ حضرت نوحؑ کے بیٹے نبی نہیں تھے۔
(انجاح صفحہ 108)
2)علامہ ابن حجرؒ نے فرمایا ہے کہ اس روایت کا راوی “ابوشیبہ ابراهیم بن عثمان” متروک الحدیث ہے۔
(تقریب التہذیب صفحہ 25)
3)امام نوویؒ نے تہذیب الاسماء میں لکھا ہے کہ یہ حدیث باطل ہے۔غیب کی باتوں پر جسارت ہے ۔ بڑی بےتکی بات ہے۔
(موضوعات کبیر صفحہ 58)
4)شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔اس کا کوئی اعتبار نہیں۔اس کی سند میں ابوشیبہ ابراهیم بن عثمان ہے جو ضعیف ہے۔
(مدارج النبوت جلد 2 صفحہ 677)
5۔ امام ترمذیؒ کی رائے یہ ہے کہ یہ منکر الحدیث ہے۔
(تہذیب التہذیب جلد 1 صفحہ 144،145)
جواب نمبر 3
اگر یہ روایت صحیح بھی ہوتی اور اس کے راوی پر بھی جرح نہ ہوتی پھر بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر حضورﷺ کے بعد نبوت جاری ہوتی اور حضرت ابراہیم ؓ زندہ رہتے تو ان میں نبی بننے کی صلاحیت موجود تھی۔جس طرح حضرت عمر ؓ میں نبی بننے کی صلاحیت موجود تھی لیکن وہ نبی نہیں تھے کیونکہ نبوت کا دروازہ بند ہے۔
جواب نمبر 4
اس روایت میں ایک حرف “لو” استعمال ہوا ہے۔ اور حرف “لو” وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں یہ معنی ہوکہ یہ کام نہیں ہوسکتا لیکن بطور مثال کے بیان کیا گیا ہو۔جیسے قرآن پاک میں ارشاد ہے۔
اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا دوسرے خدا ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوجاتے۔لہذا عرش کا مالک اللہ ان باتوں سے بالکل پاک ہے جو یہ لوگ بنایا کرتے ہیں۔
(سورہ الانبیاء آیت نمبر 22)
اس آیت میں حرف “لو” استعمال کرکے یہ بیان کیا گیا ہے اگر اللہ کے علاوہ کوئی اور الہ زمین و آسمان میں ہوتا تو زمین و آسمان کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔اب یہ تو یقینی بات ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی اور الہ نہیں لیکن حرف “لو” استعمال کر کے اس کو بطور مثال ذکر کیا گیا ہے۔
اسی طرح اس روایت میں بھی بطور مثال ذکر ہے کہ ویسے تو نبوت کا دروازہ بند ہے لیکن بالفرض اگر نبوت کا دروازہ کھلا ہوتا تو حضرت ابراہیم ؓ میں نبی بننے کی صلاحیت موجود تھی۔
“حدیث نمبر 2”
قادیانی کہتے ہیں کہ:حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں:
’’ قولوا خاتم النبیین ولا تقولوا لانبی بعدہ”
“یہ تو کہو کہ حضورﷺ خاتم النبیین ہیں لیکن یہ نہ کہو کہ حضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔”
قادیانی کہتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک نبوت جاری تھی۔
“قادیانیوں کے باطل استدلال کے علمی تحقیقی جوابات “
قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں۔
جواب نمبر 1
اماں عائشہ صدیقہ ؓ کے جس قول پر قادیانی اعتراض کرتے ہیں اسی طرح کا ایک قول حضرت مغیرہ ؓ سے بھی منقول ہے۔
قول اماں عائشہ صدیقہ ؓ اور قول حضرت مغیرہ ؓ کی دونوں مکمل عبارتیں بمع ترجمہ وتشریح ملاحظہ فرمائیں۔
“وفے حدیث عیسیٰ انہ تقتل الخنزیر ویکسر الصلیب ویزید فے الحلال اے یزید فی حلال نفسہ بان یتزوج ویولد لہ وکان لم یتزوج قبل رفعہ الی السماء فزاد بعد الہبوط فی الحلال فہینذ یومن کل احد من اھل الکتب یتیقن بانہ بشروعن عائشہ قولوا انہ خاتم الانبیاء ولا تقولو الانبی بعدہ وھذا ناظر الی نزول عیسیٰ وھذا ایضالا ینافی حدیث لانبی بعدہ لانہ اراد لانبی ینسخ شرعہ۔
(تکلمہ مجمع البحار صفحہ 85)
حضرت عیسیٰؑ کے قصہ میں ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نزول کے بعد خنزیر کو قتل کریں گے۔ اور صلیب کو توڑیں گے اور اپنے نفس کی حلال چیزوں میں اضافہ کریں گے یعنی نکاح کریں گے اور آپ کی اولاد ہوگی۔کیونکہ حضرت عیسیٰؑ نے آسمان پر اٹھائے جانے سے پہلے نکاح نہیں فرمایا تھا۔آسمان سے اترنے کے بعد نکاح فرمائیں گے۔(جو لوازم بشریت سے ہے) پس اس حال کو دیکھ کر ہر شخص اہل کتاب میں سے ان کی نبوت پر ایمان لے آئے گا اور اس بات کا یقین کرے گا کہ عیسیٰؑ بلاشبہ ایک بشر ہیں۔خدا نہیں جیسا کہ نصاریٰ اب تک سمجھتے رہے۔اور عائشہ صدیقہ ؓ سے جو یہ منقول ہے کہ وہ فرماتی تھیں کہ آپﷺ کو خاتم النبیین کہو اور یہ نہ کہو کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ان کا یہ ارشاد حضرت عیسیٰؑ کے نزول کو پیش نظر رکھ کر تھا۔اور حضرت عیسیٰؑ کا دوبارہ دنیا میں آنا حدیث لانبی بعدی کے منافی نہیں کیونکہ حضرت عیسیٰؑ نزول کے بعد حضورﷺ ہی کی شریعت کے متبع ہوں گے۔اور لانبی بعدی کی مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا نبی نہ آئے گا جو آپ کی شریعت کا ناسخ ہو۔
اور اسی قسم کا قول حضرت مغیرہ ابن شعبہ ؓسے منقول ہے:
“عن الشعبی قال قال رجل عند المغیرۃ بن شعبۃ صلی ﷲ علی محمد خاتم الانبیاء لانبی بعدہ فقال المغیرہ بن شعبۃ حسبک اذا قلت خاتم الانبیاء فانا کنا نحدث ان عیسیٰ علیہ السلام خارج ھو خرج فقد کان قبلہ وبعدہ”۰
(تفسیر درمنثور جلد 12 صفحہ 64 طبع مصر)
شعبی ؒ سے منقول ہے کہ ایک شخص نے حضرت مغیرہ ؓ کے سامنے یہ کہا کہ ﷲ تعالیٰ رحمت نازل کرے محمد ﷺ پر جو خاتم الانبیاء ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں۔ حضرت مغیرہ ؓ نے فرمایا خاتم الانبیاء کہہ دنیا کافی ہے۔یعنی لانبی بعدہ کہنے کی ضرورت نہیں۔کیونکہ ہم کو یہ حدیث پہنچی ہے کہ عیسیٰؑ پھر تشریف لائیں گے۔پس جب وہ آئیں گے تو ایک ان کا آنا محمدﷺ سے پہلے ہوا اور ایک آنامحمد ﷺ کے بعد ہوگا۔
پس جس طرح مغیرہ ؓ ختم نبوت کے قائل ہیں مگر محض عقیدہ نزول عیسیٰ بن مریمؑ کی حفاظت کے لئے لانبی بعدی کہنے سے منع فرمایا اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے ختم نبوت کے عقیدہ کو تو خاتم النبیین کے لفظ سے ظاہر فرمایا اور اس مبہم لفظ کے استعمال سے منع فرمایا کہ جس لفظ سے عیسیٰؑ کے نزول کے خلاف کا ابہام ہوتا تھا۔ ورنہ حاشا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ حضور ﷺ کے بعد کسی قسم کی نبوت کو جائز کہتی ہیں۔
جواب نمبر 2
رحمت دو عالم ﷺ فرماتے ہیں:
“انا خاتم النبیین لانبی بعدی۔”
اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا قول:
“ولا تقولوا لانبی بعدہ۔”
یہ صریحاً اس فرمان نبوی ﷺ کے مخالف ہے۔
قول صحابہ ؓ وقول نبویﷺ میں تعارض ہوجائے تو حدیث و فرمان نبوی کو ترجیح ہوگی۔پھر لانبی بعدی حدیث شریف متعدد صحیح اسناد سے مذکور ہے۔اور قول عائشہ صدیقہ ؓ ایک موضوع اور بے سند قول ہے۔ صحیح حدیث کے مقابلہ میں یہ کیسے قابل حجت ہوسکتا ہے؟
جواب نمبر 3
خود حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے ایک صحیح روایت منقول ہے۔
“لم یبق من النبوۃ بعدہ شیٔ الا مبشرات”
“(حضورﷺ کے بعد ) اچھے خوابوں کے علاوہ نبوت میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہا۔”
(کنزالعمال حدیث نمبر 41423)
اس واضح فرمان کے بعد اس بے سند قول کو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی طرف منسوب کرنے کا کوئی جواز باقی رہ جاتا ہے؟
جواب نمبر 4
قادیانی دجل ملاحظہ ہو کہ وہ اس قول کو جو مجمع البحار میں بغیر مرفوع متصل سند کے نقل کیا گیا ہے استدلال کرتے وقت بھی آدھا قول نقل کرتے ہیں۔اس میں ہے۔
“ھذا ناظر الی نزول عیسیٰؑ علیہ السلام تکملہ”
یعنی اماں عائشہ صدیقہ ؓ سیدنا عیسیؑ کے نزول کو ذہن میں رکھ کر یہ فرمارہی ہیں کہ سیدنا عیسیٰؑ نے بھی تشریف لانا ہے۔
(سیدنا عیسیؑ کا مقام نبوت باقی ہے۔ اور دور نبوت ختم ہوچکا ہے۔ اب وہ امتی اور خلیفہ کی حیثیت سے آیئں گے)
(مجمع البحار صفحہ 85)
اماں عائشہ صدیقہ ؓ کا مقصد یہی ہے کہ ان کے ذہن میں حضرت عیسیٰؑ کے نزول کا مسئلہ تھا۔یہ نہ کہو کہ آپ ﷺ کے بعد نبی کوئی نہیں(آئے گا) اس لئے کہ حضرت عیسیٰؑ کا نزول ہوگا۔یہ کہو کہ آپ ﷺ خاتم النبیین یعنی آپ ﷺ کے بعد کوئی شخص نبی بنایا نہیں جائے گا۔اس لئے عیسیٰؑ وہ آپ ﷺ سے پہلے نبی بنائے جا چکے ہیں۔
جواب نمبر 5
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے اس قول کے محدثین نے بہت سے مطلب بیان کئے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔
“پہلا معنی”
اس قول میں بعدہ خبر کے مقام پرآیا ہے۔اور خبر افعال عامہ یا افعال خاصہ سے مخدوف ہے۔اس لئے اس کا پہلا معنی یہ ہوگا :
“لانبی مبعوث بعدہ۔”
حضورﷺ کے بعد کسی کو نبوت نہیں ملے گی۔ مرقات حاشیہ مشکوٰۃ پر یہی ترجمہ مراد لیا گیا ہے جو صحیح ہے۔
“دوسرا معنی”
“لانبی خارج بعدہ۔”
حضورﷺ کے بعد کسی نبی کا ظہور نہیں ہوگا۔یہ غلط ہے اس لئے کہ حضرت عیسیٰؑ نزول فرمائیں گے۔حضرت مغیرہ ؓ نے ان معنوں سے :”لاتقولوا لا نبی بعدہ۔”کی ممانعت فرمائی ہے۔جو سوفیصد ہمارے عقیدہ کے مطابق ہے۔
“تیسرا معنی”
“لانبی حیی بعدہ۔”حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی زندہ نہیں۔ان معنوں کوسامنے رکھ کرحضرت عائشہ ؓنے:”لاتقولوا لا نبی بعدہ۔” فرمایا۔اس لئے کہ خود ان سے حضرت عیسیٰؑ کے نزول کی روایات منقول ہیں۔
جواب نمبر 6
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
“دوسری کتب حدیث (بخاری ومسلم کے علاوہ)صرف اس صورت میں قبول کے لائق ہوں گے کہ قرآن اور بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث سے مخالف نہ ہوں۔”
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کیا حطیم بھی بیت اللہ میں داخل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں، پھر میں نے پوچھا کہ پھر لوگوں نے اسے کعبے میں کیوں نہیں شامل کیا؟آپﷺ نے جواب دیا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کی کمی پڑ گئی تھی۔پھر میں نے پوچھا کہ یہ دروازہ کیوں اونچا بنایا؟آپﷺ نے فرمایا کہ یہ بھی تمہاری قوم ہی نے کیا تاکہ جسے چاہیں اندر آنے دیں اور جسے چاہیں روک دیں۔اگر تمہاری قوم کی جاہلیت کا زمانہ تازہ تازہ نہ ہوتا اور مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ ان کے دل بگڑ جائیں گے تو اس حطیم کو بھی میں کعبہ میں شامل کر دیتا اور کعبہ کا دروازہ زمین کے برابر کر دیتا۔
(بخاری حدیث نمبر 1584 ، باب فضل مکة وبنیانھا)
آپ ﷺ نے فرمایا کہ قوم تازہ تازہ ایمان لائی ہے ورنہ میں بیت ﷲ کو توڑ کر اس کے دو دروازے کردیتا۔ایک سے لوگ داخل ہوتے دوسرے سے نکل جاتے۔
یہ روایت حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے بخاری میں موجود ہے۔کوئی شخص لانبی بعدی کی روایت سے قادیانیوں کی طرح حضرت عیسیٰؑ کی آمد کا انکار نہ کردے۔اس لئے فرمایا کہ یہ نہ کہو کہ حضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
جواب نمبر 8
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی طرف اس قول کی نسبت صریحاً بے اصل وبے سند ہے۔دنیا کی کسی کتاب میں اس کی متصل مرفوع سند مذکور نہیں۔ایک بے سند قول سے نصوص قطعیہ اور احادیث متواترہ کے خلاف استدلال کرنا صرف قادیانی دجل وفریب ہے۔
جواب نمبر 9
اماں عائشہ صدیقہ ؓ سے منسوب اس قول کی تفصیلی تحقیق ملاحظہ فرمائیں ۔
معزز قارئین!اللہ کے آخری نبی محمدﷺ کی مرفوع،متصل اور صحیح احادیث مختلف کتب احادیث میں ماجود ہیں جنکے اندر آپﷺ نے فرمایا کہ “لانبی بعدی” میرے بعد کوئی نبی نہیں ،
(یہ الفاظ آنحضرتﷺ سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے صحیح بخاری حدیث نمبر 3455 ، صحیح مسلم حدیث نمبر 1842 میں ، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے صحیح مسلم حدیث نمبر 2404 میں اور حضرت ثوبان بن بجداد ؓ رضی اللہ عنہ نے سنن ترمذی حدیث نمبر 2219 ، سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4252 اور مستدرک حاکم میں حدیث نمبر 8390 میں صحیح اسناد کے ساتھ بیان کی)
جب خود نبی کریمﷺ نے یہ الفاظ فرمائے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کے بعد کوئی کہے کہ “لانبی بعدی” نہ کہو؟اور کیا آنحضرتﷺ کے واضح اور صریح الفاظ کے بعد کسی صحابی کی طرف منسوب علم اصول احادیث کی رو قابل قبول رہ جاتی ہے؟؟جس میں کسی صحابی کا اپنا قول فرمان رسول اللہﷺ سے ٹکراتا ہو ؟؟ ہرگز نہیں
بلکہ اصول حدیث ہے کہ آنحضرتﷺ کی مرفوع متصل صحیح حدیث کے مقابلے میں اگر کسی صحابی کا اپنا قول چاہے بظاہر متصل اور صحیح سند کے ساتھ بھی ملے تو حدیث رسول اللہﷺ کے آگے اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔چہ جائیکہ وہ قول غیر مستند ہو۔
مرزائی دھوکے باز اور شعبدہ باز ہمیشہ دجل وفریب دیتے رہتے ہیں،انہیں وہ احادیث نبویہ نظر نہیں آتی یا وہ دیکھنا نہیں چاہتے جنکے اندر خود خاتم الانبیاءﷺ نے فرمایا *”لانبی بعدی”* انہیں اگر کسی کتاب سے غیر مستند بات نظر آجائے جو کسی صحابی کی طرف منسوب ہو تو وہ اس کو اچھال اچھال کر دھوکے دیں گے۔
ایسا ہی ایک دھوکہ یہ دیا جاتا ہے کہ “امام جلال الدین سیوطیؒ نے تفسیر درمنشور میں ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ اپ نے فرمایا صرف یہ کہا کرو کہ آنحضرتﷺ خاتم النبیین ہیں اور یہ مت کہا کرو کے *”لانبی بعدی”* یعنی اپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔”
اگرچہ امام سیوطیؒ نے اسی جگہ اس سے پہلے متعدد مستند اور صحیح روایات لکھی ہیں جو مرزائی عقیدہ کا پاش پاش کرتی ہیں،نیز حضرت عائشہ ؓ کی طرف منسوب اس قول کے بعد وہیں امام سیوطیؒ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کا قول بھی ذکر کیا ہے جسکے اندر اس بات کی وضاحت ہے کہ لانبی بعدی کیوں نہ کہا کرو وہ اس وجہ سے تھا کہ کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ حضرت عیسیٰؑ نے دوبارہ نہیں آنا،لیکن مرزائی اس روایت کا ذکر نہیں کریں گے۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب یہ قول سند اور علم اصول حدیث کے مطابق صحیح ہے؟
تفسیر درمنشور میں امام سیوطیؒ نے خود تو اس روایت کی کوئی سند نہیں بیان کی،وہاں مصنف ابن ابی شیبہ کا حوالہ دیا ہے،جب ہم نے مصنف ابن ابی شیبہ کی طرف رجوع کیا تو وہاں اس کتاب کے مختلف نسخوں اور اڈیشنوں میں اس روایت کی سند مختلف ہے، پرانے زمانے کے نسخوں میں اس روایت کی سند میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کرنے والے راوی کا نام “جریر بن حازم” ہے یعنی جریر بن حازم اور حضرت عائشہ ؓ کے درمیان کوئی اور راوی نہیں ہے۔
بعد میں کچھ نسخوں میں اس روایت کی سند میں” جریر بن حازم” اور حضرت عائشہ ؓ کے درمیان مزید راوی “محمد” کا اضافہ ہے (جس سے مراد مشہور تابعی محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ ہے)
مصنف ابن ابی شیبہ کے جن ایڈیشنوں میں راوی جریر بن حازم اور حضرت عائشہ ؓ کے علاوہ کوئی اور راوی نہیں ہے وہاں یہ روایت منقطع ٹھہرتی ہے .کیونکہ” یہ جریر بن حازم تقریباً 90 ہجری میں پیدا ہوۓ”
(بحوالہ تہذیب التہذیب جلد 1 ص 295 )
اور “حضرت عائشہ ؓ کی وفات تقریباً 58 ہجری میں ہو چکی تھی۔”
اس طرح جریر بن حازم تو پیدا ہی حضرت عائشہ ؓ کی وفات کے تقریباً 30 سال بعد ہوۓ۔
لہذا ایسا ممکن ہی نہیں کہ انہوں نے یہ روایت حضرت عائشہ ؓ سے سنی ہو۔اسی وجہ سے یہ روایت ناقابل اعتبار ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ کے دوسرے نسخوں میں جن میں جریر بن حازم کے بعد ایک راوی “محمد” کا ذکر ہے اس سے مراد تابعی محمد بن سرینؒ ہیں۔
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ محمد بن سرین کی بھی ملاقات بھی حضرت عائشہ ؓ سے ثابت نہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی حدیث حضرت عائشہ ؓ سے سنی ہے،مشہور امام جرح وتعدیل ابن ابی حاتم لکھتے ہیں:
“ابن سیرین لم یسمع من عائشة شیئاََ”
ابن سرین نے حضرت عائشہ ؓ سے کچھ نہیں سنا۔
(کتاب المراسیل لابن ابی حاتم صفحہ 188)
یہی بات حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے بھی نقل کی ہے
(تہذیب التہذیب جلد 3 ص 587)
اس طرح ثابت ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ کی طرف منسوب یہ روایت منقطع یا مرسل ہے اور اصول احادیث کی رو سے قابل اعتبار نہیں،بلکہ مرفوع اور متصل احادیث کے ہوتے ہوۓ مردود اور ناقابل اعتماد ہے .
پھر مزے کی بات ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ خود آنحضرتﷺ سے روایت فرماتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
“لایبقی بعدی من النبوة الا المبشرات، مقالو یا رسول اللہ وما المبشرات؟قال:الرؤیا الصالحة یراھا الرجل أو تری له”
میرے بعد مبشرات کے علاوہ نبوت میں سے کچھ باقی نہیں،صحابہ ؓ نے عرض کی یا رسول اللہﷺ مبشرات کیا ہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا: نیک آدمی جو خواب دیکھتا ہے یا اسے دکھایا جاتا ہے۔
(مسند احمد حدیث نمبر 25490)
ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے منسوب اس قول کی کوئی مرفوع متصل سند نہیں ہے اور ایک بے سند قول کو کیسے صحیح احادیث کے مقابلے میں قبول کیا جاسکتا ہے۔
اور دوسری بات یہ کہ بالفرض محال اگر اس قول کو صحیح بھی تسلیم کر لیں تو اماں عائشہ صدیقہ ؓ نے یہ بات اس لئے فرمائی ہے کیونکہ سیدنا عیسیؑ نے تشریف لانا ہے۔اور ان کے آنے سے نبیوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوگا۔
حدیث نمبر 3
قادیانی ایک اور حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ
حضرت محمدﷺ نے مسجد نبوی کے بارے میں فرمایاکہ “مسجدی آخر المساجد” یعنی یہ مسجد آخری مسجد ہے۔
تو ظاہر ہے کہ آپکی مسجد کے بعد دنیا میں ہر روز مسجدیں بن رہی ہیں تو آپ کے خاتم النبیین ہونے کا بھی یہی مطلب ہوگا کہ آپ کے بعد نبی بن سکتے ہیں۔
قادیانیوں کے اس باطل استدلال کا جواب ملاحظہ فرمائیں ۔
جواب نمبر 1
اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ سارے انبیاء کرامؑ کی سنت مبارکہ تھی کہ وہ مسجد بناتے تھے۔اور جب حضورﷺ نے مسجد نبوی بنوائی تو ظاہر ہے کہ حضورﷺ کے بعد کسی نئے نبی نے نہیں آنا تھا اور انبیاء کرامؑ کی جو مسجد بنانے کی سنت تھی اس پر عمل نہیں ہونا تھا اس لئے حضورﷺ نے فرمایا کہ مسجد نبوی انبیاء کرامؑ کی آخری مسجد ہے۔
یہ حدیث تو ختم نبوت کی دلیل بنتی ہے نہ کہ اجرائے نبوت کی دلیل ہے۔
جواب نمبر 2
اس حدیث میں جہاں مسجدی آخر المساجد کے الفاظ آئے ہیں وہاں احادیث میں آخر مساجد الانبیاء کے الفاظ بھی آئے ہیں۔
اس کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ
“قال رسول اللہﷺ انا خاتم الانبیاء ومسجدی خاتم مساجد الانبیاء”
“رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں انبیاءؑ کو ختم کرنے والا ہوں اور میری مسجد انبیاءؑ کی مساجد کو ختم کرنے والی ہے۔”
(کنزالعمال حدیث نمبر 34999،باب فضل الحرمین و مسجد اقصیٰ من الاکمال)
لیجئے اماں عائشہ صدیقہ ؓ کی اس روایت سے بات بالکل واضح ہوگئی کہ اس روایت سے مراد یہی ہے کہ مسجد نبوی انبیاءؑ کی آخری مسجد ہے۔
“خلاصہ کلام”
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس روایت سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ نبوت جاری ہے اور نئے نبی آسکتے ہیں۔بلکہ اس روایت میں تو حضورﷺ نے اپنی ختم نبوت کو بیان فرمایا ہے کہ جس طرح میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔اور میرے بعد نبیوں کی تعداد میں کسی ایک نبی کا بھی اضافہ نہیں ہوگا۔
اسی طرح میری مسجد بھی انبیاء کرامؑ کی مساجد کو ختم کرنے والی ہے۔اب انبیاء کرامؑ کی بنوائی گئی مساجد میں بھی کسی ایک مسجد کا اضافہ نہیں ہوگا۔
حدیث نمبر 4
قادیانی ایک اور حدیث پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس روایت میں حضورﷺ نے حضرت عباس ؓ کو خاتم المہاجرین فرمایا ہے۔
اور ہجرت تو تاقیامت جاری رہے گی۔اسی طرح حضورﷺ نے اپنے آپ کو خاتم النبیین فرمایا ہے۔اور نبوت بھی تاقیامت جاری رہے گی۔
حضورﷺ نے فرمایا اے چچا آپ اطمینان رکھیں کیونکہ آپ مہاجرین کو ختم کرنے والے ہیں۔ جس طرح میں نبوت میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔
اب اصل واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت عباس ؓ کو خاتم المھاجرین اس لئے کہا گیا تھا کیونکہ مکہ فتح ہونے سے پہلے وہ آخری مھاجر تھے جو مکہ مکرمہ سے ہجرت کر رہے تھے لیکن جب دیکھا کہ آپﷺ اپنی فوج کے ہمراہ مکہ فتح کرنے کے لئے تشریف لا رہے ہیں تو حضرت عباس ؓ نے افسوس ظاہر کیا کہ میں ہجرت کی فضیلت سے محروم رہا۔
حضورﷺ نے حضرت عباس ؓ کو تسلی اور حصول ثواب کی بشارت دیتے ہوۓ فرمایا کہ آپ خاتم المھاجرین ہیں۔
اس لئے کے مکہ مکرمہ سے واقعی ہجرت کرنے والے آخری مهاجر حضرت عباس ؓ تھے،مکہ مکرمہ حضرتﷺ کے ہاتھوں ایسا فتح ہوا جو قیامت کی صبح تک دارالسلام رہے گا تو مکہ مکرمہ سے آخری مہاجر حضرت عباس ؓ ہی ہوئے۔
جواب نمبر 2
ہجرت دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف کی جاتی ہے۔اور مکہ مکرمہ قیامت تک دارالسلام رہے گا۔مکہ مکرمہ سے قیامت تک ہجرت نہیں ہوگی۔
اس لئے حضرت عباس ؓ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے والے آخری مہاجر تھے۔کیونکہ ان کے بعد قیامت تک مکہ مکرمہ سے کوئی ہجرت نہیں کرے گا۔کیونکہ مکہ مکرمہ قیامت تک دارالاسلام رہے گا۔
حدیث نمبر 5
قادیانی ترمذی کی درج ذیل روایت پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس روایت میں خواب کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ قرار دیا گیا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ نبوت جاری ہے۔اور نئے نبی بھی آسکتے ہیں۔
سب سے پہلے ترمذی کی روایت اور اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
“مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔”
(ترمذی حدیث نمبر 2271،ابواب الرؤیا عن رسول اللہﷺ)
“قادیانیوں کے باطل استدلال کا جواب”
قادیانیوں کے اس باطل استدلال کا جواب یہ ہے کہ جس طرح دھاگے کو کپڑا نہیں کہ سکتے۔ جس طرح اینٹ کو مکان نہیں کہ سکتے۔جس طرح آدمی کے کٹے ہوئے ناخن کو انسان نہیں کہ سکتے اسی طرح سچے خوابوں کو نبوت بھی نہیں کہ سکتے۔
حدیث نمبر 6
قادیانی مندرجہ ذیل حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ میرے بعد 30 جھوٹے دجال نبوت کا دعوی کریں گے۔اور اب 30 جھوٹے مدعیان نبوت کی تعداد پوری ہوچکی ہے۔ لہذا اب سچے انبیاء آیئں گے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تیس دجال ظاہر نہ ہو جائیں،وہ سب یہی کہیں گے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔”
(ابوداؤد حدیث نمبر 4333،باب خبر ابن الصائد)
(ترمذی حدیث نمبر 2218،باب ما جاء لا تقوم الساعة حتی یخرج کذابون)
قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں۔ملاحظہ فرمائیں۔
جواب نمبر 1
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
“آنخضرتﷺ فرماتے ہیں کہ دنیا کے آخر تک قریب 30 کے دجال پیدا ہوں گے۔”
(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 199 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 197)
یہاں مرزا صاحب نے خود تسلیم کیا ہے کہ دنیا کے آخر تک ایسے جھوٹے دجال آیئں گے۔یعنی زمانے کی قید نہیں ہے کہ اس زمانے تک ایسے دجال آیئں گے اور اس زمانے کے بعد ایسے دجال نہیں آسکتے۔
مرزا صاحب کی اس تحریر سے پتہ چلا کہ دجالوں کی تعداد پوری نہیں ہوئی بلکہ ابھی مزید ایسے جھوٹے دجالوں نے آنا ہے جو نبوت کا دعوی کریں گے۔
جواب نمبر 2
اس حدیث میں جن دجالوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ بڑے بڑے دجال ہیں جو نبوت کا دعوی کریں گے۔اور ان کا فتنہ کچھ دیر باقی رہے گا۔
جن کا فتنہ باقی نہیں رہا اور ان کا فتنہ تھوڑی دیر چلا۔ان کا ذکر نہیں ہے۔
اور نواب صدیق حسن صاحب نے لکھا ہے کہ
“آنخضرتﷺ نے جو اس امت میں تیس دجالوں کی آمد کی خبر دی تھی۔وہ پوری ہوکر 27 کی تعداد مکمل ہوچکی ہے۔”
(حجج الکرامتہ)
اب مرزا صاحب کو بھی ان دجالوں میں شامل کر کے ایسے جھوٹے دجالوں کی تعداد 28 ہوچکی ہے۔
“خلاصہ کلام”
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس روایت سے نبوت کا جاری رہنا ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضورﷺ کے بعد بھی بہت سے لوگ جو جھوٹے ہوں گے وہ نبوت کا دعوی کریں گے۔ حالانکہ حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالٰی نے مجھ پر رسالت اور نبوت کو منقطع کر دیا ہے اب میرے بعد نہ کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ کوئی نیا رسول آئے گا۔