اللہ کے بارے میں ہرگز بھی یہ خیال دل میں نہ لانا کہ اس نے جو اپنے پیغمبروں سے جو وعدہ کررکھا ہے اس کی خلاف ورزی کرے گا۔یقین رکھو اللہ اپنے اقتدار میں سب پر غالب ہے اور انتقام لینے والا ہے۔
(سورہ ابراہیم آیت نمبر 47)
جو شخص آئندہ کی کسی بات کی خبر دے اس کے متعلق دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں۔
1) آئندہ کی خبر دیکھنے والے نے فطرتی حالات کو دیکھتے ہوئے محض قیاس آرائی کی ہے۔
2) آیئندہ کی خبر دینے والے نے براہ راست یا بلواسطہ اللہ سے اطلاع پاکر خبر دی ہے۔
محض قیاس آرائی کر کے آیئندہ کے حالات کی خبر دینے والے کی پیشگوئی غلط بھی ہوسکتی ہے اور کبھی کبھار صحیح بھی ہوسکتی ہے۔
لیکن جو اللہ سے الہام پاکر آیئندہ کی خبر دیتا ہے اس کی ایک بھی خبر یا پیشگوئی غلط ثابت نہیں ہوسکتی۔
کیونکہ اللہ تعالٰی نے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ اللہ تعالٰی جو وعدہ اپنے پیغمبروں سے کر لیں اس کے بعد ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ وہ وعدہ پورا نہ کریں۔
اور یہ بات قادیانیوں کے پیشوا مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی تسلیم کی ہے۔
اوپر دیئے گئے حوالہ جات سے یہ ثابت ہوا کہ یہ تو ممکن ہے کہ کوئی ایسا شخص جو درحقیقت اللہ سے الہام یا وحی پاکر خبر نہ دے اور اس کی پیشگوئی کبھی صحیح بھی ثابت ہوجائے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ کے کسی نبی،رسول یا اللہ سے براہ راست الہام پانے والے کی ایک بھی خبر یا پیشگوئی غلط ثابت ہوجائے۔
اس بارے میں مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“کسی انسان کا اپنی پیشگوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کر ہے۔”
مرزا صاحب کی ان تحریرات سے ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کو سچا یا جھوٹا ثابت کرنے کے لئے ان کی پیشگوئیوں سے بڑی کوئی دلیل نہیں۔اگر مرزا صاحب کی پیشگوئیاں غلط ثابت ہوجاتی ہیں تو مرزا صاحب اپنے ہی بنائے ہوئے اصول کے مطابق “کذاب” ثابت ہوجاتے ہیں۔
“مرزا صاحب کی جھوٹی پیشگوئی نمبر 1”
“مصلح موعود کی پیشگوئی”
مرزا صاحب کو پیشگوئیاں کرنے کا بہت شوق تھا اور مرزا صاحب پیشگوئیاں کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے خالی نہیں جانے دیتے تھے۔
مرزا صاحب کی بیوی نصرت جہاں 1886ء میں حاملہ تھی۔چنانچہ مرزا صاحب نے یہ موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا بلکہ اس موقع پر بھی ایک پیشگوئی 20 فروری 1886ءکو کی جو کہ درج ذیل ہے۔
“خدائے رحیم و کریم نے جو ہر چیز پر قادر ہے مجھ کو اپنے الہام سے فرمایا ہے کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں۔خدا نے کہا کہ تاکہ دین اسلام کا شرف کلام،اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو تاکہ لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں۔جو چاہتا ہوں کرتا ہوں تاکہ وہ یقین دلائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں۔اور تاکہ انہیں جو خدا،خدا کے دین،اس کی کتاب،اس کے رسول کو انکار کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،ایک کھلی نشانی ملے،ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا،وہ تیرے ہی تخم تیری ہی ذریت سے ہوگا۔خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے،اس کا نام بشیر بھی ہے،مبارک وہ ہے جو آسمان سے آتا ہے اس کے ساتھ فضل ہے وہ بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا،علوم ظاہری اور باطنی سے پرکیا جائے گا،وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا،وہ شنبہ ہے مبارک دو شنبہ گرامی ارجمند۔مظہرالاول والآخر مظہر الحق والعلاء کان اللہ نزل من السماء۔وہ جلد جلد بڑھے گا۔اسیروں کی رستگاری کا باعث ہوگا قومیں اس سے برکت پائیں گی۔”
اس اشتہار میں مرزا صاحب نے جس زور و شور سے اس حمل سے بیٹے کی پیدائش کی پیشگوئی کی اور اس الہام کو اللہ تعالٰی کے قادر و توانا ہونے کی زبردست دلیل مانا گیا۔ اگر مرزا صاحب کا یہ الہام سچا ہوتا اور اللہ کی طرف سے ہوتا تو ضرور بالضرور اس حمل سے مرزا صاحب کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا جو مصلح موعود ہوتا لیکن قادیانیوں کے لئے ہائے افسوس کہ مرزا صاحب کی بیوی کے ہاں اس حمل سے بیٹا پیدا نہیں ہوا بلکہ بیٹی پیدا ہوئی۔
اس پر مزید افسوس اس بات کا ہے کہ اس بیٹی کی پیدائش کے بعد مرزا صاحب کے ہاں کوئی اور ایسی اولاد پیدا نہیں ہوئی جسے مرزا صاحب نے اس پیشگوئی کا مصداق ٹہرایا ہو اور وہ زندہ رہا ہو۔یا خود مرزا صاحب نے اس کے مصلح موعود نہ ہونے کا عملا یا قولا اقرار نہ کیا ہو۔
پھر جب مرزا صاحب پر اعتراض شروع ہوئے کہ مرزا صاحب تو کذاب ہیں اور مرزا صاحب کی پیشگوئی جھوٹی ثابت ہوئی ہے۔تو مرزا صاحب نے ان اعتراضات کے جوابات دیئے جو کہ درج ذیل ہیں۔
“کوئی اس معترض سے پوچھے کہ وہ فقرہ یا لفظ کہاں ہے جو کسی اشتہار میں اس عاجز کے قلم سے نکلا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا اسی حمل سے ہوگا۔”
(مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 131)
پھر جب معاملہ حد سے بڑھ گیا اور جن مریدوں کو مرزا صاحب نے نجی مجالس کے اندر بڑے زور و شور سے بتایا ہوا تھا کہ اسی حمل سے وہ مصلح موعود پیدا ہوگا جس کی وجہ سے اللہ کی قدرت ظاہر ہوگی،ان مریدوں نے بھی مرزا صاحب پر اعتراض کرنے شروع کر دیئے اور مرزا صاحب کو کذاب کہنا شروع کر دیا تو مرزا صاحب نے ایک اور پینترا بدلا اور اس الہام کے سمجھنےکو اپنی اجتہادی غلطی قرار دیا اور ساتھ ہی تمام انبیاء پر الزام لگا دیا کہ نعوذ باللہ ہر نبی سے الہام سمجھنے میں اجتہادی غلطی ہوئی ہے۔
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“خدا کا کوئی الہام نہیں تھا کہ عمر پانے والا لڑکا پہلے حمل سے ہی پیدا ہوگا اور کوئی اجتہادی خیال اگر ہو تو اس پر اعتراض کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو نبی کے الہام کو واجب الوقوع سمجھتے ہیں۔میری طرف سے کبھی کوئی پیشگوئی شائع نہیں ہوئی کہ لڑکا اسی حمل سے پیدا ہوگا۔رہا اجتہاد تو میں خود قائل ہوں کہ دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے اجتہادی غلطی نہیں کی۔”
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کو الہام کرنے والا شیطان تھا جس کے الہام جھوٹے ثابت ہورہے تھے۔مرزا صاحب نے یکے بعد دیگرے کئی اشتہارات اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لئے شائع کروائے لیکن ان میں بھی مرزا صاحب کذاب ثابت ہوئے۔
آیئے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
8 اپریل 1886ء میں مرزا صاحب نے ایک اور اشتہار شائع کروایا جس میں واضح لکھا تھا:
“آج 8 اپریل 1886ء میں اللہ جل شانہ کی طرف سے اس عاجز پر اس قدر کھل گیا کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو مدت ایک حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا۔
اس الہام سے ظاہر ہے کہ ایک لڑکا بھی ہونے والا یا بالضرور اس کے قریب حمل سے۔”
مرزا صاحب کے اس اشتہار کی مزید تشریح 7 اگست 1887ء کے اشتہار سے ہوتی ہے۔اس میں مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“اے ناظرین میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ وہ لڑکا جس کے تولد کے لئے میں نے 8 اپریل 1886ء میں پیشگوئی کی تھی کہ اگر وہ موجودہ حمل سے پیدا نہ ہوا تو دوسرے حمل میں جو اس کے قریب ہے ضرور پیدا ہو جائے گا۔”
ہمارے قارئین تو حیران ہوں گے کہ مرزا صاحب کیسے انسان تھے جو پہلے تو کہتے ہیں کہ مصلح موعود اسی حمل سے ہوگا،پھر کہتے ہیں کہ اس حمل سے یا اس کے قریب حمل سے مصلح موعود پیدا ہوگا،لیکن وہ مصلح موعود پہلے حمل سے پیدا نہ ہوا بلکہ لڑکی پیدا ہوئی اس طرح مرزا صاحب کذاب تو ثابت ہوگئے۔
لیکن مرزا جی چونکہ کہتے ہیں کہ اس حمل کی مدت اڑھائی سال یا 9 سال ہے۔
لیکن 9 سال کے بعد بھی وہ “مصلح موعود ” پیدا نہ ہوسکا بلکہ 13 سال بعد پیدا ہونے والے لڑکے مبارک احمد کو مرزا صاحب نے اپنی 1886ء میں کی گئی “مصلح موعود” کی پیشگوئی کا مصداق قرار دیا۔
مبارک احمد جس کو مرزا صاحب نے “مصلح موعود” قرار دیا تھا وہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکا بلکہ 9 سال سے بھی کم عمر میں مرزا صاحب کی زندگی میں ہی فوت ہوگیا۔اور مرزا صاحب اس کے غم کی سینہ کوبی کرتے رہے۔
(یاد رہے کہ اس وقت مرزا صاحب کی 2 شادیاں ہوچکی تھیں اور مرزا صاحب اس اشتہار میں تیسری شادی کی پیشگوئی کر رہے ہیں)
اسی طرح کا ایک اور اشتہار مرزا صاحب نے شائع کیا۔جوکہ درج ذیل ہے۔
“اس عاجز نے 20 فروری 1886ء کے اشتہار میں یہ پیشگوئی خدا تعالٰی کی طرف سے بیان کی تھی کہ اس نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ بعض بابرکت عورتیں اس اشتہار کے بعد بھی تیرے نکاح میں آئیں گی اور ان سے اولاد پیدا ہوگی۔”
مرزا صاحب کے ان اشتہارات سے درج ذیل باتیں ثابت ہوئیں۔
1)1886ء تک مرزا صاحب کی 2 شادیاں ہوچکی تھیں۔
2)مرزا صاحب نے کہا کہ مجھے اللہ نے کہا ہے کہ 1886ء کے بعد تیری تیسری شادی ہوگی۔
3)مرزا صاحب نے کہا کہ مجھے اللہ نے کہا ہے کہ 1886ء کے بعد جب تیری تیسری شادی ہوگی تو اس سے تیری اولاد بھی ہوگی۔
نتیجہ
معزز قارئین مرزا صاحب کے ماننے والوں کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ 1886ء کے بعد مرزا صاحب کی تیسری شادی نہیں ہوسکی۔
اس طرح مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی بھی جھوٹی نکلی اور قانون یہ ہے کہ جھوٹا انسان نبی نہیں ہوتا۔اس کے ساتھ یہ بھی ثابت ہوگیا کہ مرزا صاحب کو الہام شیطان کی طرف سے ہوتے تھے جو جھوٹے ثابت ہوئے کیونکہ اگر یہ الہام خدا کی طرف سے ہوتا تو ضرور بالضرور سچا ثابت ہوتا۔
نوٹ: مرزا صاحب کی تیسری شادی یا 1886ء کے بعد شادی ثابت کرنے والے کو منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔
“مرزا صاحب کی جھوٹی پیشگوئی نمبر 3”
“پانچویں بیٹے کی پیشگوئی”
معزز قارئین 1903ء کو مرزا صاحب کی بیوی “نصرت جہاں”حاملہ تھی۔اس وقت مرزا صاحب کے 4 بیٹے پیدا ہوچکے تھے۔مرزا صاحب نے اس دوران ایک پیشگوئی کی اللہ تعالٰی نے مجھے پانچویں بیٹے کی بشارت دی ہے۔
پیشگوئی کے الفاظ درج ذیل ہیں۔
“الحمد للہ الذی وھب لی علی الکبر اربعتہ من البنین و بشرنی من الخامس۔”
ترجمہ
سب تعریف خدا کو ہے جس نے مجھے بڑھاپے میں 4 لڑکے دیئے اور پانچویں کی بشارت دی۔”
قادیانیوں کے لئے ہائے افسوس کہ ان کے جھوٹے پیشوا مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی بھی پوری نہیں ہوئی اور اس حمل سے مرزا قادیانی کی بیوی “نصرت جہاں” کے ہاں 28 جنوری 1903ء کو لڑکا پیدا نہیں ہوا بلکہ لڑکی پیدا ہوئ۔جو چند ماہ زندہ رہ کر فوت ہوگئی۔
اور اس پر مزید ستم یہ ہوا کہ مرزا صاحب کی وفات تک مرزا صاحب کا کوئی اور لڑکا پیدا نہیں ہوا۔بلکہ مرزا صاحب کے 4 لڑکے ہی تھے۔
لیکن مرزا صاحب چونکہ حد درجہ مکار اور کذاب تھے چنانچہ مرزا صاحب نے دیکھا کہ یہ پیشگوئی تو پوری نہیں ہوئی اب کیا کروں۔
اسی شش و پنج میں 3 سال اور 6 ماہ گزر گئے اور مرزا صاحب کے گھر کوئی بیٹا پیدا نہیں ہوا۔
اس پیشگوئی کے 3 سال اور 6 ماہ بعد مرزا صاحب کے بیٹے محمود احمد کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو مرزا صاحب نے کمال بددیانتی اور مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا کہ لیجئے ساڑھے 4 سال بعد میری پانچویں لڑکے والی پیشگوئی پوری ہوئی۔
مرزا صاحب کے الفاظ درج ذیل ہیں۔
“قریبا 3 ماہ کا عرصہ گزرا کہ میرے لڑکے محمود احمد کے گھر لڑکا پیدا ہوا۔جس کا نام نصیر الدین احمد رکھا گیا۔سو یہ پیشگوئی ساڑھے 4 سال بعد پوری ہوئی۔”
معزز قارئین آپ نے مرزا صاحب کی بددیانتی ملاحظہ فرمائی کہ مرزا صاحب نے اپنی جھوٹی پیشگوئی کو سچا کرنے کے لئے اپنے پوتے کو اپنا پانچواں بیٹا بنالیا۔حالانکہ مرزا صاحب کے کئی پوتے ہیں۔
اور پیشگوئی میں صاف انداز میں مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ اللہ تعالٰی نے مجھے پانچویں لڑکے کی خوشخبری دی ہے۔
اس طرح مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی بھی جھوٹی ثابت ہوئی۔
نوٹ:
مرزا صاحب کے 4 ہی لڑکے تھے پانچواں لڑکا مرزا صاحب کی موت تک پیدا نہیں ہوسکا۔ مرزا صاحب کا پانچواں لڑکا ثابت کرنے والے مرزائی کو منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔
“مرزا صاحب کی جھوٹی پیشگوئی نمبر 4”
“بشیر الدولہ عالم کباب کی پیشگوئی”
مرزا صاحب کی عادت تھی کہ جب کبھی آپ کی بیوی حاملہ ہوتی تو قبل از وقت اولاد کی پیشگوئی کردیتے۔اگر بہو حاملہ ہوتی تو پوتا ہونے کی خوش خبری گھڑ لیتے۔اگر کسی مرید کی بیوی حاملہ ہوتی تو اس کے حق میں لڑکا یا لڑکی ہونے کی پیشگوئی گھڑ لیتے۔اور ساتھ ہی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے “ممکن ہے” جیسے الفاظ بھی استعمال کرلیتے تاکہ اگر پیشگوئی کے الٹ معاملہ ہوجائے تو پھر بھی ذلت و رسوائی سے بچنے کا بہانہ موجود رہے۔
یہ پیشگوئی جس کا ذکر درج ذیل ہوگا یہ پیشگوئی بھی مرزا صاحب کے ایک مرید کی بیوی کے بارے میں ہے۔
فروری 1906ء میں مرزا صاحب کے ایک مرید میاں منظور محمد کی بیوی حاملہ تھی اس وقت مرزا صاحب نے درج ذیل پیشگوئی کی۔
“دیکھا کہ منظور محمد کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے۔دریافت کرتے ہیں کہ اس لڑکے کا کیا نام رکھا جائے۔تب خواب سے حالت الہام کی طرف چلی گئی۔اور یہ معلوم ہوا کہ “بشیر الدولہ”۔ فرمایا کئی آدمیوں کے واسطے دعا کی جاتی ہے معلوم نہیں کہ منظور محمد کے لڑکے سے کس طرف اشارہ ہے۔”
(تذکرہ صفحہ 510 جدید ایڈیشن 2004ء)
(ریویو مارچ 1906ء صفحہ 122)
اس گول مول الہام میں مرزا صاحب نے دجل و فریب سے کام لیا۔مرزا صاحب کا مطلب یہ تھا کہ اگر تو بیٹا پیدا ہوگیا تو چاندی کھری ہے۔میں کہ دوں گا کہ الہام کا یہی مطلب تھا اور اگر بیٹا پیدا نہ ہوا تو پھر کہ دوں گا کہ یہ الہام کسی اور کے بارے میں ہے۔مگر میرے اللہ بھی مرزا صاحب کو ذلیل کروانا چاہتے تھے۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے ساڑھے 4 ماہ بعد مرزا صاحب کے قلم سے ایک اور پیشگوئی لکھی گئی۔وہ درج ذیل ہے۔
“17 جون 1906ء بذریعہ الہام الہی معلوم ہوا کہ میاں منظور محمد صاحب کے گھر یعنی محمدی بیگم زوجہ منظور محمد کا ایک لڑکا پیدا ہوگا۔جس کے 2 نام ہوں گے۔
1) بشیر الدولہ
2) عالم کباب
یہ 2 نام بذریعہ الہام الہی معلوم ہوئے۔
بشیر الدولہ سے مراد ہماری دولت اور اقبال کے لئے بشارت دینے والا۔
عالم کباب سے یہ مراد ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے چند ماہ تک یا جب تک وہ اپنی برائی بھلائی شناخت کرے دنیا پر ایک سخت تباہی آئے گی۔گویا دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا۔
خدا کے الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے سرکش لوگوں کے لئے کچھ اور مہلت منظور ہے تب بالفعل لڑکا نہیں بلکہ لڑکی پیدا ہوگی اور لڑکا بعد میں پیدا ہوگا مگر ضرورہوگا کیونکہ وہ خدا کا نشان ہے۔”
(تذکرہ صفحہ 533 جدید ایڈیشن 2004ء)
(ریویوجون 1906ءسرورق آخری)
اگرچہ مرزا صاحب کی یہ عبارت بھی پرفریب ہے مگر اس عبارت سے درج ذیل باتیں ثابت ہویئں۔
1) منظور محمد کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا۔
2) اس لڑکے کا نام بشیر الدولہ عالم کباب ہوگا۔
3) اس کے بعد دنیا پر سخت تباہی آجائے گی۔
4) بالفرض اگر لڑکی پیدا ہوگئ تو اس کا مطلب ہے اللہ سرکش لوگوں کو مہلت دینا چاہتے ہیں۔
5) اگر لڑکی پیدا ہوگئ تو اس کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوگا اور وہ ضرور پیدا ہوگا کیونکہ وہ خدا کا ایک نشان ہوگا۔
معزز قارئین قادیانیوں کے لئے ہائے افسوس کہ منظور محمد کی بیوی کے ہاں اس حمل سے لڑکی پیدا ہوئی۔اور اس کے کچھ عرصہ بعد منظور محمد کی وہ بیوی یعنی محمدی بیگم فوت ہوگئی اور “بشیرالدولہ عالم کباب”لڑکا پیدا نہ ہوسکا جس کو مرزا صاحب نے خدا کا نشان کہا تھا۔
مرزا صاحب کے مرنے کے بعد قادیانیوں نے اس پیشگوئی پر یوں تبصرہ کیا تھا۔
“اللہ تعالٰی بہتر جانتا ہے کہ یہ پیشگوئی کب اور کس رنگ میں پوری ہوگی۔گو حضرت اقدس نے اس کا وقوع محمدی بیگم سے ہی فرمایا تھا۔مگر چونکہ وہ فوت ہوچکی ہے لہذا اب نام کی تخصیص نہ رہی۔بہرصورت یہ پیشگوئی متشابہات میں سے ہے۔”
(البشری جلد 2 صفحہ 116)
معزز قارئین قادیانیوں کی بے بسی آپ نے ملاحظہ فرمائی۔اللہ تعالٰی نے مرزا صاحب کو کس طرح اپنی پیشگوئی میں جھوٹا ثابت کروایا۔اللہ تمام قادیانیوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
“مرزا صاحب کی جھوٹی پیشگوئی نمبر 5”
“عمر پانے والا لڑکا”
مرزا صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے:
“عرصہ بیس یا اکیس برس کا گزر گیا ہے کہ میں نے ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میں 4 لڑکے دوں گا جو عمر پاویں گے۔ چنانچہ وہ 4 لڑکے یہ ہیں۔
مرزا صاحب نے ان چند سطروں میں کئی جھوٹ بولے ہیں۔مثلا میں نے 20 یا 21 برس پہلے 4 بیٹوں کی خدا کی طرف سے عمر پانے کی پیشگوئی کی تھی۔ایسا کوئی اشتہار مرزا صاحب نے شائع نہیں کیا تھا۔
البتہ مرزا صاحب نے 20 فروری 1886ء کو ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ
“وہ تین کو چار کرے گا اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے۔”
اس اشتہار کے معنی مرزا صاحب کی سمجھ میں نہیں آئے تھے۔
البتہ مصلح موعود لڑکا “مبارک احمد” کے متعلق بعض تحریرات میں مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
لیکن مبارک احمد 9 سال کی عمر میں دنیا سے کوچ کر گیا۔
(تذکرہ صفحہ 278 جدید ایڈیشن 2004ء)
ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ مرزا صاحب نے لکھا تھا کہ مرزا صاحب کے خدا نے مرزا صاحب سے وعدہ کیا تھا کہ میں تجھے 4 لڑکے دوں گا جو عمر پائیں گے۔
لیکن قادیانیوں کے لئے ہائے افسوس کہ مرزا جی کا چوتھا لڑکا مبارک احمد 9 سال کی عمر میں وفات پاکر مرزا صاحب کو دنیا میں ذلیل کر گیا۔یوں عمر پانے والے لڑکے کی پیشگوئی پوری نہ ہوسکی۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کو الہام کرنے والا شیطان تھا جس کی وجہ سے مرزا صاحب کو ذلیل ہونا پڑا۔
“مرزا صاحب کی جھوٹی پیشگوئی نمبر 6”
“محمدی بیگم”
محمدی بیگم کی عمر تقریبا 9 سال تھی اور مرزا صاحب کی عمر 49 سال تھی۔جب مرزا صاحب کی غلیظ نظریں محمدی بیگم پر پڑ گئیں۔اور مرزا صاحب حیلوں بہانوں سے محمدی بیگم کو پانے کی کوششوں میں لگے رہے۔
محمدی بیگم کے والد جن کا نام “احمد بیگ ہوشیار پوری” تھا اور وہ مرزا صاحب کے رشتے داروں میں سے تھے۔ان کو ایک زمین کے کام کے لئے مرزا صاحب کی ضرورت پڑ گئی۔
مرزا صاحب نے کہا کہ ہماری عادت استخارے کے بغیر کوئی بھی کام کرنے کی نہیں ہے۔لہذا چند دن بعد بتایا جائے گا کہ آیا یہ کام میں کرسکتا ہوں یا نہیں۔کچھ دنوں بعد حسب توقع اپنے اس سلوک و مروت کی قیمت کے طور پر یا محمدی بیگم کو پانے کے لئے اس کام کے بدلے محمدی بیگم کا رشتہ اس کے باپ سے مانگا۔
اور ساتھ ہی یہ کہ دیا کہ اگر محمدی بیگم کا رشتہ میرے ساتھ طے کردیں تو میں آپ کی زمین کی گواہی دوں گا اور اس کے ساتھ مزید زمین بھی آپ کو تحفتا دوں گا۔
اور یہ بھی کہ دیا کہ اگر محمدی بیگم کے والد نے محمدی بیگم کا رشتہ مرزا صاحب سے طے نہ کیا تو مرزا صاحب زمین کے معاملے میں گواہی نہیں دیں گے۔
مرزا صاحب نے یہ باتیں جن کا خلاصہ اوپر بیان کیا گیا ہے ایک خط کی صورت میں محمدی بیگم کے والد کو لکھی تھیں۔
محمدی بیگم کا والد ایک عزت دار آدمی تھا۔ اس لئے اس نے مرزا صاحب کا بلیک میلنگ پر مبنی خط اخبارات میں شائع کروادیا۔اگر محمدی بیگم کا والد ایسا نہ کرتا اور اپنی بیٹی محمدی بیگم کا رشتہ زمین کے بدلے میں یا لالچ کے طور پر مرزا صاحب کو دے دیتا تو قیامت تک کے لئے لوگ محمدی بیگم کے والد کو ذلیل اور حقیر سمجھتے۔مرزا صاحب نے محمدی بیگم کے والد کو جو خط لکھا اس میں پیشگوئی بھی تھی۔
ملاحظہ فرمائیں۔
مرزا صاحب نے لکھا:
“خدا تعالٰی نے اپنے کلام پاک سے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ اگر آپ اپنی دخترکلاں کا رشتہ میرے ساتھ منظور کریں تو وہ تمام نحوستیں آپ کی دور کردے گا۔اور اگر یہ رشتہ وقوع میں نہ آیا تو آپ کے لئے دوسری جگہ رشتہ کرنا ہرگز مبارک نہیں ہوگا۔اور اس کا انجام درد اور تکلیف اور موت ہوگی۔یہ دونوں طرف برکت اور موت کی ایسی ہیں۔جن کو آزمانے کے بعد میرا صدق یا کذب معلوم ہوسکتا ہے۔”
جب محمدی بیگم کے والد نے مرزا صاحب کا یہ خط اخبار نور افشاں میں شائع کروایا تو مرزا صاحب کو بھی غصہ آگیا۔کیونکہ مرزا صاحب کے دل میں چونکہ چور تھا اس لئے مرزا صاحب نے ان کو کہا تھا کہ اس خط کو لوگوں کے سامنے ظاہر نہ کریں۔
چنانچہ مرزا صاحب نے ایک اشتہار شائع کروایا جو کہ درج ذیل ہے۔
“اخبار نور افشاں 10 مئی 1888ء میں جو خط اس راقم کا چھاپا گیا ہے وہ ربانی اشارہ سے لکھا گیا تھا۔ایک مدت سے قریبی رشتہ اور مکتوب الیہ کے نشان آسمانی کے طالب تھے اور طریقہ اسلام سے انحراف رکھتے تھے۔
(طریقہ اسلام والا مرزا صاحب کا جھوٹ ہے کیونکہ وہ طریقہ اسلام سے انحراف نہیں رکھتے تھے صرف مرزا صاحب کو اپنے دعاوی میں کذاب سمجھتے تھے)
یہ لوگ مجھ کو میرے دعوی الہام میں مکار اور دروغ گو جانتے تھے اور مجھ سے کوئی نشان آسمانی مانگتے تھے۔کئی دفعہ ان کے لئے دعا کی گئی۔
دعا قبول ہوکر خدا نے یہ تقریب پیدا کی کہ والد اس دختر کا ایک ضروری کام کے لئے ہماری طرف متوجہ ہوا۔
قریب تھا کہ ہم دستخط کر دیتے۔لیکن خیال آیا کہ استخارہ کرلینا چاہیئے۔سو یہی جواب مکتوب الیہ کو دیاگیا۔پھر استخارہ کیاگیا۔
وہ استخارہ کیا تھا گویا نشان آسمانی کی درخواست کا وقت آپہنچا۔اس قادر حکیم نے مجھ سے فرمایا کہ اس کی دخترکلاں کے لئے سلسلہ جنبانی کرو۔اور ان سے کہ دو کہ تمام سلوک و مروت تم سے اس شرط پر کیا جائے گا۔
اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت برا ہوگا۔جس دوسرے شخص سے یہ بیاہی جائے گی۔وہ روز نکاح سے اڑھائی سال اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہوجائے گا۔
خدائے تعالٰی نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کو ہرایک مانع دور کرنے کے بعد انجام کار اس عاجز کے نکاح میں لائے گا۔ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے کہ
“کذبو بایتنا وکانو بھا یستہزعون۔فسیکفیھم اللہ و یردھا الیک۔لا تبدیل لکلمات اللہ۔ان ربک فعال لما یرید۔
یعنی انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا اور وہ پہلے ہنسی کررہے تھے۔سو خدائے تعالٰی ان کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں۔ تمہارا مددگار ہوگا۔اور انجام کار اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا۔اور کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے۔
تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے۔بدخیال لوگوں کو واضح ہوکہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کو ہماری پیشگوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں۔”
(آیئنہ کمالات اسلام صفحہ 280 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 281 تا 288)
اس عبارت میں جو کچھ مرزا صاحب نے لکھا ہے وہ تشریح کا محتاج نہیں۔
مرزا صاحب نے محمدی بیگم سے نکاح اور محمدی بیگم کے خاوند سلطان محمد کی موت کی پیشگوئی کو “تقدیر مبرم” قرار دیا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل تحریر میں مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“نفس پیشگوئی یعنی اس عورت (محمدی بیگم) کا اس عاجز (مرزا صاحب) کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔کیونکہ اس کے لئے الہام الہی میں یہ فقرہ موجود ہے “لا تبدیل لکلمات اللہ” یعنی میری یہ بات ہرگز نہیں ٹلے گی۔پس اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے۔”
(اشتہار 6 ستمبر 1894ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 43 تین جلدوں والا پرانا ایڈیشن)
اس کے علاوہ مرزا صاحب نے محمدی بیگم کے خاوند کے متعلق لکھا ہے:
“میں بار بار کہتا ہوں کہ نفس پیشگوئی داماد احمد بیگ کی (موت) تقدیر مبرم ہے۔اس کی انتظار کرو اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوگی۔اور میری موت آجائے گی۔”
“صاف ظاہر ہے کہ آتھم کی پیشگوئی اور اس(محمدی بیگم والی) پیشگوئی میں 3 شخص کی موت کی خبر دی گئی تھی۔سو ان میں سے 2 تو فوت ہوچکےصرف ایک باقی ہے۔ سو اس ایک کا انتظار کرو۔”
مرزا صاحب کی تحریرات سے پتہ چلا کہ مرزا صاحب کا محمدی بیگم سے نکاح ہونا اور محمدی بیگم کے خاوند سلطان محمد کا فوت ہوجانا یہ مرزا صاحب کی ایسی پیشگوئیاں تھیں جو “تقدیر مبرم” تھیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب “تقدیر مبرم” کے بارے میں کیا لکھتے ہیں۔
مرزا صاحب نے “تقدیر مبرم” کے بارے میں لکھا ہے:
“گو بظاہر کوئی وعید شروط سے خالی ہو۔مگر اس کے ساتھ پوشیدہ طور پر ارادہ الہی میں شروط ہوتی ہیں۔بجز ایسے الہام کے جس میں ظاہر کیا جائے کہ اس کے ساتھ شروط نہیں ہیں۔پس ایسی صورت میں قطعی فیصلہ ہوجاتا ہے۔اور تقدیر مبرم قرار پاتا ہے۔”
مرزا صاحب کی ان تحریرات سے درج ذیل باتیں ثابت ہوئیں۔
1) سب سے بہتر یہ ہے کہ محمدی بیگم کا نکاح مرزا صاحب کے ساتھ کردیا جائے۔
2) اگر محمدی بیگم کا نکاح کسی اور کے ساتھ کیا گیا تو خدا کاعذاب نازل ہوگا۔
3) اگر محمدی بیگم کا نکاح کسی اور کے ساتھ کیا گیا تو جس کے ساتھ نکاح ہوگا وہ اڑھائی سال کے اندر اندر مر جائے گا۔
4) اگر محمدی بیگم کا نکاح کسی اور کے ساتھ کیا گیا تو محمدی بیگم کا والد تین سال کے اندر اندر مر جائے گا۔
5) جو شخص محمدی بیگم کے مرزا صاحب کے ساتھ نکاح کرنے میں رکاوٹ ڈالے گا ۔ وہ بھی ساتھ ہی پس جائے گا۔
6) ان سب کاموں کے بعد مرزا صاحب کا نکاح محمدی بیگم کے ساتھ ہوگا۔
7) اور یہ سارے کام خدا کا نشان ہوں گے۔ اور مرزا صاحب کو اللہ تعالٰی کی طرف سے الہام ہوتے ہیں اس بات کی سچائی کی دلیل ہوں گے۔
8) محمدی بیگم سے مرزا صاحب کا نکاح اور محمدی بیگم کے خاوند سلطان محمد کی موت کی پیشگوئی “تقدیر مبرم” ہے جو کسی صورت ٹل نہیں سکتی۔
9) اگر یہ تمام باتیں اس طرح نہ ہوسکیں تو مرزا صاحب کذاب ثابت ہوجائیں گے۔
اللہ تعالٰی نے مرزا صاحب کو ذلیل کروانا تھا اس لئے نہ ہی مرزا صاحب کا محمدی بیگم سے ساری زندگی نکاح ہوسکا۔اور نہ ہی محمدی بیگم کا خاوند مرزا صاحب کی زندگی میں مرسکا۔جس کے مرنے کی پیشگوئی مرزا صاحب نے کی تھی اور مرزا صاحب نے کہا تھا کہ وہ نکاح کے دن سے اڑھائی سال کے اندر مر جائے گا لیکن وہ نہ مرا۔
یاد رہے ان دونوں پیشگوئیوں کو مرزا صاحب نے تقدیر مبرم قرار دیا تھا۔جو کسی صورت نہیں ٹل سکتیں۔
قادیانی یہاں دھوکہ دینے کے لئے کہتے ہیں کہ محمدی بیگم کا والد 6 ماہ بعد مرگیا تھا۔اور محمدی بیگم اور اس کے خاوند اور خاندان نے توبہ کر لی تھی لہذا وہ مرنے سے بچ گئے۔
“پہلا جواب”
اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ مرزا صاحب نے محمدی بیگم سے نکاح اور محمدی بیگم کے خاوند سلطان محمد کی موت کی پیشگوئی کو “تقدیر مبرم” قرار دیا تھا جو کسی صورت ٹل نہیں سکتی۔بالفرض اگر انہوں نے توبہ کر بھی لی تھی تو پھر بھی تقدیر مبرم کو ضرور پورا ہونا چاہئے تھا۔جو کہ پوری نہیں ہوئی۔
“دوسرا جواب”
اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ محمدی بیگم کے والد کی وفات کے بعد مرزا صاحب نے درج ذیل تحریر لکھی تھی جس میں لکھا ہے:
“مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کے داماد کی موت کی نسبت پیشگوئی جو پٹی ضلع لاہور کا باشندہ ہے۔جس کی معیاد آج کی تاریخ سے جو 21 ستمبر 1893ء ہے۔قریبا 11 مہینے باقی رہ گئی ہے۔یہ تمام امور جو انسانی طاقتوں سے بالکل بالاتر ہیں۔ایک صادق یا کاذب کی شناخت کے لئے کافی ہیں۔کیونکہ احیاء(زندگی)اور اماتت(موت)دونوں خدا تعالٰی کے اختیار میں ہیں۔ اور جب تک کوئی شخص نہایت درجہ کا مقبول نہ ہو۔ خدا تعالٰی اس کی خاطر سے کسی اس کے دشمن کو اس کی دعا سے ہلاک نہیں کر سکتا۔خصوصا ایسے موقع پر کہ وہ شخص اپنے تئیں منجانب اللہ قرار دیوے اور اپنی اس کرامت کو اپنے صادق ہونے کی دلیل ٹھراوے۔سو پیشگوئیاں کوئی معمولی بات نہیں کوئی ایسی بات نہیں جو انسان کے اختیار میں ہو۔بلکہ محض اللہ جل شانہ کے اختیار میں ہیں۔سو اگر کوئی طالب حق ہے تو ان پیشگویئوں کے وقتوں کا انتظار کرے۔
آگے مرزا صاحب نے اس پیشگوئی کے اجزا یوں لکھے ہیں:
1) مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری(محمدی بیگم کا والد) تین سال کی معیاد کے اندر فوت ہو۔
2) پھر داماد اس کا جو اس کی دختر کلاں (محمدی بیگم)کا شوہر ہے،اڑھائی سال کے اندر فوت ہو۔
3) پھر یہ کہ احمد بیگ تا روز شادی دختر کلاں(محمدی بیگم) فوت نہ ہو۔
4) پھر یہ کہ وہ دختر(محمدی بیگم) بھی تانکاح اور تاایام بیوہ ہونے اور نکاح ثانی فوت نہ ہو۔
5) اور پھر یہ کہ یہ عاجز(مرزا صاحب) بھی ان تمام واقعات کے پورے ہونے تک فوت نہ ہو۔
باوجودیکہ اس تحریر میں مرزا صاحب نے بہت سے جھوٹ لکھے ہیں مثلا مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ پیشگوئی کے مطابق پہلے محمدی بیگم کے خاوند کو مرنا چاہیئے تھا یہ مرزا صاحب کا جھوٹ ہے کیونکہ اصل پیشگوئی کے مطابق پہلے محمدی بیگم کے خاوند کو مرنا تھا۔پھر بھی مرزا صاحب کی اس تحریر سے پتہ چلا کہ بالفرض اگر سلطان محمد یا محمدی بیگم کے خاندان نے توبہ کر بھی لی تھی پھر بھی مرزا صاحب کو سلطان محمد کی موت کی پیشگوئی کے پورا ہونے کا انتظار تھا۔اور اگر انہوں نے توبہ کر لی تھی اور یہ پیشگوئی ٹل گئی تھی تو اس کے باوجود مرزا صاحب پھر سلطان محمد کی موت کا انتظار کیوں کرتے رہے؟؟
“تیسرا جواب”
مرزا صاحب توبہ کے متعلق لکھتے ہیں:
“اگر کافر ہے تو سچا مسلمان ہوجائے اور اگر ایک جرم کا مرتکب ہے تو سچ مچ اس جرم سے دستبردار ہوجائے۔”
(اشتہار 6 ستمبر 1894ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 46،47 تین جلدوں والا پرانا ایڈیشن)
اب دیکھتے ہیں کہ محمدی بیگم کے خاوند سلطان محمد کا جرم کیا تھا جس کی اس نے توبہ کرنی تھی۔
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“احمد بیگ کے داماد کا قصور یہ تھا کہ اس نے تخویف کا اشتہار دیکھ کر اس کی پرواہ نہ کی۔پیشگوئی کو سن کر پھر نکاح کرنے پر راضی ہوئے۔”
(اشتہار 27 اکتوبر 1894ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 95 تین جلدوں والا پرانا ایڈیشن)
مرزا صاحب کی اس تحریر سے پتہ چلا کہ محمدی بیگم کے خاوند کا قصور محمدی بیگم سے نکاح کرنا تھا۔پس اگر محمدی بیگم کے خاوند نے توبہ کر لی تھی تو اس کو محمدی بیگم کو طلاق دے دینی چاہیے تھی تاکہ مرزا صاحب اس سے نکاح کر سکیں لیکن محمدی بیگم کے خاوند سلطان محمد نے مرزا صاحب کی زندگی میں بھی اور مرزا صاحب کی موت کے بعد بھی محمدی بیگم کو طلاق نہیں دی۔ پس ثابت ہوا کہ محمدی بیگم کے خاوند یا خاندان نے کوئی توبہ نہیں کی تھی۔
“خلاصہ کلام”
ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ مرزا صاحب نے پیشگوئی کی تھی کہ محمدی بیگم کا نکاح اللہ تعالٰی نے میرے ساتھ آسمانوں پر کردیا ہے۔ اگر محمدی بیگم کے والد نے محمدی بیگم کا نکاح کسی اور کے ساتھ کردیا تو نکاح کے بعد اڑھائی سال کے اندر جس کے ساتھ نکاح کیا گیا وہ فوت ہوجائے گا اور نکاح کے بعد تین سال کے اندر محمدی بیگم کا والد فوت ہوجائے گا۔اور اس کے بعد محمدی بیگم مرزا صاحب کے نکاح میں واپس آجائے گی۔لیکن نہ ہی محمدی بیگم کا خاوند مرزا صاحب کی زندگی میں فوت ہوا اور نہ ہی محمدی بیگم مرزا صاحب کے نکاح میں آئی۔محمدی بیگم کا خاوند 1948ء کو اسلام کی حالت میں فوت ہوا۔
“مرزا صاحب کی جھوٹی پیشگوئی نمبر 7”
“مرزا صاحب کی عمر”
مرزا صاحب نے جون 1892ء میں اپنی عمر کے بارے میں ایک فارسی شعر میں اپنی عمر کی پیشگوئی کی۔آیئے فارسی شعر اورمرزا صاحب کی زبانی اس شعر کی تشریح کا جائزہ لیتے ہیں۔
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
” تاچہل سال اے برادرمن دورآں شہسوار می بینم “
مرزا صاحب نے خود ہی اس شعر کی تشریح میں لکھا ہے:
“یعنی اس روز سے جووہ امام ملہم ہوکر اپنے تئیں ظاہر کرے گا۔چالیس برس تک زندگی بسر کرے گا۔اب واضح رہے کہ یہ عاجز اپنی عمر کے چالیسویں برس میں دعوت حق کے لئے بالہام خاص مامور کیا گیا اور بشارت دی گئی کہ اسی برس یا اس کے قریب تیری عمر ہے۔سو اس الہام سے چالیس برس تک دعوت ثابت ہوتی ہے۔جن میں سے دس کامل برس گزر چکے ہیں۔”
(یاد رہے کہ قادیانیوں نے روحانی خزائن کے جدید ایڈیشن میں بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے روحانی خزائن کی جلد نمبر 4 میں موجود نشان آسمانی جس کا دوسرا نام شہادت الملہمین ہےاس کے ٹائٹل پر طبع دوم کا صفحہ لگایا ہے جس پر اشاعت کی تاریخ جنوری 1896ء لکھی گئی ہے۔حالانکہ پرانے تمام 4 ایڈیشنوں میں طبع اول کا ہی ٹائٹل پیج لگا ہواتھا۔جس پر تاریخ اشاعت جون 1892ء لکھی ہوئی تھی۔اس طرح قادیانیوں نے مرزا صاحب کے جھوٹ کو چھپانے کی ناکام کوشش کی ہے)
مرزا صاحب کی اس عبارت سے مندرجہ ذیلu باتیں ثابت ہوئیں۔
1)جب وہ امام ظاہر ہوگا جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔وہ جس دن اپنے آپ کو ظاہر کرے گا اس دن کے بعد 40 سال زندگی بسر کرے گا۔
2)مرزا صاحب کی عمر جب 40 سال ہوئی تو اس وقت مرزا صاحب نے دعوی کیا۔
3)مرزا صاحب اس دعوے کے بعد 40 سال یا 40 سال کے قریب زندگی بسر کریں گے۔
4)1892ء میں 40 سال میں سے 10 سال گزر چکے تھے۔اور 30 سال مرزا صاحب کی عمر کے باقی تھے۔یعنی مرزا صاحب نے دعوی 1882ء میں کیا تھا۔
معزز قارئین مرزا صاحب نے جو حساب لکھا ہے اس کے مطابق مرزا صاحب کی وفات 1922ء میں ہونی چاہئے تھی۔
1892+30 =1922
جبکہ مرزا صاحب کی وفات 1908ء میں ہوئی تھی۔یعنی مرزا صاحب کی اپنی موت کے بتائے گئے سال سے 14 سال پہلے مرزا صاحب کی وفات ہوئی تھی۔یوں مرزا صاحب اپنی پیشگوئی میں جھوٹے ثابت ہوئے۔
“مرزا صاحب کی جھوٹی پیشگوئی نمبر 8”
“بہت بڑے زلزلے کی پیشگوئی”
4 اپریل 1905ء کو ہندوستان میں جب بڑا زلزلہ آیا تو مرزا صاحب نے سمجھا کہ اس کے بعد بھی زلزلے آئیں گے تو میں پہلے ہی پیشگوئی کردیتا ہوں تاکہ اگر زلزلہ آجائے تو میں کہوں گا کہ دیکھو میں نے پہلے ہی پیشگوئی کی تھی۔
لیکن مرزا صاحب اپنی اس پیشگوئی میں بھی “کذاب”ثابت ہوئے۔آیئے مرزا صاحب کی اس پیشگوئی کی تفصیل دیکھتے ہیں۔
مرزا صاحب نے 8 اپریل 1905ء کو ایک اشتہار شائع کروایا جس میں لکھا تھا:
“آج رات کے تین بجے خدا کی پاک وحی مجھ پر نازل ہوئی۔تازہ نشان کا دھکہ۔زلزلتہ الساعتہ۔خدا ایک تازہ نشان دکھائے گا۔مخلوق کو ایک نشان کا دھکہ لگے گا۔وہ قیامت کا زلزلہ ہوگا۔مجھے علم نہیں دیا گیا کہ وہ زلزلے سے مراد زلزلہ ہے یا کوئی اور شدید آفت ہے جو دنیا پر آئے گی جس کو قیامت کہ سکیں۔اور مجھے علم نہیں دیا گیا کہ ایسا حادثہ کب آئے گا۔اور مجھے علم نہیں کہ وہ چند دن تک ظاہر ہوگا یا چند ہفتوں تک ظاہر ہوگا۔یا خدا تعالٰی اس کو چند مہینوں یا چند سال کے بعد ظاہر فرمائے گا۔یا کچھ اور قریب یا بعید۔”
(مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 522)
(تذکرہ صفحہ 449،450 جدید ایڈیشن 2004ء)
اس کے علاوہ 14 اپریل 1905ء کو بھی مرزا صاحب نے اپنا ایک کشف سنایا۔
“میں قادیان کے بازار میں گاڑی پر سوار ہوں۔ اس وقت زلزلہ آیا۔مگر ہم کو کوئی نقصان اس زلزلہ سے نہیں ہوا۔”
(تذکرہ صفحہ 453 جدید ایڈیشن 2004ء)
اس کے بعد 15 اپریل 1905ء کو مرزا صاحب نے آنے والے زلزلے کے بارے میں ایک پوری نظم لکھی جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں۔
اس کے بعد 21 اپریل 1905ء کو بھی مرزا صاحب نے ایک اشتہار شائع کروایا۔جس میں لکھا تھا:
“9 اپریل 1905ء کو پھر خدا تعالٰی نے مجھے ایک سخت زلزلہ کی خبر دی جو نمونہ قیامت اور خوش ربا ہوگا۔چونکہ دو مرتبہ مکرر پر اس علیم مطلق نے اس آئندہ واقع پر مجھے مطلع فرمایا ہے اس لئے میں یقین رکھتا ہوں کے عظیم الشان حادثہ جو محشر کے حادثے کو یاد دلائگا دور نہیں خدا تعالٰی نے چاہا کے اب دوسرا نشان دکھا دیں تا ماننے والوں پر اس کا رحم ہوتا وہ لوگ جو کئی منزلوں کے نیچے سوتے ہیں وہ کسی اور جگہ پر ڈیرے لگا لیں۔”
(مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 535)
کچھ دنوں کے بعد یعنی 29 اپریل 1905ء کو مرزا جی نے ایک اور اشتہار شائع کروایا جس میں ذکر تھا کہ زلزلہ کے خوف سے مرزا صاحب نے اپنا گھر بھی چھوڑ دیا کیونکہ مرزا صاحب کے مطابق زلزلہ بس آنے ہی والا تھا۔اشتہار کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں۔
“آج 29 اپریل 1905ء کو پھر خدا تعالٰی نے مجھے دوسری مرتبہ کے زلزلہ شدیدہ کی نسبت اطلاع دی ہے۔یہ بات آسمان پر قرار پاچکی ہے کہ ایک شدید آفت سخت تباہی ڈالنے والی اس دنیا پر آوے گی۔جس کا نام خدا تعالٰی نے بار بار زلزلہ رکھا ہے۔میں نہیں جانتا کہ وہ قریب ہے یا کچھ دنوں کے بعد اس کو ظاہر فرماوے گا۔مگر بار بار خبر دینے سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ بہت دور نہیں۔زلزلے آویں گے مگر تاریخ مقرر نہیں۔مجھے اب تک قطعی طور پر یہ بھی معلوم نہیں کہ اس زلزلہ سے درحقیقت ظاہری زلزلہ مراد ہے یا کوئی اور شدید آفت ہے جو زلزلے کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہے۔
اس خوف کو لازم سمجھو کہ میں خیموں میں گزارہ کرتا ہوں۔ایک ہزار کے قریب خرچ ہوچکا ہے۔اس قدر خرچ کون اٹھاسکتاہے۔بجز اس کے کہ سچے دل سے آنے والے حادثے پر یقین رکھتا ہو۔ مجھے بعد میں زلزلہ کی نسبت یہ بھی الہام ہواتھا۔
“پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔”
اجتہادی طور پر یہ خیال گزرتا ہے کہ ظاہر الفاظ وحی کے یہ چاہتے ہیں کہ یہ پیشگوئی بہار کے ایام میں پوری ہوگی۔”
(مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 539)
اب ایک اور حوالہ پڑھیں جس میں مرزا صاحب نے اس زلزلے کا اپنی زندگی میں ہی آنا یقینی بتایا۔
“خدا تعالٰی کا ایک الہام یہ بھی ہے کہ “پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی” اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زلزلہ موعودہ کے وقت بہار کے دن ہوں گے۔اور جیسا کہ بعض الہامات سے سمجھا جاتا غالبا صبح کا وقت ہوگا یا اس کے قریب۔اور غالبا وہ وقت نزدیک ہے۔ جبکہ وہ پیشگوئی ظہور میں آجائے۔اور ممکن ہے کہ خدا اس میں کچھ تاخیر ڈال دے۔(اس تاخیر کی تعیین بھی اسی صفحے میں کی گئی ہے)
بار بار وحی الہی نے مجھے اطلاع دی ہے کہ وہ پیشگوئی میری زندگی میں اور میرے ہی ملک اور میرے ہی فائدے کے لئے ظہور میں آئے گی۔ اگر خدا تعالٰی نے بہت ہی تاخیر ڈال دی تو زیادہ سے زیادہ 16 سال میں۔ضرور ہے کہ یہ میری زندگی میں ظہور میں آجائے۔”
(روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 258)
(تذکرہ صفحہ 454 جدید ایڈیشن 2004ء)
ایک اور جگہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ یہ پیشگوئی اگر میری زندگی میں پوری نہ ہوئی تو میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں۔اصل الفاظ ملاحظہ فرمائیں۔
“ایسا ہی آئندہ زلزلہ کی نسبت جو پیشگوئی ہے وہ کوئی معمولی پیش گوئی نہیں۔اگر وہ آخر کو معمولی بات نکلی یا میری زندگی میں اس کا ظہور نہ ہوا تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں۔”
1) مرزا صاحب نے اپریل 1905ءکو ایک بہت بڑے زلزلے کی پیشگوئی کی۔
2) وہ زلزلہ بہت جلدی آنا تھا۔
3) مرزا صاحب نے اس زلزلے سے ڈر کر اپنے مریدوں کے ساتھ خیموں میں رہنا شروع کردیا۔
4) مرزا صاحب نے کہا کہ بہار کے مہینے میں زلزلہ آئے گا۔
5) جب 1 مہینہ خیموں میں انتظار کے بعد بھی زلزلہ نہیں آیا تو مرزا صاحب شرمندہ ہوکر اپنے مریدین کے ساتھ اپنے گھر واپس آگئے۔
6) مرزا صاحب نے کہا کہ یہ پیشگوئی ضرور میری زندگی میں پوری ہوگی۔
7) اگر یہ پیشگوئی مرزا صاحب کی زندگی میں پوری نہ ہوئی تو مرزا صاحب خدا کی طرف سے نہیں ہے۔ بلکہ “کذاب” ہے۔
معزز قارئین اللہ تعالٰی نے مرزا صاحب کو ذلیل کرنا تھا اس لئے جس زلزلے کی پیشگوئی مرزا صاحب نے کی تھی وہ زلزلہ نہیں آیا۔
کچھ قادیانی کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی اس زلزلے کی صورت میں پوری ہوئی جو 1906ء میں آیا تھا۔اس کا جواب یہ ہے کہ خود مرزا صاحب نے 1907ء میں لکھا ہے کہ
“اریک زلزلة الساعة”
یعنی میں تجھے وہ زلزلہ دکھاؤں گا جو قیامت کا نمونہ ہوگا۔
(تذکرہ صفحہ 611 جدید ایڈیشن 2004ء)
یعنی مرزا قادیانی کو 1907ء میں بھی اس زلزلے کا انتظار تھا جس کے متعلق مرزا صاحب نے پیشگوئی کی تھی۔
اور پھر یہ انتظار انتظار ہی رہا اور پیشگوئی پوری نہ ہو پائی۔اس طرح مرزا جی اپنی اس پیشگوئی میں بھی”کذاب”ہوئے۔
“مرزا صاحب کی جھوٹی پیشگوئی نمبر 9”
“جدی بھائیوں کی ہر شاخ کاٹی جائے گی۔”
مرزا صاحب کو پیشگوئیاں کرنے کا بہت شوق تھا۔اور مرزا صاحب کی تمام پیشگوئیاں جھوٹی ہی نکلیں ہیں۔
آیئں مرزا صاحب کی ایک اور پیشگوئی کا جائزہ لیتے ہیں۔
مرزا صاحب نے ایک پیشگوئی 20 فروری 1886ء کو شائع کی۔جس میں مرزا صاحب نے لکھا:
“خواتین مبارکہ میں سے جن کو تو بعض کو اس کے بعد پائے گا،تیری نسل بہت ہوگی۔ اور ہر ایک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کاٹی جائے گی۔اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہوجائے گی اور ایک اجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا۔”
(تذکرہ صفحہ 111 جدید ایڈیشن 2004ء)
(البشری جلد 2 صفحہ 6)
مرزا صاحب کے اس الہام سے 3 باتیں پتہ چلتی ہیں۔
1)نصرت بیگم کے نکاح کے بعد کئی عورتیں مرزا صاحب کے نکاح میں آئیں گی۔اور ان سے اولاد بھی بہت ہوگی۔ اور نسل بھی خوب پھیلے گی۔
(مرزا صاحب کی تیسری شادی نہیں ہوئی لہذا یہ پیشگوئی بھی جھوٹی نکلی۔اس کی تفصیل پیشگوئی نمبر 2 میں گزر چکی ہے)
2)مرزا صاحب کےچچازاد بھائی مرزا امام دین،مرزا نظام الدین اور مرزا کمال الدین دنیا سے لاولد ہی جایئں گے۔(یعنی ان کی کوئی اولاد نہیں ہوگی)
اور ان تینوں کی نسل منقطع ہوجائے گی۔
(یہ پیشگوئی مرزا صاحب نے اس لئے کی کیونکہ مرزا صاحب کو پتہ تھا کہ ان کے چچا زاد بھائی لاولد ہیں اور ان کی اولاد ہونے کا امکان نہیں ہے لہذا مرزا صاحب نے یہ پیشگوئی شائع کر دی کہ ان کی اولاد نہیں ہوسکتی۔
آیئے مزید جائزہ لیتے ہیں ۔
مرزا صاحب کے دو چچا تھے۔
ایک چچا کے بیٹے کا نام حسن بیگ تھا وہ مرزا صاحب کے دعوی سے پہلے ہی مفقودالخبر ہوچکا تھا۔
دوسرے چچا کے تین بیٹے تھے ۔
ایک کا نام امام دین تھا مرزا صاحب کے الہام کے وقت اس کی عمر 55 سال تھی اور اس کی اولاد نہیں تھی ۔
دوسرے بیٹے کا نام نظام الدین تھا اور مرزا صاحب کے الہام کے وقت اس کی عمر 50 سال تھی اور اس کی بھی کوئی اولاد نہیں تھی۔
تیسرے بیٹے کا نام کمال الدین تھا اور وہ جوانی میں ہی اپنا عضو تناسل کٹوا چکا تھا۔ لہذا اس کی اولاد ہونے کی کوئی امید نہیں تھی۔
چنانچہ مرزا صاحب کو قرائن سے یقین تھا کہ ان کے چچا زاد بھائیوں کی اولاد نہیں ہوسکتی اور لگ بھی یہی رہا تھا کہ ان کی اولاد نہیں ہوگی لہذا مرزا صاحب نے کہا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ ان کی کوئی اولاد نہیں ہوگی۔
لیکن خدا کی قدرت دیکھیں کہ اللہ تعالٰی نے مرزا صاحب کو ذلیل کرنا تھا۔
چنانچہ مرزا صاحب کے چچازاد بھائی نظام الدین کے ہاں اولاد ہوئی۔اور بیٹا پیدا ہوا جس کا نام “گل محمد” رکھا گیا۔
اور گل محمد ناصرف زندہ رہا بلکہ جوان بھی ہوگیا لیکن مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد ایم اے کی ڈھٹائی دیکھیں وہ لکھتے ہیں:
اس وقت نظام الدین کا لڑکا “گل محمد” زندہ ہے اور بیعت میں داخل ہوچکا ہے۔باقی سب کی اولاد نہیں رہی اور مرزا صاحب کا الہام پورا ہوا۔
خلاصہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی بھی جھوٹی نکلی اور ان کے چچا زاد بھائیوں کی نسل ختم نہیں ہوئی۔حالانکہ مرزا صاحب کے بقول ان کے چچا زاد بھائیوں کے ہاں مزید اولاد نہیں ہوگی۔اولاد ہوئی اور اس کا نام “گل محمد” رکھا گیا۔
3) خدا ایک اجڑا ہوا گھر مرزا صاحب کی ذات سے آباد کرے گا۔
(مرزا صاحب کی تیسری پیشگوئی “محمدی بیگم ” کے متعلق تھی جو جھوٹی نکلی۔اور محمدی بیگم کی شادی مرزا صاحب سے نہیں ہوسکی۔اس کی تفصیل بھی پیشگوئی نمبر 6 میں گزر چکی ہے)
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 133،134،135 طبع جدید)
مرزا صاحب کی یہ تینوں پیشگوئیاں بھی جھوٹی نکلیں۔
“مرزا صاحب کی جھوٹی پیشگوئی نمبر 10”
“مرزا صاحب اور پادری آتھم”
مرزا صاحب کو اپنی سستی شہرت حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔مرزا صاحب نے ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جس سے ہلکی سی بھی شہرت مل سکے۔لیکن میرے اللہ نے ہر جگہ مرزا صاحب کو ذلیل کیا حتی کہ عیسائیوں کے مقابلے میں بھی ذلت مرزا صاحب کا مقدر بنی۔
آیئے مرزا صاحب کی عیسائی پادری آتھم کے ہاتھوں جو درگت بنی اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“مجھے خدا نے اپنی طرف سے قدرت دی ہے کہ کوئی پادری میرے مقابلے میں مباحثے پر ٹھر نہیں سکتا۔اور میرا رعب عیسائی علماء پر خدا نے ایسا ڈال دیا ہے کہ ان کو طاقت نہیں رہی کہ میرے مقابل پر آسکیں۔چونکہ خدا نے مجھے روح القدس سے تائید بخشی ہے اور اپنا فرشتہ میرے ساتھ کیا ہے اس لئے کوئی پادری میرے مقابلے پر آہی نہیں سکتا۔یہ لوگ بلائے جاتے ہیں،پر نہیں آتے اس کا یہی سبب ہے کہ ان کے دلوں میں خدا نے ڈال دیا ہے کہ اس شخص کے مقابل پر ہمیں بجز شکست کے اور کچھ نہیں۔”
“میں نے 12 ہزار کے قریب خط اور اشتہار الہامی برکات کے مقابلے کے لئے غیر مذاہب کی طرف روانہ کئے بالخصوص پادریوں میں سے شاید ایک بھی نامی پادری یورپ اور امریکہ اور ہندوستان میں باقی نہ رہا ہوگا۔جس کی طرف خط رجسٹری کرکے نہ بھیجا گیا ہو۔ مگر سب پر حق کا رعب چھاگیا۔
مجھے یہ قطعی طور پر بشارت دی گئی ہے کہ اگر کوئی مخالف دین میرے مقابلے کے لئے میرے مقابلے پر آئے گا تو میں اس پر غالب ہوں گا اور وہ ذلیل ہوگا۔”
(مکتوبات احمدیہ جلد 2 صفحہ 187 خط بنام نواب محمد علی خاں جدید ایڈیشن 2008ء)
مرزا صاحب کی ان دو تحریرات سے پتہ چلتا ہے کہ مرزا صاحب کے ملہم نے مرزا صاحب کو بتایا تھا کہ کوئی پادری تیرے مقابلے پر نہیں آسکتا۔
بالفرض اگر کوئی پادری تیرے مقابلے پر آگیا تو وہ ذلیل و خوار ہوگا۔
مرزا صاحب اور پادری آتھم کے درمیان نوک جھونک ہوتی رہی اور اس نوک جھونک کا خلاصہ یہ ہے۔
مرزا صاحب نے آتھم کو کہا کہ میرے ساتھ اگر آپ نے مناظرہ یا مباہلہ کیا تو میری طرف سے ایک سال کی مدت کے اندر معجزہ ظاہر ہوگا تو آپ کو حق کو قبول کرنا ہوگا۔
اس کے جواب میں آتھم نے کہا کہ اگر واقعی آپ کی طرف سے کوئی معجزہ رونما ہوتا ہے تو ہم حق کو ضرور قبول کر لیں گے۔
لیکن اگر آپ کی طرف سے ایک سال تک کوئی نشان یا معجزہ رونما نہ ہوا تو آپ کو عیسائی ہونا پڑے گا۔
اس کے جواب میں مرزا صاحب نے لکھا کہ اگر میرا نشان سچا نہ نکلا تو میں دین “اسلام” چھوڑ دوں گا۔یا اپنی جائیداد کا نصف عیسائی مذہب کی اشاعت کے لئے دوں گا۔
لیجئے مرزا صاحب اور آتھم نے اتفاق کرلیا کہ اگر مرزا صاحب نے کوئی معجزہ،نشان وغیرہ ظاہر کردیا تو پادری آتھم حق کو قبول کر لےگا۔
اور اگر مرزا صاحب کوئی معجزہ،نشان وغیرہ نہ دکھا سکے تو مرزا صاحب عیسائی مذہب قبول کر لیں گے یا اپنی جائیداد کا نصف عیسائی مذہب کی اشاعت کے لئے وقف کریں گے۔
مرزا صاحب کیونکہ “جاہل” بھی تھے اس لئے مرزا صاحب کو نہیں پتہ تھا کہ اس اقرار نامے کے ساتھ ہی آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔
کیونکہ عقائد اور اصول کی کتابوں میں لکھا ہے:
“وکذا لونوی ان یکفر فی الاستقبال کفر فی الحال۔”
ترجمہ
“جو شخص مستقبل میں کافر ہونے کا ارادہ کرے وہ فی الفور کافر ہوجاتا ہے۔”
(شرح فقہ الاکبر صفحہ 147)
اگر مرزا صاحب پہلے سے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہ ہوتے تو اس اقرار نامے کے ساتھ مرزا صاحب ضرور دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتے۔
اس کے بعد مرزا صاحب اور پادریوں کے درمیان مناظرے کی درج ذیل شرائط طے ہوئیں۔
1) مناظرہ 23 مئی سے 3 جون تک 1893ء تک تحریری بمقام امرتسر ہوگا۔
2) عیسائیوں کے پہلوان مسٹر عبداللہ آتھم سابق ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر ہوں گے۔
3) فریقین 3،3 معاون اپنے ساتھ رکھنے کے مجاز ہوں گے۔
4) پہلے 6 دن تک مرزا صاحب مسیحی عقائد و تعلیمات پر اعتراضات کریں گے۔اور ڈپٹی عبداللہ آتھم جواب دیں گے۔
پھر 6 دن ڈپٹی عبداللہ آتھم اسلامی عقائد و تعلیمات پر نکتہ چینی کریں گے اور مرزا صاحب جواب دیں گے۔
5) داخلہ بذریعہ ٹکٹ ہوگا فریقین اپنی اپنی قوم کے صرف 50 آدمی اجلاس میں شامل کرسکیں گے۔
یہ اجتماع ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کی کوٹھی میں امرتسر میں منعقد ہوا۔
اس مباحثے میں مرزا صاحب کی طرف سے منشی غلام قادر اور عیسائیوں کی طرف سے ڈاکٹر ہنری کلارک میر مجلس قرار پائے۔
مرزا صاحب کے اس مباحثے میں 3 معاون تھے۔
1) حکیم نورالدین
2) مولوی محمد حسن امروہی
3) شیخ اللہ دتا
پادری آتھم کے بھی اس مباحثے میں 2 معاون تھے۔
1) پادری ٹھاکر داس
2) پادری ٹامس ہاول
دوران مباحثہ ایک دن پادری آتھم مباحثے میں شامل نہیں ہوسکا کیونکہ پادری آتھم کو تپ دق کا عارضہ لاحق تھا۔اس دن آتھم کی جگہ عیسائیوں کے میر مجلس ڈاکٹر مارٹن کلارک نے مرزا صاحب کے سوالات کے جوابات لکھوائے۔
مرزا صاحب کا عیسائیوں کے ساتھ یہ مناظرہ 15 دن تک چلتا رہا۔اس مناظرے کی روئیداد قادیانیوں نے “جنگ مقدس” کے نام سے چھپوائی ہوئی ہے۔جس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ عیسائی مینڈھے کی ٹکریں مرزا صاحب کے مقابلے میں زیادہ زورآور ہیں۔اور مرزا صاحب جنہوں نے اسلام کی نمائندگی کا پرفریب جامہ پہن رکھا ہے وہ علم اور دلائل کے میدان میں کس قدر نحیف اور لاغر ہیں۔
دوران مناظرہ ایک دن مرزا صاحب نے کہ دیا کہ میں ہی وہ مسیح ہوں جس کا انتظار کیا جا رہا ہے تو دوسرے دن عیسائیوں نے اسی جلسہ گاہ میں ایک اندھے،ایک بہرے اور ایک لنگڑے کو بٹھا دیا اور پادری آتھم نے مرزا صاحب کو کہا کہ آپ کو مسیح ہونے کا دعوی ہے تو سچے مسیح کی طرح ان کو ہاتھ لگا کر ٹھیک کردیں۔مرزا صاحب نے حیلے بہانے کر کے بڑی مشکل سے اپنی جان چھڑائی ۔
مرزا صاحب نے جب دیکھا کہ 15 دن کے مباحثے میں باوجود آسمانی تحائف،علوی عجائبات،روحانی معارف و دقائق کے اپنے مدمقابل پادری آتھم پر دلائل کے میدان میں فتح حاصل نہیں ہوسکی۔
تو مرزا صاحب نے اپنی شرمندگی اتارنے کے لئے مباحثے کے آخری دن یہ پیشگوئی کی۔
“آج رات جو مجھ پر کھلا ہے وہ یہ ہے کہ جب میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے تیرے ہیں۔
تو اس نے مجھے یہ نشان دیا کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمدا جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہیں دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی 15 ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا۔اس کو سخت ذلت پہنچے گی۔بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے اس کی عزت ظاہر ہوگی۔”
اسی پیشگوئی کی مزید تشریح مرزا صاحب نے اسی کتاب کے اگلے صفحے پر یوں لکھی ہے:
“میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا کے نزدیک جھوٹ پر ہے 15 ماہ کے عرصے میں آج کی تاریخ سے 5 جون 1893ء سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر سزا کے اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔مجھ کو ذلیل کیا جاوے، روسیاہ کیا جاوے،میرے گلے میں رسا ڈالا جاوے،مجھ کو پھانسی دی جاوے،ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں۔اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ضرور وہ ایسا ہی کرے گا۔ضرور کرے گا، ضرور کرے گا،زمین و آسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ٹلیں گی۔
اب میں ڈپٹی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ نشان پورا ہوگیا تو کیا یہ سب آپ کی منشاء کے موافق خدا کی پیشگوئی ٹھرے گی یا نہیں۔اور رسول اللہﷺ کے سچا نبی ہونے کے بارے میں جس کو اندرونہ بائیبل میں دجال کے لفظ سے آپ نامزد کرتے ہیں محکم دلیل ہوجائے گی یا نہیں۔
اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سولی تیار رکھو۔اور تمام شیطانوں اور بدکاریوں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو۔”
ان دو تحریرات سے واضح ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی کے مطابق اگر پادری آتھم 5 جون 1893ء سے لے کر 5 ستمبر 1894ء تک سچے خدا کو نہ مانتے تو وہ فوت ہوجاتا۔
لیکن مرزا صاحب چونکہ یہ پیشگوئی کرنے میں” کذاب” تھے لہذا 15 ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی پادری آتھم فوت نہیں ہوا۔اور مرزا صاحب “کذاب”ثابت ہوگئے۔
جوں جوں پیشگوئی کی مقررہ تاریخ کے دن قریب آرہے تھے توں توں مرزا صاحب کی پریشانی کیسے بڑھ رہی تھی۔
مرزا صاحب کے بیٹے نے لکھا ہے:
“مجھ سے عبداللہ سنوری نے بیان کیا کہ جب آتھم کی معیاد میں ایک دن باقی رہ گیا تو مرزا صاحب نے مجھ سے اور میاں حامد علی سے فرمایا کہ اتنے چنے(مجھے تعداد یاد نہیں رہی کہ کتنے چنے آپ نے بتائے تھے)لے لو اور ان پر فلاں سورت کا وظیفہ اتنی تعداد میں پڑھو(مجھے وظیفہ کی تعداد بھی یاد نہیں رہی)میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے سورت یاد نہیں رہی لیکن اتنا یاد ہے کہ وہ کوئی چھوٹی سورت تھی جیسے “الم ترکیف “اور ہم نے یہ وظیفہ قریبا ساری رات صرف کرکے ختم کیا۔”
مرزا صاحب کے بیٹے اور قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود پر جب اعتراض ہوا کہ آپ کی دعایئں کیوں قبول نہیں ہوتیں تو مرزا بشیر الدین محمود نے اپنی صفائی میں ایک بیان دیا جو قادیانیوں کے اخبار الفضل میں لکھا ہے:
“آتھم کی پیش گوئی کے متعلق جماعت کی جو حالت تھی وہ ہم سے مخفی نہیں میں اس وقت ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور میری عمر ساڑھے 5 سال کی تھی مگر وہ نظارہ مجھے خوب یاد ہے کہ جب آتھم کی پیش گوئی کا آخری دن آیا تو کتنے کرب و اضطراب کے ساتھ دعائیں کی گئیں میں نے محرم کا ماتم بھی اتنا سخت کبھی نہیں دیکھا حضرت مسیح موعود ایک طرف دعا میں مشغول تھے۔”
(الفضل 20 جولائی 1940ء)
مرزا محمود کے کہنے کا مطلب تھا کہ جب مرزا صاحب کی دعائیں آتھم کے بارے میں قبول نہیں ہویئں تو میری کیا حیثیت ہے اگر میری دعائیں قبول نہ ہوں۔
ان دو گھر کی گواہیوں سے یہ ثابت ہوا کہ
پادری آتھم نے اپنی بات سے رجوع نہیں کیا تھا، کیونکہ اگر پادری آتھم نے رجوع کیا ہوتا تو مرزا صاحب کو اتنے وظائف پڑھوانے کی اور اتنی دعائیں مانگنے کی کیا ضرورت تھی؟؟؟
دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ دوسرے قادیانی خلیفہ کو بھی یہ بات پتہ تھی کہ آتھم کی پیش گوئی کے وقت مرزا صاحب کی دعائیں قبول نہیں ہوئیں تھیں۔
پیشگوئی کے آخری دن مرزا صاحب کے سینکڑوں مرید “قادیان” پہنچے ہوئے تھے تاکہ آتھم کی موت پر مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری ہونے کی خوشی میں جشن منایا جائے۔
مرزا صاحب نے اپنے مریدین کے لئے بکرے منگوائے ہوئے تھے۔تاکہ اس خوشی کے موقع پر پرتکلف دعوت کی جاسکے۔
ویران کنویں میں چنوں کے دانوں پر وظیفہ پڑھ کر مقررہ دن سے ایک دن پہلے ہی آتھم کی موت کا سامان کرلیا گیا تھا اور اب قادیان کے “الہامی” صاحب آتھم کی موت کا انتظار کر رہے تھے۔
قادیان کے الہامی صاحب نے امرتسر،بٹالہ، گورداسپور اور فیروز پور میں اپنے مریدین بھیجے ہوئے تھے تاکہ جونہی آتھم کی موت کی خبر ملے تو وہ خبر فوری طور پر مرزا صاحب تک پہنچ سکے۔5 ستمبر کی شام سے پہلے سینکڑوں مرزائی “قادیان” میں موجود تھے اور اسی انتظار میں تھے کہ کب آتھم کی موت کی خبر ملتی ہے۔اور ہمارے لئے عید ہوتی ہے کیونکہ مرزا صاحب نے اپنے مریدوں کو صاف کہا ہوا تھا کہ 5 ستمبر 1894ءکی شام نہیں ہوگی جب تک آتھم مر نہ جائے۔لیجئے شام بھی ہوگئی اور مرزا صاحب کو خبر مل گئی کہ آتھم نہیں مرا۔
جوں جوں مرزا صاحب کے مریدوں کو یہ خبر ملتی گئی توں توں انہوں نے اپنے گریبان چاک اور کپڑے پھاڑنے شروع کر دیئے اور ان کی متوقع عید غم میں بدل گئی۔
عیسائیوں نے اس موقع پر جب مرزا صاحب صاف طور پر کذاب ثابت ہوگئے اور مرزا صاحب کی پیشگوئی جھوٹی نکلی تو عیسائیوں نے مرزا صاحب کی طرف سے دی گئی آتھم کی موت کی تاریخ سے اگلے دن 6 ستمبر 1894ء کو ایک بہت بڑا جلوس فیروز پور سے امرتسر تک نکالا اور عیسائیوں نے اس جلوس میں پادری آتھم کو بھی گاڑی میں بٹھا کر اور آتھم کے گلے میں ہار ڈال کر آتھم کو پورے امرتسر شہر میں گھمایا۔مرزا صاحب کے بیٹے نے لکھا ہے کہ اس دن لوگوں میں یہی شور تھا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی جھوٹی نکلی۔
الغرض ہر طرف مرزا صاحب کے کذاب ہونے کا شور مچا ہوا تھا اور مرزا صاحب کے مریدین بھی منہ چھپاتے پھر رہے تھے۔