ختم نبوتﷺ کورس” سبق نمبر 33″

سبق نمبر 33

0

“ختم نبوتﷺ کورس”

 ( مفتی سعد کامران )

سبق نمبر 33

“مرزا صاحب اور مسیح موعود کی علامات”

ویسے تو مرزا صاحب کو معیار مسیح موعود پر پرکھنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مرزا صاحب کا دعوی نبوت میں کذاب ہونا اظہر من الشمس ہے۔لیکن قادیانیوں کی ہدایت کی دعا کرتے ہوئے مرزا صاحب کو مسیح موعود کے معیار پر پرکھتے ہیں۔
“مسیح موعود کی علامت نمبر 1”
بخاری شریف میں ایک روایت موجود ہے جس میں “مسیح موعود” کی ایک علامت بتائی گئی ہے۔ 

عَنْ أَبَا هُرَيْرَةَ ؓ،يَقُولُ:‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:‏‏‏‏”وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا،فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ،وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ،وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ۔” 

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریم (عیسیٰؑ) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا۔”
(بخاری حدیث نمبر 2222 ٬ باب قتل الخنزیر)
اس روایت کو مرزا صاحب نے بھی نقل کیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔
مرزا صاحب لکھتے ہیں: 
“والذی نفس بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکما عدلا۔۔۔ الی آخرہ ۔۔یعنی قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں ابن مریم نازل ہوگا۔تمہارے ہر ایک مختلف فیہ مسئلے کا عدالت کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔”
(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 201 مندرجہ روحانی خزائن جلد  3 صفحہ  198)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ جس “مسیح موعود” نے نازل ہونا ہے اس کی ماں کا نام مریم ہے۔اور یہ بات حضورﷺ قسم کھا کر ارشاد فرما رہے ہیں۔ 
اور مرزا صاحب نے اصول لکھا ہے کہ جو بات قسم کھا کر کی جاتی ہے وہ ظاہر پر محمول ہوتی ہے اس میں تاویل نہیں کی جاتی۔ 
(حمامةالبشری صفحہ 14 مندرجہ روحانی خزائن جلد  7 صفحہ  192)
مرزا صاحب کی والدہ کا نام چونکہ “مریم” نہیں بلکہ “چراغ بی بی” ہے۔لہذا مرزا صاحب وہ “مسیح موعود” نہیں جن کے آنے کا حضورﷺ  نے فرمایا ہے۔ 
ہوسکتا ہے کوئی قادیانی مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے کہ دے کا مرزا صاحب ہی ابن مریم ہیں۔اس لئے مرزا صاحب کا حوالہ پڑھ لیں جس میں مرزا صاحب لکھتے ہیں:
“اس عاجز نے جو مثیل مسیح ہونے کا دعوی کیا ہے جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں۔
میں نے ہرگز دعوی نہیں کیا کہ میں “مسیح ابن مریم” ہوں۔ جو شخص مجھ پر یہ الزام لگادے وہ مفتری اور کذاب ہے۔میں مثیل مسیح ہوں۔”
(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 190 مندرجہ روحانی خزائن جلد  3 صفحہ 192)
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کی ماں کا نام چونکہ مریم نہیں ہے اس لئے مرزا صاحب “کذاب” ہیں۔
“مسیح موعود کی علامت نمبر 2”
بخاری شریف میں ایک روایت موجود ہے جس میں “مسیح موعود” کی ایک علامت بتائی گئی ہے۔ 

عَنْ أَبَا هُرَيْرَةَ ؓ،يَقُولُ:‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:‏‏‏‏”وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا،فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ،وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ،وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ۔” 

“حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریم (عیسیٰؑ) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے،سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے۔اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا۔”
(بخاری حدیث نمبر 2222 ٬ باب قتل الخنزیر)
اس روایت سے پتہ چلا کہ مسیح موعود عادل حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔یعنی مسیح موعود ظاہری حکومت کے ساتھ آئیں گے۔ 
اگر اس معیار پر بھی مرزا صاحب کو پرکھا جائے تو مرزا صاحب “کذاب” ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ مرزا صاحب نے لکھا ہے: 
“ممکن ہے کسی زمانے میں کوئی ایسا مسیح آجائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ صادق آسکیں۔کیونکہ یہ عاجز اس دنیا کی حکومت اور بادشاہت کے ساتھ نہیں آیا۔درویشی اور غربت کے لباس میں آیا ہے۔” 
(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 200 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 197)
لیجئے خود مرزا صاحب نے اعتراف کرلیا کہ وہ حکومت اور بادشاہت کے ساتھ نہیں آئے بلکہ درویشی اور غربت کے ساتھ آئے ہیں حالانکہ سچے مسیح موعود نے عادل حاکم کی حیثیت سے تشریف لانا ہے۔پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب دعوی مسیح موعود میں کذاب ہیں۔
“مسیح موعود کی علامت نمبر 3”
مشکوۃ شریف میں ایک روایت موجود ہے جس میں “مسیح موعود” کی ایک علامت بتائی گئی ہے ۔
   

عَن عبد الله بن عَمْرو ؓ قال:قال رَسُولُ اللَّهِﷺ:يَنْزِلُ عِيسَى بن مَرْيَمَ إِلَى الْأَرْضِ فَيَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ وَيَمْكُثُ خَمْسًا وَأَرْبَعِينَ سَنَةً ثُمَّ يَمُوتُ فَيُدْفَنُ مَعِي فِي قَبْرِي فأقوم أَنا وَعِيسَى بن مَرْيَمَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ بَيْنَ أَبَى بَكْرٍ وَعُمَرَ۔

ترجمہ
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“عیسیٰ بن مریم ؑ زمین پر نازل ہوں گے،شادی کریں گے اور ان کی اولاد ہو گی،وہ پینتالیس سال رہیں گے پھر فوت ہو جائیں گے۔انہیں میری قبر کے ساتھ ہی میرے قریب دفن کر دیا جائے گا۔میں اور عیسیٰ بن مریم،ابوبکر و عمر کے درمیان سے ایک ہی قبر سے کھڑے ہوں گے۔”
(مشکوۃ:حدیث نمبر 5508 ٬باب نزول عیسیؑ)
اس حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عیسی بن مریمؑ زمین پر اتر کر نکاح کریں گے۔اور ان کی اولاد بھی ہوگی۔ 
مرزا صاحب نے بھی اس حدیث کا مطلب یہ ظاہر کیا کہ میری محمدی بیگم کے ساتھ “مسیح موعود” ہونے کی حالت میں شادی ہوگی۔ 
اس روایت کے نکاح والے اور اولاد والے حصے کو  مرزا صاحب نے بھی نقل کیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
مرزا صاحب لکھتے ہیں:
اس (محمدی بیگم کے نکاح والی )پیشگوئی کی تصدیق کے لئے جناب رسول اللہﷺ  نے بھی پہلے سے ایک پیشگوئی فرمائی ہے کہ یتزوج و یولد لہ یعنی وہ مسیح موعود بیوی کرے گا نیز صاحب اولاد بھی ہوگا۔اب ظاہر ہے تزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں۔
عام طور پر ہر ایک شادی کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے اس میں کچھ خوبی نہیں۔بلکہ تزوج سے مراد خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا اور اولاد سے مراد وہ خاص اولاد ہے۔جس کی نسبت اس عاجز کی پیشگوئی ہے۔ 
اس جگہ رسول اللہﷺ اس سیاہ دل منکروں کو اس کے شبہات کا جواب دے رہے ہیں۔اور فرما رہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہوں گی۔ 
(روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 337)
“مسیح موعود” کی یہ علامت حضورﷺ نے بتائی ہے کہ وہ شادی بھی کرے گا اور اس کی اولاد بھی ہوگی۔ 
مرزا صاحب نے بھی اس سے یہی مراد لیا ہے کہ وہ مسیح موعود شادی کرے گا اور اولاد بھی ہوگی۔ 
مرزا صاحب نے 1891ء میں “مسیح موعود” ہونے کا دعوی کیا۔لیکن مرزا صاحب کی مسیح موعود کے دعوی کے بعد  کسی عورت سے نکاح نہیں ہوا۔پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب دعوی “مسیح موعود ” میں کذاب تھے۔ 
“مسیح موعود کی علامت نمبر 4”
مشکوۃ شریف میں ایک روایت موجود ہے جس میں “مسیح موعود” کی بہت سی  علامات بتائی گئی ہیں۔

عَن عبد الله بن عَمْرو ؓ قال:قال رَسُولُ اللَّهِﷺ:يَنْزِلُ عِيسَى بن مَرْيَمَ إِلَى الْأَرْضِ فَيَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ وَيَمْكُثُ خَمْسًا وَأَرْبَعِينَ سَنَةً ثُمَّ يَمُوتُ فَيُدْفَنُ مَعِي فِي قَبْرِي فأقوم أَنا وَعِيسَى بن مَرْيَمَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ بَيْنَ أَبَى بَكْرٍ وَعُمَرَ۔

ترجمہ
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“عیسیٰ بن مریم ؑ زمین پر نازل ہوں گے،شادی کریں گے اور ان کی اولاد ہو گی،وہ پینتالیس سال رہیں گے پھر فوت ہو جائیں گے۔انہیں میری قبر کے ساتھ ہی میرے قریب دفن کر دیا جائے گا۔میں اور عیسیٰ بن مریم،ابوبکر و عمر کے درمیان سے ایک ہی قبر سے کھڑے ہوں گے۔”
(مشکوۃ حدیث نمبر 5508 ٬ باب نزول عیسی علیہ السلام)
اس حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عیسی بن مریمؑ زمین پر اتر کر نکاح کریں گے۔اور ان کی اولاد بھی ہوگی۔اور وہ 45 سال زمین پر رہیں گے۔
مرزا صاحب کے کذاب ہونے کی چوتھی علامت کہ مسیح موعود نزول کے بعد 45 سال زمین پر رہیں گے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ 
اگر ہم مرزا صاحب کی تحریرات کا مطالعہ کریں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ مرزا صاحب نزول سے پیدائش بھی مراد لیتے ہیں اور دعوی مسیح موعود کا سال بھی مراد لیتے ہیں۔آیئے دونوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ 
مرزا صاحب لکھتے ہیں: 
“میرا یہ دعوی تو نہیں کہ کوئی مثیل مسیح پیدا نہیں ہو گا۔بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ کسی آئندہ زمانے میں دمشق میں کوئی مثیل مسیح پیدا ہو جائے۔”
(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 73 مندرجہ روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 138)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
“ہاں اس بات سے انکار نہیں کہ شاید پیشگوئی کے ظاہری معنوں کے لحاظ سے کوئی اور مسیح موعود بھی آیئندہ وقت میں پیدا ہوجائے۔” 
(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 78 مندرجہ روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 138)
“مسیح موعود” کی یہ علامت حضورﷺ  نے بتائی ہے کہ وہ دمشق میں نازل ہوگا اور  اس کی عمر 45 سال ہوگی۔ 
مرزا صاحب نے بھی اس نزول سے مراد مسیح موعود کی پیدائش لیا ہے۔ 
پس اس حساب سے مرزا صاحب اگر سچے “مسیح موعود” ہوتے تو ان کی عمر 45 سال ہونی چاہیے تھی۔لیکن مرزا صاحب کی عمر 78 سال تھی۔ 
ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کی عمر چونکہ مرزا  صاحب کے مطابق 45 سال ہونی چاہیے تھی جو کہ 78 سال ہوئی لہذا مرزا صاحب اس دعوی میں ” کذاب” تھے۔  
اگر نزول سے مراد سن دعوی “مسیح موعود” کیا جائے تو پھر بھی مرزا صاحب کذاب ثابت ہوتے ہیں۔آیئے مزید جائزہ لیتے ہیں۔ 
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
صحیح مسلم کی حدیث میں جو یہ لفظ موجود  ہے کہ حضرت مسیحؑ جب آسمان  سے اتریں گے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہوگا۔اس کی یہ معقول تعبیر ہو گی کہ حضرت مسیحؑ اپنے ظہور کے وقت یعنی اس وقت جب وہ “مسیح موعود” ہونے کا دعوی کریں گے۔بیمار ہوں گے۔ 
(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 81  مندرجہ روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 142)
اس عبارت میں نزول مسیح سے مراد دعوی مسیح موعود کا سال لیا ہے۔ 
مرزا صاحب نے 1891ء میں “مسیح موعود” ہونے کا دعوی کیا۔اس لحاظ سے مرزا صاحب کو دعوی مسیح موعود کے بعد 1891+ 45 = 1936 تک زندہ رہنا چاہیے تھا لیکن مرزا صاحب 1908 ء میں فوت ہوگئے۔پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب دعوی “مسیح موعود” میں کذاب تھے۔ 
“مسیح موعود کی علامت نمبر 5”
مشکوۃ شریف میں ایک روایت موجود ہے جس میں “مسیح موعود” کی بہت سی  علامات بتائی گئی ہیں۔

عَن عبد الله بن عَمْرو ؓ قال:قال رَسُولُ اللَّهِﷺ:يَنْزِلُ عِيسَى بن مَرْيَمَ إِلَى الْأَرْضِ فَيَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ وَيَمْكُثُ خَمْسًا وَأَرْبَعِينَ سَنَةً ثُمَّ يَمُوتُ فَيُدْفَنُ مَعِي فِي قَبْرِي فأقوم أَنا وَعِيسَى بن مَرْيَمَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ بَيْنَ أَبَى بَكْرٍ وَعُمَرَ۔

ترجمہ
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“عیسیٰ بن مریم ؑ زمین پر نازل ہوں گے،شادی کریں گے اور ان کی اولاد ہو گی،وہ پینتالیس سال رہیں گے پھر فوت ہو جائیں گے۔انہیں میری قبر کے ساتھ ہی میرے قریب دفن کر دیا جائے گا۔میں اور عیسیٰ بن مریم،ابوبکر و عمر کے درمیان سے ایک ہی قبر سے کھڑے ہوں گے۔”
(مشکوۃ حدیث نمبر 5508 ٬ باب نزول عیسی علیہ السلام)
اس حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عیسی بن مریمؑ زمین پر اتر کر نکاح کریں گے۔اور ان کی اولاد بھی ہوگی۔اور وہ 45 سال زمین پر رہیں گے۔اور آپ ﷺ کے مقبرے میں دفن ہوں گے۔ 
مرزا صاحب کے کذاب “مسیح موعود” ہونے کی پانچویں علامت یعنی عیسیؑ وفات کے بعد آپﷺ  کے مقبرے میں دفن ہوں گے۔اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ 
مرزا صاحب بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ میں ہی وہ مسیح موعود ہوں جو آپﷺ  کے مقبرے میں دفن ہوں گا۔ 
مرزا صاحب لکھتے ہیں: 
“آنحضرتﷺ  فرماتے ہیں کہ مسیح موعود میری قبر میں دفن ہوگا۔یعنی وہ میں (مرزا قادیانی) ہی ہوں۔”
(کشتی نوح صفحہ 15 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 16)
مرزا صاحب 1908ء میں لاہور میں فوت ہوئے اور قادیان میں دفن ہوئے۔ 
اگر مرزا صاحب سچے مسیح موعود ہوتے تو مرزا صاحب مدینہ منورہ میں حضورﷺ کے مقبرے میں دفن ہوتے۔لیکن مرزا جی کو وہاں دفن ہونا تو درکنار وہاں جانا بھی ساری زندگی نصیب نہیں ہوا۔پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب اپنے دعوی “مسیح موعود” میں کذاب تھے۔ 
“مسیح موعود کی علامت نمبر 6”
مسلم شریف میں کتاب الفتن میں ایک طویل روایت موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ “مسیح موعود” یعنی عیسیؑ جب تشریف لائیں گے تو ان کے آنے کے فورا بعد کچھ عرصے میں اسلام تمام مذاہب پر غالب آجائے گا۔اور پوری دنیا میں اسلام کا ہی بول بالا ہوگا۔  
(مسلم حدیث نمبر 7373 ٬ باب ذکر الدجال)
مرزا صاحب کا دعوی بھی مسیح موعود ہونے کا تھا۔اور مرزا صاحب بھی یہ تسلیم کرتے تھے کہ میری موجودگی میں ہی اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے گا۔آیئے جائزہ لیتے ہیں۔ 
مرزا صاحب نے ایک دفعہ اخبار “قلقل” بجنور کے ایڈیٹر قاضی نذر حسین کو ایک خط لکھا جس میں مرزا صاحب نے لکھا:
“جو لوگ خدا تعالی کی طرف سے آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنے مبعوث ہونے کی علت کو پالیتے ہیں۔اور نہیں مڑتے جب تک ان کی بعثت کی غرض ظہور میں نہ آجائے۔ 
میرا کام جس کے لئے میں اس میدان میں کھڑا ہوں وہ یہ ہے کہ عیسی پرستی کے ستون کو توڑدوں۔اور بجائے تثلیث کے توحید پھیلادوں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالت اور شان دنیا پر ظاہر کر دوں۔
پس اگر مجھ سے کروڑ نشان بھی ظاہر ہوں اور یہ علت ظہور میں نہ آوے تو میں جھوٹا ہوں۔ 
پس دنیا مجھ سے کیوں دشمنی کرتی ہے اور وہ میرے انجام کو کیوں نہیں دیکھتی۔ 
اگر میں نے اسلام کی حمایت میں وہ کام کر دکھایا جو مسیح موعود اور مہدی موعود کو کرنا چاہیے تو پھر میں سچا ہوں اور اگر کچھ نہ ہوااور میں مرگیا تو سب گواہ رہیں میں “جھوٹا” ہوں۔
(اخبار بدر قادیان نمبر 29  جلد نمبر 2 ۔۔۔ 19 جولائی 1906ء صفحہ 4)
ایک اور حوالہ ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔ 
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“اگر 7 سال کے عرصے میں میرے ہاتھ سے خدا کی تائید سے  اسلام کی خدمت میں نمایاں اثر ظاہر نہ ہوں اور جیسا کہ مسیح کے ہاتھ سے  ادیان باطلہ کا مرنا ضروری ہے یہ موت جھوٹے دینوں پر میرے ظہور سے نہ آوے یعنی خدا تعالٰی میرے ہاتھ سے وہ نشان ظاہر نہ کرے جس سے اسلام کا بول بالا ہواور جس سے ہر ایک طرف سے اسلام میں داخل ہونا شروع کر دیں اور عیسائیت کا باطل معبود فنا ہو جائے اور دنیا اور رنگ نہ پکڑجائے تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے تئیں کاذب خیال کرتا ہوں۔”
(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم صفحہ 30،31،32 روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 314،315،316) 
مرزا صاحب نے مزید لکھا ہے:
جب وہ  (مسیح موعود) آئے گا تو وہی زمانہ صلیبی مذہب کے تنزل کا ہوگا۔ 
(ایام الصلح صفحہ 53 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 285) 
مزید لکھا ہے:
میرے آنے کے 2 مقصد ہیں مسلمانوں کے لئے یہ کہ وہ سچے مسلمان ہوں اور عیسائیوں کے لئے کسر صلیب ہو۔اور ان کا مصنوعی خدا دنیا میں نظر نہ آئے۔ 
(اخبار الحکم 17 جولائی 1905ء)
پھر لکھا ہے:
“حدیث نے مسیح موعود کی حقیقی  علامت یہ بتائی ہے کہ اس کے ہاتھ پر کسر صلیب ہوگا۔”
(رسالہ دعوت قوم صفحہ 47 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 47)
اب جائزہ لیتے ہیں کہ مرزا صاحب اپنے مشن میں کس قدر کامیاب ہوئے۔۔۔۔۔۔ 
مرزا صاحب کی کامیابی کی داستان قادیانیوں کے سرکاری اخبار “الفضل” نے یوں بیان کی ہے:
“کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت ہندوستان میں عیسائیوں کے 137 مشن کام کر رہے ہیں۔ یعنی ہیڈ مشن۔ان کی برانچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ہیڈ مشن میں 1800 سے زائد پادری کام کر رہے ہیں۔ 
403 ہسپتال ہیں جن میں 500 ڈاکٹر کام کر رہے ہیں۔43 پریس ہیں جن میں 100 اخبارات مختلف زبانوں میں چھپتے ہیں۔ 
51 کالج،617 ہائی اسکول اور 61 ٹرینگ کالج ہیں۔جن میں 60000 طالب علم پڑھتے ہیں۔ 
مکتی فوج میں 308 یورپین اور 2886 ہندوستانی مناد کام کرتے ہیں۔ 
اس کے ماتحت 507 پرائمری اسکول ہیں جن میں 18675 طالب علم پڑھتے ہیں۔ 
18 بستیاں اور 11 اخبارات ان کے اپنے ہیں۔ اس فوج کے مختلف اداروں کے ضمن میں 3290 آدمیوں کی پرورش ہورہی ہے۔
اور ان سب کی کوششوں اور قربانیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ کہاجاتا ہے کہ روزانہ 224 مختلف مذاہب کے افراد عیسائی ہورہے ہیں۔
اس کے مقابلے میں مسلمان کیا کر رہے ہیں۔وہ تو اس کام کو شاید قابل توجہ بھی نہیں سمجھتے۔ 
احمدی جماعت کو سوچنا چاہئے کہ عیسائی مشنریوں کے اس قدر وسیع جال کے مقابلہ میں اس کی مساعی حیثیت کیا ہے۔ 
ہندوستان بھر میں ہمارے 24 مبلغ ہیں وہ بھی جن حالات میں کام کر رہے ہیں ان کو ہم خوب جانتے ہیں۔”
(اخبار الفضل قادیان 19 جون 1941ء صفحہ 4)
قادیانیوں کے سرکاری اخبار الفضل کی یہ شہادت مرزا صاحب کی وفات کے تقریبا 38 سال بعد کی ہے۔
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کے “دعوی مہدویت” یا “دعوی مسیحیت” سے عیسائیت کا کچھ نہ بگڑا۔اور نہ ہی اسلام کی شان ظاہر ہوئی۔ 
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب اپنے دعوی مہدویت اور دعوی مسیحیت میں “کذاب” ہیں۔ 
“مسیح موعود کی علامت نمبر 7”
یہ علامت کسی حدیث میں نہیں آئی کہ مسیح موعود کے وقت میں اونٹنیاں بیکار ہوجایئں گی۔لیکن مرزا صاحب نے اس کو مسیح موعود کی علامات میں سے لکھا ہے۔ اس لئے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ 
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“(حدیث میں) لکھا تھا کہ مسیح موعود کے وقت میں اونٹنیاں بیکار ہوجایئں گی۔”
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 116 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 281)
لیجئے مرزا صاحب نے خود تسلیم کر لیا کہ یہ مسیح موعود کی علامات میں سے ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں اونٹنیاں بیکار ہوجایئں گی۔ 
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر مرزا صاحب سچے مسیح موعود ہوتے تو ان کے وقت میں ہی اونٹنیاں بیکار ہوجاتیں لیکن آج مرزا صاحب کو فوت ہوئے 100 سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے۔ لیکن اونٹنیاں آج بھی بیکار نہیں ہوئیں۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کی پیش کردہ مسیح موعود کی  یہ علامت بھی جھوٹی نکلی اور مرزا صاحب دعوی مسیح موعود میں “کذاب” ثابت ہوگئے۔
“مسیح موعود کی علامت نمبر 8”
یہ علامت کسی حدیث میں نہیں آئی کہ مسیح موعود کے وقت میں مدینہ سے مکے کی طرف ریل کا سفر  شروع ہوجائے گا۔لیکن مرزا صاحب نے اس کو مسیح موعود کی علامات میں سے لکھا ہے۔اس لئے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ 
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
(حدیث میں) لکھا تھا کہ مسیح موعود کے وقت میں اونٹنیاں بیکار ہوجایئں گی اور اس میں یہ بھی اشارہ تھا کہ اس زمانے میں مدینے کی طرف سے مکہ تک ریل کی سواری ہوجائے گی۔ 
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 116 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 281)
لیجئے مرزا صاحب نے خود تسلیم کر لیا کہ یہ مسیح موعود کی علامات میں سے ہے کہ مدینہ سے مکہ کی طرف ریل کا سفر شروع ہوجائے گا۔ 
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر مرزا صاحب سچے مسیح موعود ہوتے تو ان کے وقت میں ہی مدینہ سے مکہ کی طرف ریل شروع ہوجاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کی پیش کردہ مسیح موعود کی  یہ علامت بھی جھوٹی نکلی اور مرزا صاحب دعوی مسیح موعود میں “کذاب” ثابت ہوگئے۔
“مسیح موعود کی علامت نمبر 9”
مسلم شریف میں ایک طویل روایت موجود ہے جس میں “مسیح موعود” کی بہت سی علامات بتائی گئی ہیں۔ان میں سے ایک علامت یہ ہے کہ مسیح موعود دمشق کے مشرقی طرف سفید منارے پر نازل ہوگا۔ 

إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ۔

حضورﷺ نے فرمایا:
جب اللہ تعالیٰ مسیح بن مریمؑ کو معبوث فرمادے گا۔وہ دمشق کے حصے میں ایک سفید مینار کے قریب دوکیسری کپڑوں میں دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے۔
(مسلم حدیث نمبر 7373 ٬ باب ذکر الدجال)
خود مرزا صاحب نے بھی اس حدیث کو تسلیم کیا ہے۔مرزا صاحب لکھتے ہیں:  
“ہاں دمشق میں عندالمنارہ اترنے کی حدیث مسلم میں موجود ہے۔” 
(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 142 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 172)
اس حدیث کے مطابق مسیح موعود کو دمشق کی مسجد کے  سفید مینارے پر نازل ہونا تھا۔ اگر مرزا صاحب سچے مسیح موعود ہوتے تو دمشق کی مسجد کے سفید مینارے پر نازل ہوتے۔لیکن مرزا صاحب چراغ بی بی کے گھر قادیان میں ہوئے۔ 
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب سچے “مسیح موعود” نہیں تھے بلکہ “کذاب” تھے۔
“مسیح موعود کی علامت نمبر 10”
مسلم شریف میں ایک طویل روایت موجود ہے جس میں “مسیح موعود” کی بہت سی علامات بتائی گئی ہیں۔ان میں سے ایک علامت یہ ہے کہ مسیح موعود دمشق کے مشرقی طرف سفید منارے پر نازل ہوگا۔ 

إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ۔

حضورﷺ نے فرمایا:
“جب اللہ تعالیٰ مسیح بن مریمؑ کو معبوث فرمادے گا۔وہ دمشق کے حصے میں ایک سفید مینار کے قریب دوکیسری کپڑوں میں دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے۔”
(مسلم حدیث نمبر 7373 ٬ باب ذکر الدجال) 
خود مرزا صاحب نے بھی اس حدیث کو تسلیم کیا ہے۔مرزا صاحب لکھتے ہیں:
“ہاں دمشق میں عندالمنارہ اترنے کی حدیث مسلم میں موجود ہے۔” 
(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 142 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 172)
اسی حدیث کی مرزا صاحب نے مزید تشریح یوں کی ہے:
“صحیح مسلم کی حدیث میں جو یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیحؑ جب آسمان سے اتریں گے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہوگا۔” 
(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 81 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 142)
اس حدیث اور مرزا صاحب کی تشریح سے پتہ چلا کہ مسیح موعود نے آسمان سے دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اترنا ہے۔
 اگر کوئی قادیانی کہے کہ اس حدیث میں تو آسمان کا لفظ نہیں لکھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں آسمان کا لفظ مرزا صاحب کو کہاں سے نظر آگیا؟؟جہاں سے مرزا جی کو آسمان کا لفظ نظر آیا ہے۔ہم بھی اسی کو مانتے ہیں۔  
مرزا صاحب کو اسی معیار پر پرکھیں تو مرزا صاحب پھر بھی “کذاب” ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ مرزا صاحب آسمان سے دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر نہیں اترے بلکہ “قادیان” میں چراغ بی بی کے گھر پیدا ہوئے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.