“ختم نبوتﷺ کورس”
(مفتی سعد کامران)
سبق نمبر 32
“مرزا صاحب اور منہاج نبوت”
عام طور پر قادیانی کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کو نبوت کے قرآنی معیار پر پرکھتے ہیں اگر مرزا صاحب نبوت کے معیار پر پورا اتریں تو اس کو سچا تسلیم کر لیں۔اور اگر مرزا صاحب نبوت کے معیار پر پورا نہیں اترتے تو مرزا صاحب کذاب ہیں۔
قادیانیوں کی یہ بات اصولی طور پر غلط ہے کیونکہ جب نبوت کا دروازہ حضورﷺ پر اللہ تعالٰی نے بند کر دیا ہے تو کسی نئے نبی کی گنجائش دین اسلام میں نہیں ہے۔اور جو کوئی بھی نئی نبوت کا دعوی کرے تو وہ کذاب ہے۔
لیکن آیئے قادیانیوں پر حجت تام کرنے کے لئے مرزا صاحب کو نبوت کے قرآنی معیار پر پرکھتے ہیں۔لیکن اس معیار پر پرکھنے سے پہلے مرزا صاحب کی اس بارے میں تحریرات پر نظر ڈالتے ہیں۔
1) مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“یہ سلسلہ بالکل منہاج نبوت پر قائم ہوا ہے۔اس کا پتہ اس طرز پر لگ سکتا ہے۔جس طرح انبیاء علیہم السلام کی حقانیت معلوم ہوئی۔”
(ملفوظات جلد 1 صفحہ 412 ملفوظ 26 دسمبر 1900ء پرانا ایڈیشن 5 جلدوں والا)
(ملفوظات جلد 2 صفحہ 47 ملفوظ 26 دسمبر 1900ء جدید ایڈیشن 2016ء)
2) مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“میں اپنے دعوی کو منہاج نبوت پر پیش کرتا ہوں۔منہاج نبوت پر جو طریق ثبوت کا رکھا ہوا ہے۔وہ مجھ سے جس کا جی چاہے لے لے۔”
(اخبار الحکم جلد 7 نمبر 7)
3) ایک اور جگہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“میرا سلسلہ منہاج نبوت پر قائم ہوا ہے۔اس منہاج کو چھوڑ کر جو اس کوآزمانا چاہے وہ غلطی پر ہے۔”
(اخبار الحکم جلد 8 نمبر 12 صفحہ 7)
مرزا صاحب کی ان تحریرات سے پتہ چلا کہ مرزا صاحب کو نبوت کے معیار پر پرکھنا چاہیئے۔اب مرزا صاحب کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے مرزا صاحب کو نبوت کے معیار پر پرکھتے ہیں۔
منہاج نبوت نمبر 1
قرآن پاک میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں۔
“اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ”
ترجمہ
“یہ رسول اس چیز پر ایمان لائے ہیں جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔اور تمام مسلمان بھی۔یہ سب اللہ پر، اس کے فرشتوں پر،اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں۔”
(سورہ البقرہ آیت 285)
مندرجہ بالا آیت سے پتہ چلا کہ رسول سب سے پہلے اپنے اوپر نازل ہونے والی وحی پر ایمان لاتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے۔یہ بات اس لئے بھی ہے کیونکہ جب تک کسی بندے کو خود پتہ نہ ہو کہ اس کی حیثیت کیا ہے تو وہ اپنے اختیارات کو کیا استعمال کر سکتا ہے؟
خود مرزا صاحب نے اس بارے میں لکھا ہے:
“نبی کے لئے اس کے دعوی اور تعلیم کی مثال ایسی ہے جیسا کہ قریب سے آنکھ چیزوں کو دیکھتی ہے اور ان میں غلطی نہیں کرتی۔اور بعض اجتہادی امور میں غلطی ایسی ہے۔جیسے دور کی چیزوں کو دیکھتی ہے۔”
(اعجاز احمدی ضمیمہ نزول مسیح صفحہ 25 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 134)
اسی کتاب کےاگلے صفحے پر مرزا صاحب نے یوں لکھا ہے:
“اصل بات یہ ہے کہ جس یقین کو نبی کے دل میں اس کی نبوت کے بارے میں بٹھایا جاتا ہے۔وہ دلائل تو آفتاب کی طرح چمک اٹھتے ہیں۔اور اس قدر تواتر سے جمع ہوئے ہیں کہ وہ امر بدیہی ہوجاتا ہے۔پھر بعض دوسری جزئیات میں اگر اجتہادی غلطی ہو بھی تو وہ اس یقین کو مضر نہیں ہوتی۔نبیوں اور رسولوں کو ان کے دعوی سے متعلق بہت نزدیک سے دیکھایا جاتا ہے۔اور اس میں اس قدر تواتر ہوتا ہے جس میں کچھ شک باقی نہیں رہتا۔”
(اعجاز احمدی ضمیمہ نزول مسیح صفحہ 26 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 135)
مرزا صاحب کی اس عبارت سے پتہ چلا کہ انبیاء کرامؑ کو اپنی نبوت کے بارے میں کسی بھی قسم کا کوئی شبہ نہیں رہتا۔
اب مرزا صاحب کی بعض تحریرات کو اس معیار پر پرکھتے ہیں۔
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“براہین احمدیہ میں بھی یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں۔چنانچہ صفحہ 498 میں صاف طور پر اس عاجز کو رسول کر کے پکارا گیا ہے۔پھر اسی کتاب میں یہ وحی اللہ ہے کہ خدا کا رسول نبیوں کے حلوں میں۔پھر اسی کتاب میں یہ وحی اللہ ہے کہ محمد الرسول اللہ۔۔۔۔ الخ۔اس وحی الہی میں میرا نام محمد رکھا گیا ہے اور رسول بھی۔اس طرح کئی جگہ رسول کے لفظ سے اس عاجز کو یاد کیا گیا۔”
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 1 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 207)
مرزا صاحب کی اس تحریر سے پتہ چلا کہ مرزا صاحب کو 1884ء میں پتہ چلا کہ مرزا صاحب رسول ہیں۔کیونکہ جس کتاب کا ذکر مرزا صاحب نے کیا ہے وہ براہین احمدیہ کی چوتھی جلد ہے اور وہ 1884ء میں چھپی تھی۔
لیکن 1884ء میں پتہ چلنے کے بعد بھی مرزا صاحب اپنی نبوت کا انکار کرتے رہے اور نبوت کا دعوی کرنے والے کو کافر سمجھتے رہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل تحریرات سے ثابت ہے۔
1896ء میں مرزا صاحب نے پادری آتھم کی وفات کے بعد انجام آتھم نامی کتاب لکھی۔ جس میں مرزا صاحب نے لکھا:
“مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کا بھائی، کافر، خبیث ہے۔”
(انجام آتھم صفحہ 28 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 28)
اس کے علاوہ مرزا صاحب نے جنوری 1897ء میں ایک اشتہار شائع کروایا جس میں لکھا تھا:
“ہم مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں۔وحی نبوت نہیں بلکہ وحی ولایت کے ہم قائل ہیں۔”
(مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 497)
مرزا صاحب کی ایک اور تحریر جس کا نام آسمانی فیصلہ ہے جو کہ جنوری 1892ء کی ہے اس میں مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔”
(آسمانی فیصلہ صفحہ 4 مندرجہ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 313)
3 فروری 1892ء میں مرزا صاحب نے ایک اشتہار میں لکھا:
“تمام مسلمانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس عاجز کے رسالہ فتح الاسلام،توضیح المرام،ازالہ اوہام میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنی سے نبی ہوتا ہے۔یا محدثیت جزوی نبوت یا ناقصہ نبوت ہے۔یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں بلکہ صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں کی رو سے بیان کئے گئے ہیں۔
ورنہ حاشا و کلا مجھے نبوت حقیقی کا ہرگز دعوی نہیں۔بلکہ میرا ایمان ہے کہ ہمارے سید و مولا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں۔سو تمام مسلمان اگر ان لفظوں سے ناراض ہیں۔
(جن میں جزوی نبوت وغیرہ کا دعوی ہے)
تو ان الفاظ کو ترمیم شدہ تصور فرماکر بجائے اس کے محدث کا لفظ میری طرف سے سمجھ لیں۔
اللہ خوب جانتا ہے کہ لفظ نبی سے مراد صرف محدث ہے۔جس کے آنحضرتﷺ نے صرف متکلم مراد لئے ہیں۔
قال النبیﷺ قدکان فیمن قبلکم من نبی اسرائیل رجال یکلمون من غیر ان یکون انبیاء۔
اور لفظ نبی کو کاٹا ہوا تصور فرمالیں۔
(مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 313)
اس کے علاوہ مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود احمد اپنی کتاب حقیقہ النبوتہ میں لکھتے ہیں:
“آپ کو براہین احمدیہ (1884ء) کے زمانے سے جو وحی ہورہی تھی اس میں آپ کو ایک دفعہ بھی مسیح سے کم نہیں کہا گیا۔بلکہ افضل ہی بتایا گیا تھا۔ لیکن آپ چونکہ اپنے آپ کو غیرنبی سمجھتے تھے اس کے معنی اور کرتے رہے۔بعد کی وحیوں نے آپ کی توجہ اس طرف پھیری کہ ان (پہلی) وحیوں کا مطلب یہی تھا کہ آپ مسیح سے افضل اور نبی ہیں۔
نبوت کا مسئلہ آپ پر 1900ء یا 1901ء میں کھلا ہے۔
1901ء میں آپ نے اپنے عقیدے میں تبدیلی کی ہے۔
1901ء سے پہلے کے وہ تمام حوالے جن میں آپ نے اپنے نبی ہونے سے انکار کیا ہے اب منسوخ ہیں۔
(حقیقة النبوة صفحہ 121)
مرزا صاحب اور ان کے بیٹے کی تحریرات سے درج ذیل باتیں ثابت ہوئیں۔
1) مرزا صاحب کے بقول 1884ء میں مرزا صاحب کو وحی ہوئی کہ وہ رسول ہیں۔
2) مرزا صاحب نے 1884ء کے بعد کئی جگہ یہ لکھا کہ میں نبوت کا مدعی نہیں ہوں اور حضورﷺ کے بعد نبوت کے مدعی کو کافر سمجھتا ہوں۔
3) 1901ء میں مرزا صاحب نے لکھا کہ میں نبی اور رسول ہوں۔
4) مرزا صاحب کے بیٹے کے مطابق مرزا صاحب کو 1901ء سے پہلے اپنے نبی ہونے کے بارے میں علم نہیں تھا۔
5) مرزا صاحب کے بیٹے کے مطابق 1901ء سے پہلے جتنی تحریرات میں مرزا صاحب نے اپنے نبی ہونے سے انکار کیا ہے وہ اب منسوخ ہیں۔
خلاصہ
جو قرآن کریم کی آیت اوپر پیش کی گئی تھی اس کے مطابق اور خود مرزا صاحب کی تحریرات کے مطابق نبی کو جب نبوت والی وحی ہوتی ہے تو اس وقت نبی کو اپنی نبوت کے متعلق علم ہوتا ہے۔اور اپنی نبوت پر ایمان ہوتا ہے۔
جبکہ مرزا صاحب اس قرآنی معیار پر پورا نہیں اترتے کیونکہ ایک طرف تو مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ 1884ء میں مجھے وحی میں رسول کہا گیا تھا اور دوسری طرف مرزا صاحب کی 1901ء تک کی تحریرات میں مرزا صاحب نےاپنے دعوی نبوت سے انکار بھی کیا ہے اور نبوت کے مدعی کو کافر بھی لکھا ہے۔
(جبکہ 1901ء میں دعوی نبوت کرکے خود دائرہ اسلام سے خارج بھی ہوگئے)
دوسرے الفاظ میں مرزا صاحب کو 16 سال تک اپنی الہامی وحی ہونے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ حالانکہ قرآنی معیار کے مطابق نبی کو جب اللہ نبوت والی وحی کرتے ہیں تو نبی اس کو سمجھ بھی لیتا ہے اور اس وحی پر ایمان بھی رکھتا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب چونکہ نبوت کے قرآنی معیار پر پورا نہیں اترتے لہذا مرزا صاحب اپنے دعوی نبوت میں “کذاب” ہیں۔
منہاج نبوت نمبر 2
قرآن پاک میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں۔
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمۡ”
ترجمہ
“ہم نے جب بھی کوئی رسول بھیجا،خود اس کی قوم کی زبان میں بھیجا۔تاکہ وہ ان کے سامنے حق کو اچھی طرح واضح کرسکے۔”
(سورہ ابراہیم آیت نمبر 4)
قرآن پاک میں ایک اور جگہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:
“وَ لَوۡ جَعَلۡنٰہُ قُرۡاٰنًا اَعۡجَمِیًّا لَّقَالُوۡا لَوۡ لَا فُصِّلَتۡ اٰیٰتُہٗ ؕ ءَؔاَعۡجَمِیٌّ وَّ عَرَبِیٌّ ؕ”
ترجمہ
“اگر ہم اس (قرآن)کو عجمی قرآن بناتے تو یہ لوگ کہتے کہ “اس کی آیتیں کھول کھول کر کیوں نہیں بیان کی گئیں؟”یہ کیابات ہے کہ قرآن عجمی ہے اور پیغمبر عربی؟”
(سورہ حم السجدہ آیت نمبر 44)
قرآن پاک کی ان آیات سے پتہ چلا کہ اللہ جس رسول کو بھی چنتے ہیں اس رسول کو انسانوں کی ہدایت کے لئے ہونے والی وحی اس کی مادری زبان میں ہوتی ہے۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نبی کی مادری زبان تو کوئی اور ہو اور اس نبی یا رسول کو انسانوں کی ہدایت کے لئے ہونے والی وحی کسی اور زبان میں ہو۔
خود مرزا صاحب نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے۔مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصلی زبان تو کوئی اور ہو اور اس کو الہام کسی اور زبان میں ہو۔جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔کیونکہ اس میں تکلیف مالا یطاق ہے۔اور ایسے الہام سے فائدہ کیا ہوا۔جو انسان کی زبان سے بالاتر ہو۔”
(چشمہ معرفت صفحہ 209 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 218)
لیکن مرزا صاحب کو عربی،سنسکرت،عبرانی اور انگلش وغیرہ میں بھی الہامات ہوتے رہے جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ مرزا صاحب اپنے دعوی نبوت میں “کذاب” ہیں۔
مرزا صاحب کو دوسری زبانوں میں ہونے والے چند الہامات ملاحظہ فرمائیں۔
1) ایلی ایلی لما سبقتنی۔ایلی اوس۔
اے میرے خدا! اے میرے خدا ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔آخری فقرہ اس الہام کا یعنی ایلی اوس بباعث سرعت ورود مشتبہ رہا۔اور نہ اس کے کچھ معنی کھلے ہیں۔
(تذکرہ صفحہ 71 طبع چہارم 2004ء)
2) پھر اس کے بعد خدا نے فرمایا “ھو شعنا نعسا” یہ دونوں فقرے شاید عبرانی ہیں۔اور ان کے معنی ابھی تک اس عاجز پر نہیں کھلے۔
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 557 مندرجہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 664)
(تذکرہ صفحہ 91 طبع چہارم 2004ء)
3) پریشن،عمربراطوس یا پلاطوس (نوٹ) آخری لفظ پڑطوس ہے یا پلاطوس۔بباعث سرعت الہام دریافت نہیں ہوا۔اور عمر عربی لفظ ہے۔اس جگہ براطوس اور پریشن کے معنی دریافت کرنے ہیں کہ کیا ہیں اور کس زبان کے یہ لفظ ہیں۔
(البشری جلد اول صفحہ 51)
(تذکرہ صفحہ 91 طبع چہارم 2004ء)
صرف یہی نہیں کہ دوسری زبانوں کے الہامات مرزا صاحب کی سمجھ سے بالاتر تھے بلکہ مرزا صاحب کو اپنی زبان کے بھی بعض الہام سمجھ نہیں آتے تھے۔
چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
1) ربنا عاج ہمارا رب عاجی ہے۔عاجی کے معنی ابھی تک معلوم نہیں ہوئے۔
(البشری جلد اول صفحہ 43)
(تذکرہ صفحہ79 ایڈیشن چہارم 2004ء)
2) “پیٹ پھٹ گیا۔”دن کے وقت کا الہام ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ کس کے متعلق ہے۔
(البشری جلد دوم صفحہ 119)
(تذکرہ صفحہ568 ایڈیشن چہارم 2004ء)
3) ایک دانہ کس کس نے کھانا۔
(البشری جلد دوم صفحہ 107)
(تذکرہ صفحہ507 ایڈیشن چہارم 2004ء)
خود مرزا صاحب نے بھی تسلیم کیا ہے کہ مرزا صاحب کو ایسی زبانوں میں الہام ہوتے ہیں جن کو مرزا صاحب نہیں جانتے۔
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ واقفیت نہیں۔جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ۔”
(نزول المسیح صفحہ 57 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 435)
(قادیانی اس پر ایک کمزور سا اعتراض کرتے ہیں کہ سلیمانؑ کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ “علمنا منطق الطیر”یعنی سلیمانؑ کو ہم نے پرندوں کی بولی سکھائی۔گویا سلیمانؑ کو کووں،چیلوں،بٹیروں کی زبان میں الہام ہوا۔ اگر سلیمانؑ کو جانوروں کی بولی میں الہام ہوسکتا ہے تو مرزا صاحب کو بھی دوسری زبانوں میں الہام ہوسکتا ہے۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ
قرآن میں انبیاء کرامؑ کی جس قومی زبان میں ہونے والی وحی کا ذکر ہے اس وحی سے مراد وہ وحی ہے جس سے وہ نبی اپنی قوم کو ہدایت دیتا ہے۔اگر تو سلیمانؑ پرندوں والی بولی سے ہونے والے الہام سے اپنی قوم کو ہدایت کی طرف بلاتے تھے تو قادیانیوں کی دلیل کو ہم قبول کرسکتے ہیں لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سلیمانؑ سمیت تمام نبی اپنی قوم کو ان کی مادری زبان میں ہی ہدایت کی طرف بلاتے تھے۔لہذا قادیانیوں کی یہ دلیل سوال گندم جواب چنا کے مصداق غلط ہے)
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب قرآن پاک کے معیار نبوت پر پورا نہیں اترتے بلکہ قرآن پاک کے معیار نبوت کے مطابق “کذاب” ہے۔کیونکہ قرآن کریم کا معیار نبوت تو یہ ہے کہ نبی کو الہام اس کی مادری زبان میں ہوتا ہے۔جبکہ مرزا صاحب کو الہام کئی زبانوں میں ہوتے تھے جن کی مرزا صاحب کو سمجھ بھی نہیں تھی۔
“منہاج نبوت نمبر 3”
قرآن پاک میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں۔
“لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعۡجَلَ بِہ۔اِنَّ عَلَیۡنَا جَمۡعَہٗ وَ قُرۡاٰنَہٗ۔ فَاِذَا قَرَاۡنٰہُ فَاتَّبِعۡ قُرۡاٰنَہٗ۔فَاِذَا قَرَاۡنٰہُ فَاتَّبِعۡ قُرۡاٰنَہٗ۔ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا بَیَانَہٗ۔”
ترجمہ
“(اے پیغمبر )آپ اس قرآن کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لئے اپنی زبان کو ہلایا نہ کریں۔یقین رکھیں کہ اس کو یاد کروانا اور پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے۔پھر جب ہم اسے (جبرائیلؑ کے واسطے سے ) پڑھ رہے ہوں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں۔پھر اس کی وضاحت بھی ہماری ذمہ داری ہے۔”
(سورة القیامة آیت نمبر 16 تا 19)
قرآن پاک کی ان آیات سے پتہ چلا کہ اللہ جب اپنے رسول کو انسانوں کی ہدایت کے لئے وحی کرتے ہیں اس کو سمجھاتے بھی ہیں۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نبی کو اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لئے کوئی وحی کی ہو اور اس نبی کو وہ وحی سمجھائی نہ ہو۔
مرزا صاحب نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے۔کہ میری وحی بھی باقی نبیوں کی طرح ہے۔
مرزا صاحب نےاپنے الہام کے بارے میں یوں لکھا ہے:
“وہ اسی رنگ کا مکالمہ ہے جس رنگ کا مکالمہ آدمؑ سے ہوا۔شیثؑ پھر نوحؑ پھر ابراہیمؑ پھر اسحاقؑ پھر اسمعیلؑ پھر یعقوبؑ پھر یوسفؑ پھر موسیؑ پھر داودؑ پھر سلیمانؑ پھر عیسی بن مریمؑ اور محمدﷺ سے ہوا۔
(نزول المسیح صفحہ 108 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 486)
اس کے علاوہ مرزا صاحب نے اپنے بارے میں لکھا ہے:
“مااناالاکالقرآن”
ترجمہ = میں تو بس قرآن کی طرح ہوں۔
(البشری جلد 2 صفحہ 119)
(تذکرہ صفحہ 570 طبع چہارم 2004ء)
اس کے علاوہ مرزا صاحب نے ایسے الہام جو کسی اور زبان میں ہوں اور سمجھ سے بالاتر ہوں ان کے بارے میں یوں لکھا ہے:
“یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصلی زبان تو کوئی اور ہو اور اس کو الہام کسی اور زبان میں ہو۔جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔کیونکہ اس میں تکلیف مالا یطاق ہے۔اور ایسے الہام سے فائدہ کیا ہوا۔جو انسان کی زبان سے بالاتر ہو۔”
(چشمہ معرفت صفحہ 209 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 218)
آیئے مرزا صاحب کے چند ایسے الہامات کا جائزہ لیتے ہیں جو مرزا صاحب کی سمجھ سے باہر ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ مرزا صاحب اپنے دعوی نبوت میں “کذاب” ہیں۔
1) ایلی ایلی لما سبقتنی۔ایلی اوس۔
اے میرے خدا! اے میرے خدا ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔آخری فقرہ اس الہام کا یعنی ایلی اوس بباعث سرعت ورود مشتبہ رہا۔اور نہ اس کے کچھ معنی کھلے ہیں۔
(البشری جلد اول صفحہ 63)
(تذکرہ صفحہ 71 طبع چہارم 2004ء)
2) پھر اس کے بعد خدا نے فرمایا “ھو شعنا نعسا” یہ دونوں فقرے شاید عبرانی ہیں۔اور ان کے معنی ابھی تک اس عاجز پر نہیں کھلے۔
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 557 مندرجہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 664)
(تذکرہ صفحہ 91 طبع چہارم 2004ء)
3) پریشن،عمربراطوس یا پلاطوس (نوٹ) آخری لفظ پڑطوس ہے یا پلاطوس۔بباعث سرعت الہام دریافت نہیں ہوا۔اور عمر عربی لفظ ہے۔اس جگہ براطوس اور پریشن کے معنی دریافت کرنے ہیں کہ کیا ہیں اور کس زبان کے یہ لفظ ہیں۔
(البشری جلد اول صفحہ 51)
(تذکرہ صفحہ 91 طبع چہارم 2004ء)
4) ربنا عاج ہمارا رب عاجی ہے۔عاجی کے معنی ابھی تک معلوم نہیں ہوئے۔
(البشری جلد اول صفحہ 43)
(تذکرہ صفحہ79 ایڈیشن چہارم 2004ء)
5) “پیٹ پھٹ گیا۔”دن کے وقت کا الہام ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ کس کے متعلق ہے۔
(البشری جلد دوم صفحہ 119)
(تذکرہ صفحہ568 ایڈیشن چہارم 2004ء)
6) ایک دانہ کس کس نے کھانا۔
(البشری جلد دوم صفحہ 107)
(تذکرہ صفحہ507 ایڈیشن چہارم 2004ء)
7) احد من العالمین
مراد زمانہ حال کے لوگ ہیں یا آیئندہ زمانے کے واللہ اعلم بالصواب
(البشری جلد 2 صفحہ 15)
8) لایموت احد من رجالکم
تمہارے مردوں میں سے کوئی نہیں مرے گا۔ اس کے حقیقی معنی تو نہیں ہوسکتے۔مگر مفہوم کا پتہ نہیں۔شاید کوئی اور معنی ہوں۔
(البشری جلد دوم صفحہ 78)
(تذکرہ صفحہ 377 طبع چہارم 2004ء)
9) میں ان کو سزادوں گا۔میں اس عورت کو سزا دوں گا۔
معلوم نہیں یہ کس کے متعلق ہے۔
(تذکرہ صفحہ464 طبع چہارم 2004ء)
10) بعد 11 انشاء اللہ۔
اس کی تفہیم نہیں ہوئی کہ اس سے کیا مراد ہے۔
(تذکرہ صفحہ 327 طبع چہارم 2004ء)
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کو چونکہ اپنے بہت سے الہاموں کی سمجھ نہیں آتی تھی اور مرتے دم تک ان الہاموں کی سمجھ نہیں آئی لہذا مرزا صاحب قرآن پاک کے معیار نبوت پر پورا نہیں اترتے بلکہ قرآن پاک کے معیار نبوت کے مطابق “کذاب” ہیں۔کیونکہ قرآن کریم کا معیار نبوت تو یہ ہے کہ نبی کو جو الہام ہوتا ہے اس الہام کو سمجھانا اللہ کے ذمے ہوتا ہے۔جبکہ مرزا صاحب کو کئی الہام ایسے ہوئے ہیں جن کی مرزا صاحب کو سمجھ بھی نہیں تھی۔
“منہاج نبوت نمبر 4”
مرزا صاحب نے ایک معیار نبوت خود سے لکھا ہے آیئے مرزا صاحب کو اسی معیار پر پرکھتے ہیں۔
“رسولوں کی تعلیم اور اعلام کے لئے یہی سنت اللہ قدیم سے جاری ہے جو بواسطہ جبرائیلؑ کے بذریعہ نزول آیت ربانی اور کلام رحمانی سکھلائے جاتے ہیں۔”
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 584 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 415)
ایک اور جگہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“ممکن نہیں کہ دنیا میں ایک رسول اصلاح خلق اللہ آوے اور اس کے ساتھ وحی الہی اور جبرائیلؑ نہ ہوں۔”
*(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 578 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 412 )*
مرزا صاحب کی ان تحریرات سےدرج ذیل باتیں پتہ چلیں۔
1) اللہ کا طریقہ یہ ہے جتنے بھی اللہ کے رسول آئے ہیں ان کو جبرائیلؑ کے واسطے سے وحی ہوتی تھی۔
2) ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ دنیا میں ایک رسول لوگوں کی اصلاح کے لئےآئے اور اس کے ساتھ وحی الہی اور جبرائیلؑ نہ ہوں۔
لیکن مرزا صاحب کو پوری زندگی میں ایک دفعہ بھی جبرائیلؑ کے واسطے سے وحی نہیں ہوئ۔بلکہ مرزاقادیانی کو ٹیچی ٹیچی،مٹھن لال،خیراتی کے واسطے سے وحی ہوتی تھی جن کے ناموں سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شیطان کی طرف سے وحی لاتے تھے۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب اپنے دعوی نبوت میں “کذاب” ہیں کیونکہ مرزا صاحب کے بیان کردہ معیار نبوت کے مطابق رسولوں کو وحی جبرائیلؑ کے واسطے سے ہی ہوتی تھی جبکہ مرزا صاحب کو ایک دفعہ بھی جبرائیلؑ کے واسطے سے وحی نہیں ہوئی۔
“منہاج نبوت نمبر 5”
مرزا صاحب نے ایک معیار نبوت خود سے لکھا ہے آیئے مرزا صاحب کو اسی معیار پر پرکھتے ہیں۔
“انبیاء کرامؑ کی نسبت یہ بھی ایک سنت اللہ ہے کہ وہ اپنے ملک سے ہجرت کرتے ہیں۔جیسا کہ صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔”
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 180 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 350)
ایک اور جگہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“کوئی بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے لئے ہجرت نہ ہو۔”
(ملفوظات جلد 2 صفحہ 408)
مرزا صاحب کی ان تحریرات سے ثابت ہوا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے ہجرت نہ کی ہو۔ دوسرے الفاظ میں مرزا صاحب نے نبوت کا یہ معیار بیان کیا ہے کہ نبی ہجرت ضرور کرتا ہے اور کوئی ایک نبی بھی ایسا نہیں گزرا جس نے ہجرت نہ کی ہو۔اور نبیوں کا ہجرت کرنا سنت اللہ ہے۔
لیکن مرزاجی اپنے ہی بیان کئے گئے اس معیار نبوت پر بھی پورا نہیں اترے بلکہ “کذاب”ثابت ہوئے کیونکہ مرزا صاحب نے ساری زندگی ہجرت نہیں کی۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب اپنے دعوی نبوت میں “کذاب” ہیں کیونکہ مرزا صاحب کے بیان کردہ معیار نبوت کے مطابق کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے ہجرت نہ کی ہو۔اور یہ نبیوں کی ہجرت کرنا سنت اللہ میں سے ہے۔جبکہ مرزا صاحب کا ساری زندگی ہجرت نہ کرنا خود مرزا صاحب کو اپنے ہی اصول کے مطابق “کذاب” ثابت کر گیا۔
“منہاج نبوت نمبر 6”
مرزا صاحب نے ایک معیار نبوت خود سے لکھا ہے آیئے مرزا صاحب کو اسی معیار پر پرکھتے ہیں۔
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“انہ لم یکن نبی الا عاش نصف الذی قبلہ و اخبرنی ان عیسی ابن مریم عاش عشرین و مئاتہ سنتہ فلا ارانی الا ذاھب علی راس الستین واعلمو ایھا الاخوان ان ھذا الحدیث صحیح ورجالہ ثقات ولہ طرق۔”
(آنحضرتﷺ نے فرمایا مجھے جبرائیلؑ نے خبردی ہے) کہ ہر نبی اپنے سے پہلے نبی سے نصف عمر پاتا رہا ہے اور اس نے مجھے بتایا کہ عیسیؑ ایک سو بیس سال زندہ رہے۔پس میں خیال کرتا ہوں کہ ساٹھ سال کا میں اس جہان سے رحلت کرجاوں گا۔
(مرزا جی آگے لکھتے ہیں ) کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کے سب راوی بالکل ثقہ ہیں۔ اور معتبر ہیں۔اور اس کی بہت سی سندیں ہیں۔”
(حمامةالبشری صفحہ 26 مندرجہ روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 207)
مرزا صاحب کی اس تحریر سے درج ذیل باتیں ثابت ہوئیں۔
1) ہر نبی اپنے سے پہلے نبی سے آدھی عمر پاتا ہے۔
2) یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔
3) اس حدیث کے تمام راوی بالکل ثقہ ہیں۔ اور معتبر ہیں۔
معزز قارئین مرزا صاحب کے بیان کردہ اس معیار کے مطابق اگر مرزا صاحب کا دعوی نبوت سچا ہوتا تو مرزا جی کی عمر 30 سال ہونی تھی جبکہ مرزا صاحب کی عمر تقریبا 69 سال تھی۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب اپنے دعوی نبوت میں “کذاب” ہے کیونکہ مرزا صاحب کے بیان کردہ معیار نبوت کے مطابق مرزا صاحب کی عمر 30 سال ہونی چاہیئے تھی جبکہ مرزا صاحب کہ عمر 69 سال تھی۔اس طرح مرزا صاحب کی عمر کا 69 سال ہونا مرزا صاحب کو اپنے ہی اصول کے مطابق “کذاب” ثابت کر گیا۔
“منہاج نبوت نمبر 7”
بخاری میں ایک روایت موجود ہے کہ
“عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؓ،عَنِ النَّبِيِّﷺ،قَالَ:”مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا رَعَى الْغَنَمَ، فَقَالَ أَصْحَابُهُ: وَأَنْتَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، كُنْتُ أَرْعَاهَا عَلَى قَرَارِيطَ لِأَهْلِ مَكَّةَ۔”
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
“اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔اس پر آپ ﷺ کے صحابہ ؓ نے پوچھا کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ فرمایا کہ ہاں! کبھی میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط کی تنخواہ پر چرایا کرتا تھا۔”
(بخاری حدیث نمبر 2262 ٬ باب روی الغنم علی قراریط)
اس روایت سے پتہ چلا کہ بکریاں چرانا سارے انبیاء کرامؑ کی سنت ہے اور کوئی بھی نبی ایسا نہیں ہے جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔
اب اس معیار نبوت پر اگر مرزا صاحب کو پرکھیں تو مرزا جی پھر بھی کذاب ثابت ہوتے ہیں کیونکہ مرزا صاحب نے ساری زندگی اجرت پر بکریاں نہیں چرائیں۔پس مرزا صاحب اس معیار نبوت پر بھی پورے نہیں اترے اور “کذاب” ثابت ہوئے۔
“منہاج نبوت نمبر 8”
حضورﷺ نے ایک معیار نبوت بتایا ہے کہ ہر نبی وہاں فوت ہوتا ہے جہاں وہ دفن ہونا پسند کرے۔چنانچہ حضورﷺ کو اسی مقام پر دفن کیا گیا جہاں آپﷺ کی وفات ہوئی۔
عَنْ عَائِشَةَ ؓ،قَالَتْ:لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِﷺ اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ،فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ شَيْئًا مَا نَسِيتُهُ، قَالَ:مَا قَبَضَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُدْفَنَ فِيهِ۔ادْفِنُوهُ فِي مَوْضِعِ فِرَاشِهِ۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کی تدفین کے سلسلے میں لوگوں میں اختلاف ہوا۔ابوبکر ؓ نے کہا:میں نے رسول اللہﷺ سے ایک ایسی بات سنی ہے جو میں بھولا نہیں ہوں،آپﷺ نے فرمایا:
“جتنے بھی نبی ہوئے ہیں اللہ نے ان کی روح وہیں قبض کی ہے جہاں وہ دفن کیا جانا پسند کرتے تھے (اس لئے) تم لوگ انہیں ان کے بستر ہی کے مقام پر دفن کرو۔”
(ترمذی حدیث نمبر 1018 ٬ ابواب الجنائز عن رسول اللہﷺ)
مرزا صاحب اس معیار پر بھی پورا نہیں اترتے۔ کیونکہ مرزا صاحب کی وفات لاہور میں وقتی بیت الخلاء میں دست کرتے ہوئے ہوئی۔اور مرزا قادیانی کو قادیان میں دفن کیا گیا۔اگر مرزا قادیانی سچے نبی ہوتے تو ان کی وفات وقتی بیت الخلاء میں نہ ہوتی۔اور تدفین لاہور میں وقتی بیت الخلاء میں ہوتی۔جہاں ان کی وفات ہوئی۔
“منہاج نبوت نمبر 9”
ہر نبی اچھے اخلاق والا ہوتا ہے۔نبی کبھی بھی بدزبان اور اپنے مخالفین کو گالیاں نکالنے والا یا بدزبانی کرنے والا نہیں ہوتا۔
صحابہ کرام ؓ بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيَّ، يَقُولُ:سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِﷺ،فَقَالَتْ:لَمْ يَكُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا، وَلَا صَخَّابًا فِي الْأَسْوَاقِ،وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ،وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَصْفَحُ۔
“حضرت ابو عبداللہ جدلی سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ ؓ سے رسول اللہﷺ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا:آپﷺ فحش گو،بدکلامی کرنے والے اور بازار میں چیخنے والے نہیں تھے،آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے،بلکہ عفو و درگزر فرما دیتے تھے۔”
(ترمذی حدیث نمبر 2016 ٬ باب ما جاء فی خلق النبیﷺ)
اس کے علاوہ حضورﷺ نے فرمایا
عَنْ جَابِرٍ ؓ،أَنّ رَسُولَ اللَّهِﷺ قَالَ:إِنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبِكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَاسِنَكُمْ أَخْلَاقًا، وَإِنَّ أَبْغَضَكُمْ إِلَيَّ وَأَبْعَدَكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الثَّرْثَارُونَ وَالْمُتَشَدِّقُونَ،قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ عَلِمْنَا الثَّرْثَارُونَ،وَالْمُتَشَدِّ قُونَ،فَمَا الْمُتَفَيْهِقُونَ ؟ قَالَ: الْمُتَكَبِّرُونَ۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“میرے نزدیک تم میں سے (دنیا میں) سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں بہترین اخلاق والے ہیں،اور میرے نزدیک تم میں (دنیا میں) سب سے زیادہ قابل نفرت اور قیامت کے دن مجھ سے دور بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو باتونی،بلااحتیاط بولنے والے،زبان دراز اور تکبر کرنے والے «متفيهقون» ہیں،صحابہ نے عرض کیا:اللہ کے رسول! ہم نے «ثرثارون» (باتونی)اور «متشدقون» (بلااحتیاط بولنے والے) کو تو جان لیا لیکن کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: “تکبر کرنے والے”
(ترمذی حدیث نمبر 2018 ٬ باب ماجاء فی معالی الاخلاق)
خود مرزا صاحب نے بھی لکھا ہے:
“گالیاں دینا اور بدزبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے۔”
(اربعین نمبر صفحہ 5 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 471)
ایک اور جگہ مرزا قادیانی نے لکھا ہے:
“ناحق گالیاں دینا سفلوں اور کمینوں کا کام ہے۔”
(ست بچن صفحہ 21 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 133)
مرزا صاحب نے ایک اور جگہ لکھا ہے:
“اخلاقی معلم کا فرض ہے کہ پہلے آپ اخلاق کریمہ دکھلاوے۔”
(چشمہ مسیحی صفحہ 15 مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 346)
اس کے علاوہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“لعنت بازی کرنا صدیقوں کا کام نہیں۔مومن لعان نہیں ہوتا۔”
(ازالہ اوہام صفحہ 660 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 456)
مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود نے لکھا ہے:
“بالکل صحیح بات ہے کہ جب انسان دلائل سے شکست کھاتا اور ہار جاتا ہے تو گالیاں دینی شروع کر دیتا ہے۔اور جس قدر کوئی زیادہ گالیاں دیتا ہے۔اسی قدر اپنی شکست کو ثابت کرتا ہے۔”
(انوار خلافت صفحہ 9 جدید ایڈیشن 2016ء)
حضورﷺ کی احادیث اور مرزا صاحب اور اس کے بیٹے کی تحریرات سے درج ذیل باتیں ثابت ہوئیں۔
1) حضور ﷺ فحش گو،بدکلامی کرنے والے اور بدی کا بدلہ بدی سے نہیں دیتے تھے۔
2) جو لوگ باتونی،تکبر کرنے والے اور بداخلاق ہیں وہ قیامت کے دن حضورﷺ سے دور ہوں گے۔
3) ایک معلم کو اچھے اخلاق والا ہونا چاہئے۔
4) گالی دینا اور لعنت بازی کرنا صدیقوں کا کام نہیں۔
5) مومن گالی دینے والا نہیں ہوتا۔
6) ناحق گالیاں دینا سفلوں اور کمینوں کا کام ہے۔
7) جب کوئی دلائل سے شکست کھا جاتا ہے تو وہ گالیاں دینا شروع کردیتا ہے۔
8) جو جتنی زیادہ گالیاں دے گا۔وہ اتنا ہی زیادہ شکست خوردہ ہوتا ہے۔
مرزا صاحب کا دعوی تھا کہ وہ نعوذ باللہ حضورﷺ کا سایہ ہے۔یعنی حضورﷺ کے سارے کمالات مرزا قادیانی میں ہیں۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا مرزا صاحب اچھے اخلاق والا تھا یا بدزبانی کرنے والا اور گالیاں دینے والا تھا؟
کیونکہ اگر مرزا صاحب سچا نبی اور حضورﷺ کا ظل تھا تو مرزا صاحب کو اچھے اخلاق والا اور برائی کا بدلہ برائی سے نہ دینے والا ہونا چاہیے تھا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ نبوت کا ایک وصف اچھا اخلاق،گالیاں نہ دینا اور برائی کا بدلہ برائی سے نہ دینا بھی ہے۔آئیے مرزا صاحب کو اسی معیار پر پرکھتے ہیں۔
آپﷺ تو یقینا فحش پسند نہیں تھے۔
لیکن ایک جھوٹا مدعی نبوت جس کا نام مرزا غلام احمد قادیانی ہے وہ کس قدر فحش پسند تھا۔
ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔
ایک بات قارئین ذہن میں رکھیں کہ میں مرزا صاحب کی گالیوں کا محاسبہ نہیں کر رہا بلکہ صرف اس کی فحش زبان کو پیش کر رہا ہوں۔
یہ زبان ایک اللہ والے کی نہیں ہوسکتی۔
اس تحریر میں مرزا صاحب کی الف سے لے کر ی تک گالیاں جمع ہیں۔مرزا صاحب نے حروف تہجی میں سے کسی حرف کی گالی کو نہیں چھوڑا۔تمام نقل کی ہیں۔ویسے تو مرزا صاحب کی گالیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے لیکن میں بطور نمونہ مرزا صاحب کی گالیوں کے چند نمونے آپکے سامنے پیش کرتا ہوں۔
پڑھئے اور سر دھنئے ۔۔۔۔۔
الف
1۔ “اے مردار خور مولویو۔”
( خزائن ج11ص305)
2۔ اندھیرے کے کیڑو۔
(خزائن ج11 ص305)
3۔ “اے اندھو۔”
(خزائن ج11 ص310)
4۔ “اے بدذات۔
(خزائن ج11 ص329)
5۔ “اے خبیث۔”
(خزائن ج11 ص329)
ب، پ
1۔ “پلید جاہلوں۔”
(خزائن ج4 ص414)
2۔ “بداخلاقی اور بدظنی میں غرق ہونے والو۔”
(خزائن جلد 14ص 320)
3۔ “بدقسمت بدگمانو۔”
(خزائن ج14 ص341)
4۔ بدتر۔”
(خزائن ج14 ص413)
5۔ “پلید تر۔”
(خزائن ج14 ص413)
6۔ پلید ملاؤں۔
(خزائن ج15 ص413)
7۔ پلید دل۔
(خزائن ج11 ص288)
8۔ ” پاگل۔”
(خزائن ج18ص442)
9۔ “پربدعت زاہدو۔”
(خزائن ج3 ص157)
10۔ ’’پلیدوں۔”
(خزائن ج11 ص308)
ت
1۔ “تفقہہ سے سخت بے بہرہ۔”
(خزائن 5 ص308)
2۔ تجھ سے زیادہ بدبخت کون۔”
(خزائن ج21 ص325)
3۔ “توصبح کو الّو کی طرح اندھا ہو جاتا ہے۔”
(خزائن ج21 ص332)
4۔ تو ملعون۔”
(خزائن ج19 ص188)
5۔ “تکبر کا کیڑا۔”
(خزائن ج7ص63)
ث
1۔ ثناء اﷲ کو علم اور ہدایت سے ذرہ مس نہیں۔”
(خزائن ج19 ص155)
2۔ “ثناءﷲ تجھے جھوٹ کا دودھ پلایا گیا۔”
(خزائن ج19 ص163)
ج، چ
1۔”جاہل۔”
(خزائن ج14 ص354)
2۔ “جاہل سجادہ نشین۔”
(خزائن ج 11ص302)
3۔ جھوٹے۔”
(خزائن ج11 ص28)
4۔ جنگل کے وحشی
(خزائن ج11 ص333)
5۔ “جارغوی۔”
(خزائن ج11 ص241)
6۔ “چارپائے ہیں نہ آدمی۔”
(خزائن ج11ص294)
7۔ “چال باز۔”
(خزائن ج7 ص65)
8۔ “چور”
(خزائن ج10 ص12)
9۔ “چالاک حاسدوں۔”
(خزائن ج8 ص306)
ح
1۔ “حاسد۔”
(خزائن ج14 ص322)
2۔ ’’حرامی۔”
(خزائن ج6 ص380)
3۔ “حرام زادہ۔”
(خزائن ج9 ص32)
4۔ “حرامی لڑکے۔”
(خزائن ج22 ص446)
5۔ “حق پوش۔”
(خزائن ج6 ص383)
خ
1۔ “خبیث طبع۔”
(خزائن ج11 ص305 حاشیہ)
2۔ “خنزیر سے زیادہ پلید۔”
(خزائن ج11 ص305)
3۔ “خبیث طبع۔”
(خزائن ج11 ص305)
4۔ “خالی گدھے۔”
(خزائن ج11 ص331)
5۔ “خشک زاہد۔”
(خزائن ج3 ص105)
د، ذ
1۔ “دنیا کے کتے۔”
(خزائن ج12 ص128)
2۔ “دجال اکبر۔”
(خزائن ج11 ص47)
3۔ “دابۃ الارض علماء السؤ۔”
(خزائن ج7 ص308)
4۔ “ذریت شیطان۔”
(خزائن ج11 ص308)
5۔ “ذلیل۔”
(خزائن ج14 ص414)
ر،ز
1۔ “رنڈیوں کی اولاد۔”
(خزائن ج5 ص548)
2۔ رئیس المتکبرین۔”
(خزائن ج5 ص599)
3۔ “زیادہ پلید۔”
(خزائن ج11 ص305)
4۔ “زود رنج۔”
(خزائن ج14 ص320)
5۔ “ژاژخائ۔”
(خزائن ج11 ص303)
س، ش
1۔ “سوروں”
(خزائن ج11 ص337)
2۔ “سیاہ داغ۔”
(خزائن ج11 ص337)
3۔ “شیطان۔”
(خزائن ج11 ص288)
4۔ “شیاطین الانس۔”
(خزائن ج11 ص302)
5۔ “شقی”
(خزائن ج11 ص252)
ص،ض
1۔ “ضال بطالوی۔”
(خزائن ج11 ص241)
2۔ “ضال۔”
(خزائن ج8 ص96)
3۔ “ضلالت پیشہ۔”
(خزائن ج22 ص324)
4۔ “صریح بے ایمانی۔”
(خزائن ج14 ص326)
ط،ظ
1۔ “طوائف۔”
(خزائن ج11 ص307)
2۔ “ظالم طبع۔”
(خزائن ج17 ص238)
3۔ “ظالم۔”
(خزائن ج11 ص332)
4۔ “ظالم معترض۔”
(خزائن ج21 ص182)
ع،غ
1۔ “عبدالشیطٰن۔”
(خزائن ج11 ص342)
2۔ “عجب نادان۔”
(خزائن ج22 ص551)
3۔ “عجیب بے حیائ۔”
(خزائن ج22 ص587)
4۔ “غالون۔”
(خزائن ج11 ص224)
5۔ “غبی۔”
(خزائن ج11 ص317)
ف،ق
1۔ “فقیری اور مولویت کے شترمرغ۔”
(خزائن ج11 ص302)
2۔ “فاسق آدمی۔”
(خزائن ج22 ص445)
3۔ “فریبی۔”
(خزائن ج19 ص160)
4۔ “فرومایہ۔”
(خزائن ج19 ص188)
5۔ “قوم کے خناسوں”
(خزائن ج11 ص17)
ک،گ
1۔ “کوتاہ اندیش علمائ۔”
(خزائن ج14 ص316)
2۔ “کیڑو۔”
(خزائن ج11 ص305)
3۔ “کتے۔”
(خزائن ج12 ص128)
4۔ “گدھے۔”
(خزائن ج11 ص331)
5۔ “گندی روحو۔”
(خزائن ج11 ص305)
ل، م
1۔ “لاف وگزاف کے بیٹے۔”
(خزائن ج21 ص317)
2۔ “لئیموں۔
(خزائن ج22 ص445)
3۔ “ملعون۔”
(خزائن ج22 ص445)
4۔ “مفسد۔”
(خزائن ج22 ص445)
5۔ “متعصب نادان۔”
(خزائن ج21 ص182)
ن
1۔ “نجاست خور”
(خزائن ج 18 ص 386)
2۔ “نفاق زدہ”
(خزائن ج 11 ص 24)
3۔ “ناپاک طبع”
(خزائن ج 14 ص 413)
4۔ “نالائق چیلوں”
(خزائن ج 9 ص 285)
5۔ “نابکاروں”
(خزائن ج11 ص308)
و،ہ
1۔ “وحشی “
(خزائن ج11 ص333)
2۔ “وہ گدھا ہے نا انسان”
(خزائن ج11 ص331)
3۔ “ولدالحرام”
(خزائن ج 9 ص 30)
4۔ “ہمچو گرگ”
(خزائن ج19 ص352)
5۔ “ہٹ دھرم”
( مجموعہ اشتہارات ج 2 ص 76)
ی،یے
1۔ “یہودی صفت”
(خزائن ج11 ص287)
2۔ “یاوہ گوہ”
(خزائن ج 11 ص303)
3۔ “یہودی سیرت”
(خزائن ج 11 ص 24)
4۔ “یک چشم “
(خزائن ج 11 ص 308)
5۔ “یا غول البراری”
(خزائن ج 7 ص152)
اب مرزا صاحب کی اللہ تعالٰی،انبیاء کرام علیہم السلام،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں کی گئی بدزبانی کے چند نمونے ملاحظہ کریں۔
“مرزا صاحب کی اللہ تعالٰی کی شان میں کی گئی گستاخیاں”
گستاخی نمبر 1
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“خدا روزہ بھی رکھتا ہے اور افطار بھی کرتا ہے۔”
(حقیقةالوحی صفحہ 104 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 107)
(اللہ تعالٰی تو ایسی چیزوں سے پاک ہے لیکن مرزا صاحب جیسا دجال اللہ رب العزت کو انسانوں سے تشبیہ دے رہا ہے۔کیونکہ روزہ وغیرہ رکھنا تو انسانوں کا کام ہے نہ اس کا جس نے انسانوں کو پیدا فرمایا ہے)
گستاخی نمبر 2
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“خدا خطا(گناہ) بھی کرتا ہے اور صواب (نیکی) بھی کرتا ہے۔”
(حقیقةالوحی صفحہ 103 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 106)
(اللہ رب العزت کی ذات تو “لا یضل ربی ولا ینسی” ہے۔یعنی اللہ تعالٰی نہ بھکتا ہے اور نہ بھولتا ہے لیکن مرزا صاحب جیسے دجال نے اللہ تعالٰی کو بھی نہیں چھوڑا بلکہ اللہ رب العزت جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے ہر چیز کا خالق ہے اس کے بارے میں بھی مرزا صاحب جیسا دجال لکھتا ہے کہ وہ نیکی بھی کرتا ہے اور گناہ بھی۔آپ خود سوچیں کہ مرزا صاحب سے بڑا کوئی اللہ تعالٰی کا گستاخ ہوگا؟؟؟)
گستاخی نمبر 3
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“خدا نےمجھے کہا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔”
(دافع البلاء صفحہ 8 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 228)
(اللہ رب العزت تو فرماتے ہیں” لم یلد ولم یولد ” نہ اس نے کسی کو جنا نہ وہ کسی سے جنا گیا۔ لیکن مرزا صاحب یہاں بھی اللہ تعالٰی کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے لکھتے ہیں میں اللہ تعالٰی سے ہوں (نعوذ باللہ)
گستاخی نمبر 4
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“خدا نے مجھے اپنا بیٹا کہا ہے۔(اسمع یا ولدی) اے میرے بیٹے میری بات سن۔”
(دافع البلاء صفحہ 7 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 227)
(اللہ رب العزت تو فرماتے ہیں”لم یتخذ صاحبتہ ولا ولدا” نہ اس کی بیوی ہے اور نہ اولاد۔ لیکن مرزاقادیانی جیسا دجال یہاں بھی اللہ تعالٰی کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا لکھتا ہے)
گستاخی نمبر 5
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“ایک دفعہ میں نے کشف کی حالت میں خدا تعالٰی کے سامنے بہت سے کاغذات رکھے تاکہ وہ ان کی تصدیق کر دے اور ان پر دستخط ثبت کر دے۔سو خدا تعالٰی نے سرخ سیاہی سے دستخط کردیئے اور قلم کی نوک پر جو سرخی تھی اس کو جھاڑا اور معا جھاڑنے سے اس سرخی کے قطرے میرے کپڑوں اور عبداللہ کے کپڑوں پر پڑے۔جب حالت کشف ختم ہوئی تو میں نے اپنے اور عبداللہ کے کپڑوں کو سرخی کے قطروں سے تر بہ تر دیکھا یہ وہی سرخی تھی جو خداتعالی نے اپنے قلم سے جھاڑی تھی۔”
(حقیقةالوحی صفحہ 255 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 267)
(اللہ تعالٰی تو ایسی چیزوں سے پاک ہیں لیکن مرزا صاحب جیسا دجال یہاں بھی اللہ رب العزت کو عام چیزوں سے تشبیہ دینے سے باز نہیں آیا)
“مرزا صاحب کی حضورﷺ کی شان میں کی گئی گستاخیاں”
گستاخی نمبر 1
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“خدا تعالٰی نے مجھے تمام انبیاء کرامؑ کا مظہر ٹہرایا ہے۔اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں۔۔۔۔۔اور آنحضرتﷺ کے نام کا بھی مظہر ہوں۔”
(حقیقة الوحی صفحہ 73 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 76)
(اس عبارت میں مرزا صاحب نے آپﷺ سمیت تمام انبیاء کرامؑ کی گستاخی کرتے ہوئے اپنے آپ کو تمام انبیاء کرامؑ کا مظہر قرار دیا ہے)
گستاخی نمبر 2
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“دنیا میں کئی تخت اترے ہیں پر میرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا ہے۔”
(حقیقة الوحی صفحہ 89 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 92)
(اس جگہ بھی مرزا صاحب نے آپﷺ کی توہین کی ہے کیونکہ سب انبیاء سے اونچا تخت حضورﷺ کا ہے لیکن مرزا صاحب نے اپنے ناپاک وجود کو اس پاک مقام سے منسوب کرنے کی ناکام کوشش کی ہے)
گستاخی نمبر 3
حضورﷺ نے اپنے آپ کو نبوت کی آخری اینٹ قرار دیا۔
لیکن مرزا صاحب نے اپنے بارے میں لکھا ہے:
“میں آخری اینٹ ہوں۔”
(خطبہ الہامیہ صفحہ 102 مندرجہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 178)
(مسلمان محمدﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں اور قادیانی جماعت مرزا قادیانی کو آخری نبی مانتی ہے۔اس عبارت سے صاف ظاہر ہے)
گستاخی نمبر 4
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“مگر تم خوب توجہ کرکے سن لو کہ اب اسم محمدﷺ کی تجلی ظاہر کرنے کا وقت نہیں۔ یعنی اب جلالی رنگ کی کوئی خدمت باقی نہیں۔کیونکہ مناسب حد تک وہ جلال ظاہر ہوچکا۔سورج کی کرنوں کی اب برداشت نہیں۔اب چاند کی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے۔ اور وہ احمد کے رنگ میں ہوکر میں ہوں۔”
(اربعین نمبر 4 صفحہ 15 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 445)
گستاخی نمبر 5
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“حضورﷺ دین کی اشاعت ممکمل طور پر نہ کرسکے۔میں نے دین کی اشاعت مکمل کی ہے۔”
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 101 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 263)