عام طور پر قادیانی کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کو نبوت کے معیار پر پرکھیں اگر تو مرزا صاحب نبوت کے معیار پر پورا اترے تو ان کو سچا مان لیں اور اگر مرزا صاحب نبوت کے معیار پر پورا نہیں اترتے تو پھر مرزا صاحب “کذاب” ہیں۔
قادیانیوں کی یہ بات اصولی طور پر غلط ہے کیونکہ مرزا صاحب کو نبوت کے معیار پر تو تب پرکھیں گے جب نبوت کا دروازہ کھلا ہو اور نبیوں کے آنے کا سلسلہ جاری ہو۔
چونکہ اب نبوت کا دروازہ ہمارے حضورﷺ پر بند ہوچکا ہے اور کسی بھی انسان کو نبوت نہیں مل سکتی۔اس لئے اب کوئی کتنا ہی پارسا ہو اگر وہ نبوت کا دعوی کرے تو وہ “کذاب” ہے۔اور اس کو کسی معیار پر پرکھنا غلط ہے۔
لیکن قادیانیوں پر حجت تام کرنے کے لئے مرزا صاحب کو نبوت کے معیار پر پرکھتے ہیں۔
نبی کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ نبی کی باتیں متضاد نہیں ہوتیں۔اور ایک مسلمہ اصول ہے کہ نبی جھوٹ نہیں بولتا اور جھوٹ بولنے والا نبی نہیں ہو سکتا۔
ویسے تو مرزا صاحب کی تحریرات میں بےشمار تضادات ہیں۔لیکن ہم مرزاقادیانی کی چند متضاد تحریرات کا جائزہ لیتے ہیں۔
تضاد نمبر 1
1) مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“وماکان لی ان ادعی النبوة وأخرج من الإسلام والحق بقوم کافرین۔”
“مجھے کہاں یہ حق پہنچتا ہے کہ نبوت کا دعوٰی کروں اور اسلام سے خارج ہو جاؤں۔اور قوم کافرین سے جا کر ملوں۔”
“اب جو شخص خدا اور رسول کے بیان کو نہیں مانتا اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے۔اور عمدا خدا تعالیٰ کے نشانوں کو رد کرتا ہے۔اور مجھ کو باوجود صدہا نشانوں کے مفتری ٹھہراتا ہے وہ مومن کیونکر ہوسکتا ہے۔”
“مجھے یسوع مسیح کے رنگ میں کیا گیا اور توارد طبع کے لحاظ سے یسوع کی روح میرے اندر رکھی۔اس لئے ضرور تھا کہ گم گشتہ ریاست میں بھی مجھے یسوع مسیح کے ساتھ مشابہت ہوتی۔”
“یسوع اس لئے اپنے تئیں نیک نہیں کہہ سکا کہ لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص شرابی کبابی اور خراب چال چلن ناخدائی کے بعد بلکہ ابتدا ہی سے ایسا معلوم ہوتا ہے چنانچہ خدائی کا دعوی شراب خوری کا ایک بدنتیجہ ہے۔”
1) “جس کو عیسائیوں نے خدا بنا رکھا ہے اس نے کہا کہ اے نیک استاد تو اس نے جواب دیا کہ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے۔نیک کوئی نہیں سوائے خدا کے یہی تمام اولیاء کا شعار رہا۔سب نے استغفار کو اپنا شعار بنایا۔”
“اگر کوئی حضرت مسیح کی نسبت یہ زبان پر لائے کہ وہ طوائف کے گندے مال کو کام میں لایا تو ایسے خبیث کی نسبت اور کیا کر سکتے ہیں کہ اس کی فطرت ان ناپاک لوگوں کی فطرت سے مفائر پڑی اور شیطان کی فطرت کا موافق اس پلید کا مادہ اور خمیر ہے۔”
“قادیان میں چاروں طرف دو دو میل کے فاصلے پر طاعون کا زور رہا۔مگر قادیان طاعون سے پاک ہے۔بلکہ آج تک جو شخص طاعون زدہ باہر سے قادیان آیا وہ بھی اچھا ہوگیا۔”
معزز قارئین اوپر پیش کئے گئے مرزا صاحب کے تضادات کو بار بار پڑھیں آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا کہ مرزا صاحب کی ان تحریرات میں کھلا تضاد ہے۔اور دونوں تحریرات میں سے ایک ہی سچی ہوسکتی ہے۔پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کی تحریرات میں کھلا تضاد تھا یعنی واضح جھوٹ تھا۔
اور ضابطہ یہ ہے کہ نبی جھوٹ نہیں بولتا اور جھوٹا شخص نبی نہیں ہوسکتا۔