مرزا صاحب کی کچھ تحریرات کے مطابق امام مہدی کے بارے میں جتنی بھی احادیث ہیں وہ سب جھوٹی،ضعیف ہیں۔چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔
حوالہ نمبر 1
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
“میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے میں جس قدر حدیثیں ہیں تمام مجروح و مخدوش ہیں اور ایک بھی اُن میں سے صحیح نہیں۔اور جسقدر افتراء اُن حدیثوں میں ہوا ہے کسی اور میں ایسا نہیں ہوا۔”
“اہل سنت کا مذہب ہے کہ امام مہدی فوت ہو گئے ہیں اور آخری زمانہ میں انہیں کے نام پر ایک اور امام پیدا ہوگا،لیکن محققین کے نزدیک مہدی کا آنا کوئی یقینی امر نہیں ہے۔”
(روحانی خزائین جلد 3 صفحہ 344 )
حوالہ نمبر 4
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
“اور سچ یہ ہے کہ بنی فاطمہ سے کوئی مہدی آنے والا نہیں۔اور ایسی تمام حدیثین موضوع اور بے اصل اور بناوٹی ہیں۔”
(کشف الغطا 12 ، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 193)
حوالہ نمبر 5
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
“مسلمانوں کے قدیم فرقوں کو ایک ایسے مہدی کا انتظار ہے جو فاطمہ مادر حسین کی اولاد میں سے ہوگا اور نیز ایسے مسیح کا بھی انتظار ہے جو اس مہدی سے مِلکر مخالفانِ اسلام سے لڑائیاں کرے گا مگر میں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ سب خیالات لغو اور باطل اور جھوٹ ہیں۔”
(کشف الغطاء، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 193)
حوالہ نمبر 6
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
“میں کہتا ہوں کہ مہدی کی خبریں ضعف سے خالی نہیں ہیں کیونکہ امامین(بخاری و مسلم) نے ان کو نہیں لیا۔”
(ازالہ اوہام،مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 406)
مرزا صاحب کی ان تحریرات سے پتہ چلا کہ امام مہدی کے بارے میں جتنی بھی روایات ہیں وہ ضعیف ہیں اور باطل ہیں۔
اب مرزا صاحب کی چند مزید تحریرات ملاحظہ فرمائیں جن میں مرزا صاحب انہی روایات کو صحیح قرار دیتے ہیں۔اور خود کو امام مہدی انہیں روایات کی وجہ سے کہتے ہیں۔
حوالہ نمبر 1
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
“وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اُس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الٰہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریمﷺ نے دی تھی وہ میں ہی ہوں۔”
“میں خدا سے وحی پا کر کہتا ہوں کہ میں بنی فارس میں سے ہوں اور بموجب اس حدیث کےجو کنزالعمال میں درج ہے بنی فارس بھی بنی اسرائیل اور اہل بیت میں سے ہیں اور حضرت فاطمہ نے کشفی حالت میں اپنی ران پرمیرا سر رکھا۔اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں۔”
“اور بموجب حدیث لو کان الایمان عند الثریا لنا لہ رجال او رجل من ھٰولاء ای من فارس دیکھو بخاری صفحہ 727۔رجل فارسی کا جائے ظہور بھی یہ مشرق ہے۔اور ہم ثابت کر چکے ہیں کہ وہی رجل فارسی مہدی ہے اس لیے ماننا پڑا کہ مسیح موعود اور مہدی اور دجال تینوں مشرق میں ہی ظاہر ہوں گے اور وہ ملک ہند ہے۔”
(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17، صفحہ 167)
حوالہ نمبر 4
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
“دوسری گواہی اس حدیث (ان لمھدینا آیتین) کی صحیح اور مرفوع متصل ہونے پر آیت “فلا یظھر علی غیبہ احد ا الا من ارتضی من رسول” میں ہے کیونکہ یہ آیت علم غیب صحیح اور صاف کا رسولوں پر حصر کرتی ہے جس سے بالضرورت متعین ہوتا ہے کہ “ان لمھدینا” کی حدیث بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے۔”
“اگر حدیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہیے جو صحت اور وثوق میں اس حدیث پر کئی درجہ بڑھی ہوئی ہیں۔مثلا صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن میں آخری زمانوں میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے۔خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کے لئے آواز آئے گی “ھذا خلیفتہ اللہ المھدی” اب سوچو یہ حدیث کس پائے اور مرتبے کی ہے۔جو ایسی کتاب میں درج ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے۔”
(شہادت القرآن ، مندرجہ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 337)
معزز قارئین دونوں قسم کے حوالہ جات آپ نے ملاحظہ کئے جن میں مرزا صاحب پہلے کہتے ہیں کہ امام مہدی کے بارے میں حدیثیں ضعیف ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ امام مہدی کے بارے میں بخاری اور مسلم میں کوئی روایت نہیں لہذا امام مہدی کے بارے میں احادیث ضعیف ہیں۔
اسی کے برعکس پھر مرزا صاحب انہیں احادیث کو صحیح قرار دیتے ہیں اور بخاری کی ایک روایت کا ذکر بھی کرتے ہیں۔جو درحقیقت بخاری میں موجود نہیں بلکہ مرزا صاحب نے بخاری پر جھوٹ لکھا ہے۔
ہمارا قادیانیوں سے سوال ہے کہ مرزا صاحب کی کون سی بات سچ تسلیم کی جائے۔ایک طرف تو مرزا جی امام مہدی کے بارے میں تمام حدیثوں کو ضعیف اور جھوٹا لکھتے ہیں اور دوسری طرف انہی احادیث کو صحیح کہتے ہیں۔اب دونوں میں سے ایک ہی بات سچی ہوسکتی ہے۔اور ایک بات یقینا جھوٹ ہوگی۔
اور قانون یہ ہے کہ نبی جھوٹ نہیں بولتا اور جھوٹا شخص نبی نہیں ہوسکتا۔
جائزہ نمبر 4
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
“اگرچہ اس میں کچھ شک نہیں کہ احادیث میں جہاں جہاں مہدی کے نام سے کسی آنے والے کی پیشگوئی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ہے۔اس کے سمجھنے میں لوگوں نے بڑے بڑے دھوکے کھائے ہیں۔اور غلط فہمی کی وجہ سے عام طور پر یہی سمجھا گیا ہے کہ ہر ایک مہدی کے لفظ سے مراد محمد بن عبداللہ ہے۔جس کی نسبت بعض احادیث پائی جاتی ہیں۔لیکن نظر غور سے معلوم ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کئی مہدیوں کی خبر دیتے ہیں۔منجملہ ان کے وہ مہدی بھی ہے جس کا نام حدیث میں سلطان مشرق رکھا گیا ہے۔ جس کا ظہور ممالک مشرقیہ ہندوستان وغیرہ سے اور اصل وطن فارس سے ہونا ضرور ہے۔ درحقیقت اسی کی تعریف میں یہ حدیث ہے کہ اگر ایمان ثریا سے معلق یا ثریا پر ہوتا تب بھی وہ مرد وہیں سے اس کو لے لیتا۔اور اس کی یہ نشانی بھی لکھی ہے کہ وہ کھیتی کرنے والا ہوگا۔غرض یہ بات بالکل ثابت شدہ اور یقینی ہے کہ صحاح ستہ میں کئی مہدیوں کا ذکر ہے۔اور ان میں سے ایک وہ بھی ہے جس کا ممالک مشرقیہ سے ظہور لکھا ہے۔مگر بعض لوگوں نے روایات کے اختلاط کی وجہ سے دھوکا کھایا ہے۔لیکن بڑی توجہ دلانے والی یہ بات ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہدی کے ظہور کا زمانہ وہی زمانہ قرار دیا ہے جس میں ہم ہیں۔اور چودھویں صدی کا اس کو مجدد قرار دیا ہے۔”
مرزا صاحب کی اس تحریر سے پتہ چلا کہ صرف ایک مہدی نے نہیں آنا بلکہ احادیث میں بہت سے مہدیوں کے آنے کی خبر دی گئی ہے۔
اب مرزا صاحب کی دو اور تحریرات دیکھتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ مرزا صاحب ہی آخری مہدی ہیں اور ان کے بعد کسی مہدی نے نہیں آنا۔
تحریر نمبر 1
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
“وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اُس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الٰہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریمﷺ نے دی تھی وہ میں ہی ہوں۔”
“میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کا نام جنت تھا پہلے وہ لڑکی پیٹ سے نکلی تھی اور بعد اس کے میں نکلا تھا۔اور میرے بعد میرے والدین کے گھر میں کوئی اور لڑکا یا لڑکی نہیں ہوئی اور میں ان کے لئے خاتم الاولاد تھا۔اور یہ میری پیدائش کا وہ طرز ہے جس کو بعض اہل کشف نے مہدی خاتم الولایت کی علامتوں میں سے لکھا ہے۔اور بیان کیا ہے کہ وہ آخری مہدی جس کی وفات کے بعد کوئی اور مہدی پیدا نہیں ہوگا۔”
ہمارا قادیانیوں سے سوال ہے کہ اگر ایک مہدی کی بجائے بہت سے مہدیوں نے آنا ہے تو ہمیں بتایا جائے کہ مرزا صاحب سے پہلے کون سچا مہدی تھا؟؟؟
اور ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ وہ مہدی جس کے بارے میں ذکر ہے کہ اس کا نام محمد، والد کا نام عبداللہ اور وہ سادات میں سے ہوگا وہ کون تھا اس کی نشاندہی کی جائے ؟؟؟ کیونکہ مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ میں آخری مہدی ہوں۔
معزز قارئین ان چاروں جائزوں کا خلاصہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کا مہدی ہونے کا دعوی سچا نہیں تھا کیونکہ کبھی مرزا صاحب کہتے ہیں کہ میں وہی مہدی ہوں جس کا حدیث میں ذکر ہے۔کبھی کہتے ہیں وہ مہدی میں نہیں ہوں۔کبھی کہتے ہیں کہ ایک نہیں،بہت سے مہدیوں نے ظاہر ہونا ہے،کبھی کہتے ہیں میں ہی آخری مہدی ہوں۔
مرزا صاحب نے اتنے پلٹے کھائے ہیں کہ اگر خود قادیانی بھی ٹھنڈے دماغ سے مرزا صاحب کی کتابوں کو پڑھیں تو چکرا جائیں۔ اتنے پلٹے کھانے والا سچا مہدی نہیں ہوسکتا۔ جبکہ ایک بھی نشانی مہدی کی مرزا صاحب میں پوری بھی نہ ہوئی ہو۔