اہل سنت والجماعت کے مطابق “مہدی” نبی کریمﷺ کے متبع ہوں گے اور خلفاء راشدین میں سے ایک خلیفہ راشد ہوں گے۔آپ نہ ہی نبوت کے مدعی ہوں گے اور نہ ہی انبیاء کی طرح معصوم٬احادیث میں انکے اوصاف بیان ہوئے ہیں نیز ہماری معلومات کے مطابق کسی صحیح حدیث میں آپکے لئے امام مہدی کے الفاظ نہیں ملتے بلکہ صرف “المہدی” کہا گیا ہے انہیں “امام مہدی” صرف اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے وقت کے مسلمانوں کے امام بمعنی پیشوا ‘امیر اور حاکم ہوں گے۔
نیز کسی حدیث میں یہ نہیں ملتا کہ وہ شخصیت لوگوں کو اپنی “مہدویت” پر ایمان لانے کی دعوت دے گی اور نہ ہی کہیں یہ آیا ہے کہ لوگوں کے لئے کسی خاص معین شخصیت کی مہدیت پر ایمان لانا واجب ہے۔ جیسے انبیاء کی نبوت پہ ایمان لانا لازم ہے اسکی مثال ایسے ہے جیسے حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر سو سال کے سر پر ایسے لوگ ظاہر فرماتے رہیں گے جو تجدید دین کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے یعنی دین میں جو غلط باتیں داخل ہو گئی ہوں انہیں دین سے الگ کرتے رہیں گے جنہیں عام اصطلاح میں “مجددین” کہا جاتا ہے لیکن ہمارے علم کے مطابق کسی محدث یا عالم نے یہ نہیں کیا کہ ہر زمانے میں کسی خاص فرد یا افراد کی مجددیت پر ایمان لانا ضروری ہے بلکہ یہ ہستیاں اپنا کام کرتی ہیں اور چلی جاتی ہیں لوگوں سے یہ نہیں کہتے کہ ہماری مجددیت پہ ایمان لاؤ۔
ان روایات کے بارے میں جنکے اندر اس شخصیت کے بارے میں خبر دی گئی ہو جنہیں مہدی کہا جاتا ہے مختلف لوگوں نے اظہار خیال کیا ہے ایک گروہ نے تو صاف طور پہ ان روایات و احادیث کو ناقابل اعتبار اور ضعیف کہہ دیا اور یہ لکھا کہ کسی ایسی شخصیت نے نہ آنا ہے اور نہ ہی اسکی ضرورت ہے کبھی کہا جاتا ہے کہ چونکہ صحیحین (بخاری و مسلم) میں مہدی کے ذکر والی روایات نہیں اس لئے یہ ساری روایات ضعیف ہیں کبھی یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ نزول عیسیٰؑ اور ظہور مہدی کی ساری روایات اسرائیلیات ہیں جو کعب احبار اور وہب بن منبہ نے پھیلائی ہیں کبھی یہ دلیل دی جاتی ہیں کہ ان روایات میں جن کے اندر ظہور مہدی کا ذکر ہے شدید تعارض ہے لہذا یہ قابل قبول نہیں۔اسکے مقابل ایک دوسری جماعت ایسی ہیں جس نے ظہورِ مہدی کو ثابت کرنے کے لئے ضعیف اور موضوع روایات کو بھی عوام الناس میں بیان کرنا شروع کر دیا جس سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ اس بارے میں صحیح حدیث شاید موجود ہی نہیں۔
یہ دونوں گروہ غلطی پہ ہیں نہ تو ظہور مہدی صرف افسانہ ہے اور نہ ہی وہ تمام احادیث ضعیف ہیں جنکے اندر نبی کریمﷺ نے قرب قیامت کے ظہور کی خبر دی ہے بلکہ اس بارے میں حدیث کی ایک کثیر تعداد صحیح اور حسن درجے کی بھی ہیں جن میں سے چند احادیث ہم آگے بیان کریں گے اور نہ ہی یہ اسرائیلیات ہیں۔
دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ صحیح روایات کے علاوہ ایک کثیر تعداد ضعیف من گھڑت اور موضوع روایات وآثار کی بھی ہیں جن سے ظہور مہدی پہ استدلال کرنے کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں کیونکہ صحیح و حسن احادیث کی ایک کثیر تعداد کا ہونا یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
امام مہدی کے بارے میں امت مسلمہ کے عقیدے کا خلاصہ یہ ہے کہ قرب قیامت سیدنا عیسیؑ کے نزول سے کچھ سال پہلے امام مہدی پیدا ہوں گے۔اور وہ مدینہ سے مکہ کی طرف تشریف لے کر جائیں گے۔وہ بیت اللہ کا طواف کررہے ہوں گے کہ وقت کے علماء ان کو پہچان لیں گے اور جب ان کا طواف مکمل ہوگا تو سب سے پہلے کچھ علماء ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔اس کے بعد عمومی بیعت ہوگی۔ بیعت اس بات پر ہوگی کہ اسلام کے بول بالے کے لئے ہم کوشش کریں گے چاہے اس کام میں ہماری جان کیوں نہ چلی جائے۔اس کے بعد امام مہدی کی سربراہی میں نفاذ اسلام کی کوششوں کا آغاز ہوگا۔اور مسلمانوں کا کفار کے ساتھ جہاد شروع ہوجائے گا۔اس کے کچھ عرصے بعد سیدنا عیسیؑ کا آسمان سے نزول ہوجائے گا۔سیدنا عیسیؑ کا جس وقت نزول ہوگا اس وقت نماز کے لئے مسلمان صفیں سیدھی کررہے ہوں گے۔سیدنا عیسیؑ کو دیکھ کر مسلمان کہیں گے کہ اے اللہ کے نبی عیسیؑ آپ نماز کی امامت کروایئں تو سیدنا عیسیؑ جواب دیں گے کہ یہ اعزاز اللہ تعالٰی نے اس امت کو دیا ہے۔چنانچہ امام مہدی اس وقت نماز پڑھائیں گے۔اس کے بعد سیدنا عیسیؑ ہی نمازوں کی امامت فرمائیں گے۔سیدنا عیسیؑ کے نزول کے کچھ عرصے بعد امام مہدی کا انتقال ہوجائے گا۔
امام مہدی کے بارے میں بہت سی صحیح، ضعیف یا جھوٹی روایات ہیں۔جن میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ہم صرف ان احادیث کو ذکر کریں گے جو صحت کے لحاظ سے قابل اعتبار ہیں۔یا ان میں اختلاف نہیں پایا جاتا۔یا ان میں اختلاف بہت کم پایا جاتا ہے۔
“اگر زمانہ سے ایک ہی دن باقی رہ جائے گا تو بھی اللہ تعالیٰ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کھڑا بھیجے گا وہ اسے عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جیسے یہ ظلم و جور سے بھر دی گئی ہے۔”
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
“اگر دنیا کا ایک دن بھی رہ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو لمبا کر دے گا،یہاں تک کہ اس میں ایک شخص کو مجھ سے یا میرے اہل بیت میں سے اس طرح کا برپا کرے گا کہ اس کا نام میرے نام پر،اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہو گا،وہ عدل و انصاف سے زمین کو بھر دے گا،جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر دی گئی ہے۔”
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“مہدی میری اولاد میں سے کشادہ پیشانی، اونچی ناک والے ہوں گے،وہ روئے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے،جیسے کہ وہ ظلم و جور سے بھر دی گئی ہے،ان کی حکومت سات سال تک رہے گی۔”
حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
“ایک خلیفہ کی موت کے وقت اختلاف ہو گا تو اہل مدینہ میں سے ایک شخص مکہ کی طرف بھاگتے ہوئے نکلے گا، اہل مکہ میں سے کچھ لوگ اس کے پاس آئیں گے اور اس کو امامت کے لئے پیش کریں گے،اسے یہ پسند نہ ہو گا، پھر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان لوگ اس سے بیعت کریں گے، اور شام کی جانب سے ایک لشکر اس کی طرف بھیجا جائے گا تو مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام بیداء میں وہ سب کے سب دھنسا دئیے جائیں گے، جب لوگ اس صورت حال کو دیکھیں گے تو شام کے ابدال اور اہل عراق کی جماعتیں اس کے پاس آئیں گی، حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اس سے بیعت کریں گی، اس کے بعد ایک شخص قریش میں سے اٹھے گا جس کا ننہال بنی کلب میں ہو گا جو ایک لشکر ان کی طرف بھیجے گا،وہ اس پر غالب آئیں گے، یہی کلب کا لشکر ہو گا،اور نامراد رہے گا وہ شخص جو کلب کے مال غنیمت میں حاضر نہ رہے،وہ مال غنیمت تقسیم کرے گا اور لوگوں میں ان کے نبی کی سنت کو جاری کرے گا،اور اسلام اپنی گردن زمین میں ڈال دے گا،وہ سات سال تک حکمرانی کرے گا، پھر وفات پا جائے گا،اور مسلمان اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔
(ابوداؤد حدیث نمبر 4286 ٬ باب فی ذکر المھدی)
حدیث نمبر 7
عن ام سلمة ؓ قالت : قال رسول اللہﷺ: یبایع رجل من امتی بین الرکن والمقام کعدة أھل بدر فیاتیہ عصب العراق وابدأل الشام فیاتیھم جیش من الشام حتی اذا کانو بالبیداء خسف بہم ثم یسیر الیہ رجل من قریش اخواله کلب فیھزمھم اللہ قال و کان یقال أن الخائب یومئذ من خاب من غنیمة کلب۔
حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“میری امت کے ایک شخص ( مہدی) سے رکن حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اہل بدر کی تعداد کے مثل افراد بیعت خلافت کریں گے۔بعد ازاں اس خلیفہ کے پاس عراق کے اولیاء اورشام کے ابدال آئیں گے۔اس خلیفہ سے جنگ کے لئے ایک لشکر شام سے روانہ ہو گا۔یہاں تک کہ یہ لشکر جب بیداء کے مقام پر پہنچے گا۔ زمین کے اندر دھنسا دیا جائے گا۔پھر ایک قریشی آدمی ان کی طرف آئے گا۔اس کے ننھیال قبیلہ کلب سے ہوں گے۔اللہ اس کے ہاتھ پر ان کو شکست دے گا۔اور کہا جائے گا۔اس موقع پر وہ شخص خسارہ اٹھانے والا ہوگا۔جو قبیلہ کلب کے مال غنیمت سے محروم رہا۔”
(مستدرک حاکم حدیث نمبر 8328 ٬کتاب الفتن والملاحم)
حدیث نمبر 8
“عن ابی سعید خدری ؓ قال : قال رسول اللهﷺ یخرج فی آخر امتی المہدی یسقیہ الله الغیث و تخرج الأرض نباتھا و یعطی المال صحاحا و تکثر الماشیة و تعظم الأمة یعیش سبعا او ثمانیا یعنی حجیجا۔”
“حضرت ابوسعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا:
“میری امت کے آخر میں مہدی نکلے گا۔اللہ اس کے لئے بارش برسائیں گے اور زمین اپنی نباتات نکالے گی۔وہ مال صحیح لوگوں کو دے گا،چوپاؤں کی کثرت ہوگی اور امت بہت زیادہ ہوگی۔وہ سات یا آٹھ سال رہے گا۔”*
حضرت ابوسعید خدری ؓ اور جابر بن عبداللہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: “تمھارے خلفاءمیں سے ایک خلیفہ(مہدی) ہو گا جولپیں بھر بھرکر مال دے گا اور اس کو شمارنہیں کرےگا۔”
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“میری امت کا ایک گروہ مسلسل حق پر (قائم رہتے ہوئے) لڑتا رہے گا،وہ قیامت کے دن تک (جس بھی معرکے میں ہو ں گے) غالب رہیں گے،کہا:پھر عیسیٰ ابن مریمؑ اتریں گے تو اس طائفہ (گروہ) کا امیر (مہدی)کہے گا:آئیں ہمیں نماز پڑھائیں،اس پر عیسیٰؑ جواب دیں گے: نہیں،اللہ کی طرف سے اس امت کو بخشی گئی عزت و شرف کی بنا پر تم ہی ایک دوسرے پر امیر ہو۔”
(مسلم حدیث نمبر 395 ٬ باب نزول عیسی بن مریمؑ حاکما بشریعة نبییناﷺ۔۔۔)
مندرجہ بالا احادیث سے امام مہدی کے بارے میں درج ذیل باتیں ہمیں معلوم ہوئیں۔
1) امام مہدی کا نام محمد ہوگا۔
2) امام مہدی کے والد کا نام عبداللہ ہوگا۔
3) امام مہدی سادات میں سے ہوں گے۔
4) امام مہدی بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوں گے جب ان کو پہچان کر ان کی بیعت کی جائے گی۔
5) امام مہدی حاکم(بادشاہ) ہوں گے۔
6) امام مہدی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔
7) امام مہدی کی حکومت 7 یا 9 سال ہوگی۔
8) امام مہدی کے وقت میں سیدنا عیسیؑ کا آسمان سے نزول ہوگا۔
9) امام مہدی ،مہدی ہونے کا دعوٰی نہیں کریں گے۔
10) امام مہدی سیدنا عیسیؑ کے نزول کے کچھ عرصے بعد وفات پائیں گے۔
(اگلے سبق میں ہم امام مہدی اور مرزا صاحب کا تقابلی جائزہ لیں گے کہ کیا مرزا صاحب ہی امام مہدی ہیں۔ یا ان کا مہدی ہونے کا دعوی جھوٹا ہے)