“رفع و نزول سیدنا عیسیؑ پر اجماع امت اور 14 صدیوں کے ان بزرگان امت کے نام جن کا عقیدہ رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کتابوں میں موجود ہے”
“رفع و نزول سیدنا عیسیؑ پر اجماع امت”
پوری امت محمدیہﷺ کا اس بات پر اجماع ہے۔ یعنی پوری امت محمدیہﷺ 1400 سال سے اس بات پر متفق ہے کہ سیدنا عیسیؑ کو یہود نہ قتل کر سکے اور نہ صلیب چڑھا سکے۔ بلکہ اللہ نے ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا اب سیدنا عیسیؑ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے اور دجال کا خاتمہ کریں گے۔
ذیل میں 10 حوالے پیش خدمت ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ پوری امت مسلمہ رفع و نزول عیسیؑ کے مسئلے پر متفق ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔
1)علامہ ابو حیان اندلسی اپنی تفسیر بحر المحیط میں لکھتے ہیں:
“واجمعت الامته علی ما تضمنه الحدیث المتواتر من ان عیسی فی السماء حی وانه ینزل فی آخر الزمان۔”
تمام امت کا اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ حضرت عیسیؑ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور اخیر زمانہ میں ان کا نزول ہوگا۔جیسا کہ احادیث متواترہ سے ثابت ہوچکا ہے۔
*(تفسیر بحر المحیط جلد 2 صفحہ 497 تفسیر در آیت نمبر 55 سورة آل عمران طبع بیروت 1993ء)*
2)تفسیر النہر الماد میں ہے:
“واجمعت الامته علی ان عیسی حی فی السماء و ینزل الی الارض۔”
اس پر امت کا اجماع ہے کہ عیسیؑ آسمانوں پر زندہ ہیں اور زمین پر دوبارہ نازل ہوں گے۔
(تفسیر النہر الماد جلد 2 صفحہ 473)
3)تفسیر وجیز برحاشیہ جامع البیان میں ہے:
“والاجماع علی انه عیسی حی فی السماء و ینزل و یقتل الدجال و یوید الدین۔”
اس پر اجماع ہے کہ عیسیؑ آسمانوں پر زندہ ہیں نازل ہوکر دجال کو قتل کریں گے اور اسلام کی تائید کریں گے۔
(تفسیر وجیز برحاشیہ جامع البیان صفحہ 52)
4)امام ابو الحسن اشعری کتاب الابانته عن اصول الدیانته میں لکھتے ہیں:
“قال اللہ عزوجل یعیسی انی متوفیک و رافعک الی و قال اللہ تعالی وماقتلوہ یقینا بل رفعه الله الیه۔واجمعت الامته علی ان اللہ عزوجل رفع عیسی الی السماء۔”
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ اے عیسیؑ میں آپ کو پورا پورا لوں گا اور آپ کو اٹھاؤں گا۔اور اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ عیسیؑ کو یہود نے یقینا قتل نہیں کیا بلکہ ان کو اللہ تعالٰی نے اپنی طرف اٹھا لیا۔اور امت کا اس پر اجماع ہے کہ عیسیؑ کو آسمانوں پر اٹھایا گیا۔
(کتاب الابانته عن اصول الدیانته صفحہ 46)
5)شیخ اکبر فتوحات مکیہ میں لکھتے ہیں:
“لا خلاف فی انه ینزل فی آخر الزمان۔”
اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ عیسیؑ آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔
(فتوحات مکیہ باب 73 جلد 2 صفحہ 3)
6)علامہ طبری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
“لتواتر الاخبار عن رسول اللہﷺ انه قال ینزل عیسی بن مریم فیقتل الدجال۔”
آنحضرتﷺ کی تواتر کے ساتھ احادیث ہیں کہ عیسی بن مریمؑ نازل ہوکر دجال کو قتل کریں گے۔
(تفسیر طبری جلد 5 صفحہ 451 تفسیر در آیت نمبر 55 سورة آل عمران)
7)علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں:
“واجتمعت الامته علیہ واشتھرت فیه الاخبار ولعلھا بلغت مبلغ التواتر المعنوی ونطق به الکتاب الھی قول و وجب البیان به واکفر منکره کالفلاسفته من نزول عیسیؑ۔”
نزول عیسیؑ پر امت کا اجماع ہے۔اس کی احادیث حد شہرت کو پہنچ گئی ہیں۔شاید تواتر معنوی کا درجہ ان کو حاصل ہے۔اس قول پر کتاب اللہ گواہ ہے۔اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔جیسے فلاسفہ (یا آج کل قادیانی، پرویزی اور غامدی وغیرہ)
(روح المعانی پارہ 22 زیر آیت خاتم النبیین صفحہ 32)
8)علامہ صدیق حسن خان القنوجی نے اپنی تفسیر فتح البیان میں لکھا ہے:
“وقد توارت الاحادیث بنزول عیسیؑ جسما اوضح ذالک الشوکانی فی مولف مستقل یتضمن ذکر او رد فی المھدی المنتظر والدجال والمسیح و عزہ فی غیرہ و صحیحه الطبری ھذا لقول وارا بذلک الاحادیث المتواتره۔”
عیسیؑ کے جسما نازل ہونے کے بارے میں احادیث متواترہ وارد ہیں۔علامہ شوکانی نے ایک مستقل رسالہ میں واضح کیا ہے جو مہدی موعود اور دجال اور مسیح کے بارے میں ہے اور اس کے غیر کو بھی اس میں بیان کیا ہے۔ اور اس قول کی طبری نے تصحیح کی اور اس کے بارے میں احادیث متواترہ وارد ہیں۔
(فتح البیان جلد 3 صفحہ 293 تفسیر سورة النساء آیت نمبر 159 ٬ طبع بیروت 1992ء)
9)حافظ عسقلانی تلخیض الحبیر میں لکھتے ہیں:
“اما رفع عیسیؑ فاتفق اصحاب الاخبار والتفسیر علی انه رفعه ببدنه حیا۔”
تمام محدثین و مفسرین اس پر متفق ہیں کہ حضرت عیسیؑ اسی بدن کے ساتھ زندہ اٹھائے گئے ہیں۔
10)علامہ زمحشری امام المعتزلین تفسیر کشاف میں لکھتے ہیں:
“فان قلت کیف کان آخر الانبیاء و عیسیؑ ینزل فی آخر الزمان قلت معنی کونه آخرالانبیاء انه لا ینبا احد بعدہ و عیسی ممن نبی قبله۔”
اگر تو کہے کہ حضورﷺ آخر الانبیاء کیسے ہوئے حالانکہ عیسیؑ آخر زمانہ میں نازل ہوں گے۔میں کہوں گا کہ آخر الانبیاء ہونے کے معنی یہ ہیں۔کہ حضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا۔اور عیسیؑ ان نبیوں میں سے ہیں جن کو نبوت پہلے مل چکی ہے۔
(تفسیر کشاف صفحہ 858 تفسیر در آیت نمبر 40 سورة الاحزاب طبع بیروت 2009ء)
(مندرجہ بالا حوالے سے پتہ چلا کہ حیات عیسیؑ کا عقیدہ اتنا ضروری عقیدہ ہے کہ معتزلی بھی اس کا انکار نہیں کر سکے)
“14 صدیوں کے ان بزرگان امت کے نام جن کا عقیدہ رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کتابوں میں موجود ہے۔”
14 صدیوں کے ان مسلمان علماء،مجتہدین ، مجددین کے نام بھی پڑھ لیں جن کا رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کا ذکر کتابوں میں موجود ہے۔
ہر صدی کے بزرگوں کے ناموں کے بعد ان بزرگوں کا عقیدہ جن کتب میں ذکر ہے اس کے حوالے بھی دیئے گئے ہیں۔
پہلی صدی
1)حضرت ابوبکر صدیق
2)حضرت عمر فاروق
3)حضرت علی
4)حضرت عبداللہ ابن عمر
5)حضرت عبداللہ ابن عباس
6)حضرت عمران بن حصین
7)حضرت عبداللہ ابن مسعود
8)حضرت ابوہریرہ
9)حضرت جابر
10)حضرت خذیفہ
رضوان اللہ علیہم اجمعین
“حوالہ جات”
(1۔ مسند احمد جلد 3 صفحہ386)
(ترمذی شریف حدیث نمبر 2237)
(2۔ بخاری شریف حدیث نمبر 1354)
(3۔ کنزالعمال حدیث نمبر 39709)
(4۔ ترمذی شریف حدیث نمبر 2244)
(5۔ مستدرک حاکم جلد 2 صفحہ 309)
(6۔ ترمذی شریف حدیث نمبر 2244)
(7۔ترمذی شریف حدیث نمبر 2244)
(8۔ بخاری شریف حدیث نمبر 3448)
(9۔مسلم شریف حدیث نمبر 395)
(10۔ ترمذی شریف حدیث نمبر 2244)
دوسری صدی
1)سعید بن مسیب
2)طاوس بن کیسان
3)حسن بصری
4)محمد بن سیرین
5)محمد بن الحنفیہ
6)ابوالعالیہ
7)ابو رافع
8)امام زین العابدین
9)امام باقر
10)امام جعفر صادق
رحمہم اللہ علہیم اجمعین
“حوالہ جات”
(1۔ بخاری شریف حدیث نمبر 2222)
(2۔ مصنف عبدالرزاق جلد 11 صفحہ 387)
(3۔ تفسیر ابن کثیر جلد 1 صفحہ 576)
(4۔ مصنف عبدالرزاق جلد 11 صفحہ 399)
(5۔ تفسیر درمنثور جلد 2 صفحہ 241)
(6۔ تفسیر درمنثور جلد 2 صفحہ 239)
(7۔ تفسیر درمنثور جلد 2 صفحہ 239)
(8۔ مشکوۃ صفحہ 583)
(9۔ مشکوۃ صفحہ 583)
(10۔مشکوۃ صفحہ 583)
تیسری صدی
1)امام ابو عبید قاسم بن سلام
2)امام ابوبکر بن ابی شیبہ
3)امام بخاری
4)امام مسلم
5)امام ابو داؤد
6)امام نسائی
7)امام ترمذی
8)امام ابن ماجہ
رحمہم اللہ علہیم اجمعین
“حوالہ جات”
(1۔ غریب الحديث جلد 3 صفحہ 114)
(2۔ تفسیر قرطبی جلد 4 صفحہ 100)
(3۔ بخاری حدیث نمبر 2222)
(4۔ مسلم حدیث نمبر 395)
(5۔ ابوداؤد حدیث نمبر 4321)
(6۔ نسائی حدیث نمبر 2870)
(7۔ ترمذی حدیث نمبر 2244)
(8۔ ابن ماجہ حدیث نمبر 4081)
چوتھی صدی
1)امام ابن درید
2)امام ابو الحسن اشعری
3)امام ابن ابی حاتم رازی
4)امام ابوبکر آجری
5)امام ابو اللیث سمرقندی
6)امام ابن ابی زید القیروانی
7)امام ابن خزیمہ
8)امام ابوعوانہ
9)امام ابن حبان
10)امام ابوبکر جصاص رازی
رحمہم اللہ علیہم اجمعین
“حوالہ جات”
(1۔ جمھرة اللغة جلد 1 صفحہ 76)
(2۔ کتاب الإبانة صفحہ 38)
(3۔ علل الحديث جلد 2 صفحہ 413)
(4۔ الشرعية صفحہ 380)
(5۔ تنبیہ الغافلين صفحہ 194)
(6۔ کتاب الجامع للقیروانی صفحہ 114)
(7۔ کتاب التوحید صفحہ 110)
(8۔ مسند ابوعوانہ جلد 1 صفحہ 102)
(9۔الإحسان فی صحیح ابن حبان جلد9 صفحہ 286)
(10۔ الفصول فی الأصول جلد 1 صفحہ 431،432)
پانچویں صدی
1)امام عبدالقاہر بغدادی
2)امام ثعلبی
3)امام ابونعیم اصفہانی
4)امام ابن حزم ظاہری
5)امام بیہقی
6)امام ہجویری المعروف بہ داتا گنج بخش
7)امام سرخسی
8)امام قاضی ابوالولید الباجی
9)امام ابو محمد عراقی
10)امام حاکم
رحمہم اللہ علہیم اجمعین
“حوالہ جات”
(1۔ اصول الدين صفحہ 162،163)
(2۔ قصص الانبياء صفحہ 251،253)
(3۔ دلائل النبوة صفحہ 266،268)
(4۔کتاب الفصل فی الملل والاھواء والنحل جلد 4 صفحہ 180)
(5۔ الاعتقاد علی مذهب السلف اھل السنة والجماعة صفحہ 105)
(6۔ کشف المحجوب صفحہ 42)
(7۔ اصول سرخسی جلد 1 صفحہ 286)
(8۔ کتاب المنتقی شرح موطأ جلد 7 صفحہ 231)
(9۔ الفرق الفترقة بین اھل الزیغ والزندقة صفحہ 34)
(10۔ مستدرک حاکم جلد 4 صفحہ 493 تا 598)
چھٹی صدی
1)امام غزالی
2)قاضی ابو یعلی
3)علامہ زمحشری
4)امام نجم الدین نسفی
5)امام ابن الانباری
6)ابن العربی مالکی
7)امام ابن عطیہ
8)قاضی عیاض
9)پیران پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی
10)امام سہیلی
رحمہم اللہ علیہم اجمعین
“حوالہ جات ”
(1۔ المستصفی من الأصول صفحہ 90)
(2۔طبقات حنابلہ جلد 1 صفحہ 244)
(3۔تفسیر کشاف جلد 1 صفحہ 306)
(4۔ شرح عقائد نسفی صفحہ 124)
(5۔البیان فی غریب اعراب القرآن جلد1 صفحہ 275)
(6۔ شرح ترمذی جلد 9 صفحہ 76)
(7۔ تفسیر البحرالمحیط ابوحیان جلد 2 صفحہ 473)
(8۔ شرح مسلم امام نووی جلد 2 صفحہ 399)
(9۔ غنیة الطالبين صفحہ 676، 682)
(10۔ الروض الأنف جلد 2 صفحہ 48)
ساتویں صدی
1)امام قرطبی
2)امام ابوالبقاء
3)محی الدین ابن عربی
4)شیخ یاقوت حموی
5)امام عزالدین بن عبدالسلام
6)حافظ زین الدین رازی
7)امام ابن النجار
8)امام ابن الاثیر الجزری
9)امام تورپشتی
10)خواجہ معین الدین چشتی
رحمہم اللہ علیہم اجمعین
“حوالہ جات “
(1۔ الجامع لأحكام القرآن جلد 4 صفحہ 100 جلد16 صفحہ 108)