مرزا صاحب کے اس جھوٹے الزام کے جوابات ملاحظہ فرمائیں۔
جواب نمبر 1
امام ابن تیمیہؒ نے لکھا ہے:
“واجمعت الأمته علی ان الله عزوجل رفع عیسی الی السماء”
امت کا اس پر اجماع ہے کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا۔
(بیان تلبیس الجھمیه جلد 4 صفحہ 457)
اس حوالے سے پتہ چلا کہ امام ابن تیمیہؒ سیدنا عیسیؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے کے قائل تھے۔اور نہ صرف خود قائل تھے بلکہ اس بات پر انہوں نے امت کا اجماع بھی بیان کیا ہے۔اب جو بندہ امت کا اجماع بھی بیان کرے تو وہ خود کیسے اس عقیدے کا مخالف ہوسکتا ہے؟؟
جواب نمبر 2
امام ابن تیمیہؒ نے لکھا ہے:
“لکن عیسیؑ صعد الی السماء بروحہ و جسدہ۔”
عیسیؑ روح اور جسم کے ساتھ آسمان کی طرف چڑھ گئے۔
(مجموعة الفتاوى جلد 4 صفحہ 329)
اس سے پتہ چلا کہ امام ابن تیمیہؒ سیدنا عیسیؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بھی قائل ہیں۔
جواب نمبر 3
امام ابن تیمیہؒ نے ایک اور جگہ لکھا ہے کہ
“وعیسیؑ اذا نزل من السماء إنما یحکم فیھم بکتاب ربھم وسنة نبیھم۔۔۔والنبیﷺ قد أخبرھم بنزول عیسیؑ من السماء”
عیسیؑ جب آسمان سے نازل ہوں گے تو مسلمانوں میں ان کے رب کی کتاب سے اور ان کے نبی کی سنت کے مطابق فیصلے فرمائیں گے ۔۔۔۔نبیﷺ نے یہ خبر دی ہے کہ عیسیؑ آسمان سے نازل ہوں گے۔
(زیارة القبور والاستنجاد بالمقبور صفحہ 49)
لیجئے امام ابن تیمیہؒ کا عقیدہ تو اظہر من الشمس ہوگیا کہ سیدنا عیسیؑ آسمان سے نازل ہوں گے اور شریعت محمدیہﷺ کے مطابق فیصلے فرمائیں گے۔
“خلاصہ کلام”
امام ابن تیمیہؒ،سیدنا عیسیؑ کی وفات کے قائل نہیں تھے بلکہ سیدنا عیسیؑ کی حیات اور رفع و نزول کے قائل تھے جیسا کہ ان کی عبارات سے ثابت ہے۔
7) “شیخ ابن عربیؒ پر قادیانی اعتراض اور اس کا تحقیقی جائزہ”
قادیانی شیخ ابن عربیؒ پر بھی الزام لگاتے ہیں کہ وہ بھی سیدنا عیسیؑ کی وفات کے قائل تھے۔
قادیانیوں کے اس الزام کے بہت سے جوابات ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
جواب نمبر 1
سب سے پہلے تو ہم قادیانیوں کو بتاتے چلیں کہ آپ کو شیخ ابن عربیؒ پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
“شیخ ابن عربیؒ پہلے وجودی تھے۔”
(ملفوظات جلد 2 صفحہ 232)
اور وجودیوں کے بارے میں مرزا صاحب لکھتے ہیں:
“وجودیوں اور دہریوں میں انیس بیس کا فرق ہے یہ وجودی (شیخ ابن عربیؒ وغیرہ) سخت قابل نفرت اور قابل کراہت ہیں۔”
(ملفوظات جلد 4 صفحہ 397)
جب مرزا صاحب کے نزدیک شیخ ابن عربیؒ وجودی،قابل نفرت اور دہریے ہیں تو قادیانی کس منہ سے شیخ ابن عربیؒ کی عبارات پیش کرتے ہیں اور دھوکہ دیتے ہیں؟؟؟
جواب نمبر 2
شیخ ابن عربیؒ نے لکھا ہے:
“أنه لم یمت الی الآن بل رفعه الله الی ھذہ السماء واسکنه فیھا”
بیشک وہ (سیدنا عیسیؑ) ابھی فوت نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالٰی نے انہیں آسمان پر اٹھا لیا تھا اور وہ آسمان پر ہیں۔
بیشک سیدنا عیسیؑ اس امت میں آخری زمانے میں نازل ہوں گے اور شریعت محمدیہﷺ کے مطابق فیصلے کریں گے۔
(فتوحات مکیہ جلد 2 صفحہ 125)
ان عبارات سے شیخ ابن عربیؒ کا عقیدہ کس قدر واضح ہے کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا تھا اور اب وہ آسمان پر موجود ہیں اور اس امت میں آخری زمانے میں نازل ہوں گے۔
“خلاصہ کلام”
کوئی بددیانت ہی ہوگا جو اتنی واضح تحریرات دیکھ کر بھی شیخ ابن عربیؒ پر یہ الزام لگائے کہ ان کا عقیدہ تھا کہ سیدنا عیسیؑ فوت ہوگئے ہیں۔حالانکہ ان کی تحریرات سے ان کا عقیدہ واضح ہے کہ وہ سیدنا عیسیؑ کے رفع و نزول کے قائل تھے۔
8) “مولانا عبیداللہ سندھیؒ پر قادیانی اعتراض اور اس کا تحقیقی جائزہ”
قادیانی مولانا عبیداللہ سندھیؒ پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ سیدنا عیسیؑ کی وفات کے قائل تھے کیونکہ انہوں نے اپنی تفسیر “الہام الرحمن” میں لکھا ہے کہ سیدنا عیسیؑ فوت ہوگئے ہیں۔
قادیانیوں کے اس اعتراض کے بہت سے جوابات ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں۔
جواب نمبر 1
قادیانی جس تفسیر “الہام الرحمن” کا حوالہ دیتے ہیں وہ تفسیر مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے نہیں لکھی۔بلکہ “موسی جاراللہ” نامی کسی آدمی نے وہ تفسیر لکھ کر مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی طرف منسوب کردی ہے۔جیسا کہ اس تفسیر کے ٹائٹل صفحے پر بھی “موسی جاراللہ” کا نام لکھا ہے۔
لہذا جو تفسیر مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے لکھی ہی نہیں اس سے ان کا عقیدہ کیسے ثابت ہوسکتا ہے؟؟؟
جواب نمبر 2
مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے شاہ ولی اللہؒ کے افکار پر مشتمل “رسالہ محمودیہ” کا ترجمہ کیا ہے۔جس کا نام “ترجمہ عبیدیہ” ہے۔اس میں مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے لکھا ہے:
“فعسی ان تکون سارا لافق الاکمال غاشیا لا قلیم الاقرب فلن یوجد بعدک إلا ولک دخل فی تربیته ظاہرا و باطنا حتی ینزل عیسیؑ”
تو عنقریب کمال کے افق کا سردار بن جائے گا۔ اور قرب الہی کے اقلیم پر حاوی ہوجائے گا۔ تیرے بعد کوئی مقرب الہی ایسا نہیں ہوسکتا جس کی ظاہری و باطنی تربیت میں تیرا ہاتھ نہ ہو۔ یہاں تک کہ حضرت عیسیؑ نازل ہوں۔
لیجئے مولانا عبیداللہ سندھیؒ کا عقیدہ سیدنا عیسیؑ کے نزول کا ثابت ہوگیا۔
9) “حضرت ابن عباس ؓ پر قادیانی اعتراض اور اس کا تحقیقی جائزہ”
قادیانی حضرت ابن عباس ؓ پر بھی الزام لگاتے ہیں کہ وہ بھی سیدنا عیسیؑ کی وفات کے قائل تھے کیونکہ انہوں نے بخاری کی ایک روایت میں “متوفیک” کا معنی “ممیتک” کیا ہے۔
جواب نمبر 1
کون ہے جو یہ کہتا ہے کہ سیدنا عیسیؑ کو موت نہیں آئے گی؟سیدنا عیسیؑ کو بھی موت آئے گی لیکن ان کی موت کا وقت وہ ہے جب وہ دوبارہ واپس زمین پر تشریف لائیں گے۔اس کے بعد 45 سال زمین پر رہیں گے پھر ان کو موت آئے گی۔
حضرت ابن عباس ؓ بھی اسی موت کے قائل ہیں۔
قادیانی اگر سچے ہیں تو حضرت ابن عباس ؓ سے منسوب کوئی ایک روایت ایسی دکھا دیں جہاں انہوں نے فرمایا ہوکہ سیدنا عیسیؑ فوت ہوگئے ہیں اور قرب قیامت واپس زمین پر تشریف نہیں لائیں گے۔قادیانی قیامت تک بھی ایسی روایت پیش نہیں کر سکتے۔
جواب نمبر 2
تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس ؓ سے ایک طویل روایت منقول ہے جس میں سیدنا عیسیؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے کے واقعے کا یوں ذکر ہے۔
“فألقى علیہ شبہ عیسیؑ ورفع عیسیؑ من روزنتہ بیتہ الی السماء۔”
اس جوان پر سیدنا عیسیؑ کی شکل ڈال دی گئی اور آپ کو آپ کے گھر کی کھڑکی سے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا۔
(تفسیر ابن ابی حاتم جلد 3 صفحہ 1110)
یہی روایت حافظ ابن کثیرؒ نے (جو مرزا صاحب کے نزدیک مجدد بھی ہیں)اپنی تفسیر میں نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
“وھذا اسناد صحیح الی ابن عباس ؓ ”
اس کی سند حضرت ابن عباس ؓ تک صحیح ہے۔
(تفسیر ابن کثیر جلد 2 صفحہ 450)
جواب نمبر 3
امام سیوطیؒ جو مرزا صاحب کے نزدیک مجدد بھی ہیں انہوں نے اپنی تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ کا ایک قول نقل کیا ہے جس سے ان کا عقیدہ واضح ہوتا ہے۔
“عن ابن عباس ؓ فی قوله انی متوفّیک الآیۃ رافعک ثم یمیتک فی آخرالزمان ”
حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ اے عیسیؑ میں تجھے آسمان پر اٹھانے والا ہوں اور آخری زمانے میں وفات دوں گا۔
(تفسیر درمنثور)
ان حوالہ جات سے پتہ چلا کہ حضرت ابن عباس ؓ بھی سیدنا عیسیؑ کے رفع و نزول کے قائل تھے اور بخاری میں جو روایت ان سے منقول ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب سیدنا عیسیؑ دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے تو 45 سال بعد ان کو موت آئے گی ۔
“خلاصہ کلام”
حضورﷺ کے دور سے لے کر مرزا صاحب تک بزرگان امت میں سے کوئی ایک بزرگ بھی سیدنا عیسیؑ کی وفات کے قائل نہیں تھے ۔ جیسا کہ مرزا صاحب نے خود اس بات کا اقرار کیا ہے۔
قادیانی بزرگان امت کی عبارات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔حالانکہ جن بزرگوں کی عبارات قادیانی توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں ان کی واضح عبارات میں ان کا عقیدہ رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کا لکھا ہوا ہے۔
بہرحال اصولی بات تو یہ ہے کہ قادیانیوں کو بزرگان امت کی عبارات پیش کرنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ خود مرزا صاحب نے اور ان کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود نے تسلیم کیا ہے کہ مرزا صاحب سے پہلے تمام مسلمان سیدنا عیسیؑ کی حیات اور رفع و نزول کے قائل تھے۔