ختم نبوتﷺ کورس” سبق نمبر 17″

سبق نمبر 17

0

“ختم نبوتﷺ کورس”

( مفتی سعد کامران )

 

سبق نمبر 17

“مسئلہ رفع و نزول سیدنا عیسیؑ پر چند بزرگان امت کی عبارات پر قادیانی اعتراضات اور ان کا تحقیقی جائزہ”

(حصہ اول)

قادیانی جب قرآن و احادیث کے دلائل سے لاجواب ہوجاتے ہیں تو چند بزرگان امت کی عبارات پیش کر کے یہ ظاہر کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ بزرگان امت بھی سیدنا عیسیؑ کی وفات کے قائل ہیں۔حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ حضورﷺ کے دور سے لے کر مرزا غلام احمد قادیانی تک کوئی ایک عالم جو مسلمان ہو،وہ کبھی بھی اس بات کا قائل نہیں گزرا کہ سیدنا عیسیؑ فوت ہوگئے ہیں اور قرب قیامت واپس زمین پر تشریف نہیں لائیں گے۔بلکہ تمام مسلمان اس بات کے قائل تھے کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا تھا اور اب وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے۔
قادیانی بزرگوں کے اقوال کیوں پیش کرتے ہیں؟جبکہ بزرگوں کے اقوال قادیانیوں کے نزدیک مستقل حجت نہیں کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ 
“اقوال سلف درحقیقت کوئی مستقل حجت نہیں”
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 538 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 389)
مرزا صاحب کے مطابق رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کا مسئلہ 13 صدیوں تک چھپا رہا اور یہ مسئلہ مرزا قادیانی پر ظاہر ہوا۔جب خود مرزا صاحب نے یہ بات تسلیم کی ہے تو پھر قادیانی بزرگان امت پر یہ الزام کیوں لگاتے ہیں کہ وہ سیدنا عیسیؑ کی وفات کے قائل تھے؟؟ 
 جیسا کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ 
“یااخوان ھذہ الأمر الذی اخفاہ الله من أعین القرون الاولی،وجلی تفاصیله فی وقتنا ھذا یخفی مایشاء و یبدئ” 
اے بھائیو یہ معاملہ(یعنی عیسیؑ کی موت کا راز) وہ ہے جو اللہ نے پہلے زمانوں کی آنکھوں سے چھپائے رکھا۔اور اس کی تفاصیل اب ظاہر ہوئی ہیں،وہ جو چاہتا ہے اسے مخفی رکھتا ہے اور جو چاہتا ہے اسے ظاہر کرتا ہے۔ 
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 426 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 426)
ایک اور جگہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ 
“ولکن ما فھم المسلمون حقیقتہ۔لان اللہ تعالٰی اراد اخفاءہ۔ فغلب قضاءہ ومکرہ وابتلاءہ علی الافھام فصرف وجوھھم عن الحقیقتہ الروحانیہ الی الخیالات الجسمانیہ فکانو بھا من القانعین و بقی ھذا الخبر مکتوبا مستورا کالحب فی السنبلتہ قرنا بعد قرن حتی جاء زماننا”
لیکن مسلمان اس کی حقیقت(یعنی عیسیؑ کی وفات کی حقیقت)کو نہیں سمجھے۔کیونکہ اللہ تعالٰی نے ارادہ کیا تھا کہ اس کو مخفی رکھے۔پس اللہ کی قضاء،اس کی تقدیر اور اس کی آزمائش لوگوں کے فہم پر غالب آگیئں۔اس لئے لوگ اس کی روحانی حقیقت سے ہٹ کر اس کے جسمانی خیالات کی طرف سوچنے لگے۔ اور اسی پر وہ قناعت کر گئے۔یہ خبر(یعنی عیسیؑ کی وفات کی خبر) کئی صدیوں تک یونہی چھپی رہی۔جس طرح کہ دانہ خوشے میں چھپا رہتا ہے۔یہاں تک کہ ہمارا زمانہ آگیا۔
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 552،553 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 552،553)
 پھر آگے مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ 
“فکشف اللہ الحقیقة علینا لتکون النار بردا و سلاما” 
پس اللہ نے ہم پر حقیقت(یعنی عیسیؑ کی وفات کی حقیقت) کھولی۔تاکہ آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجائے۔ 
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 553 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 553)
مرزا صاحب سے پہلے 1300 سال کے مسلمانوں کا عقیدہ یعنی حضورﷺ کے دور سے لے کر مرزا صاحب تک کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ سیدنا عیسیؑ کے جسمانی رفع و نزول کا تھا۔ 
جیسا کہ خود مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ 
“ایک دفعہ ہم دلی گئے۔ہم نے وہاں کے لوگوں کوکہا کہ تم نے 1300 برس سے یہ نسخہ استعمال کیا ہے کہ آنخضرت ﷺ کو مدفون اور حضرت عیسیؑ کو آسمان پر زندہ بٹھایا۔۔۔۔ اب دوسرا نسخہ ہم بتاتے ہیں کہ حضرت عیسیؑ کو فوت شدہ مان لو” 
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 579)
اسی بات کی تائید قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود نے بھی کی ہے۔ 
مرزا بشیر الدین محمود نے لکھا ہے کہ 
“پچھلی صدیوں میں قریبا سب دنیا کے مسلمانوں میں مسیحؑ کے زندہ ہونے پر ایمان رکھا جاتا تھا۔اور بڑے بڑے بزرگ اسی عقیدہ پر فوت ہوئے۔اور نہیں کہ سکتے کہ وہ مشرک فوت ہوئے۔گو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مشرکانہ عقیدہ ہے۔حتی کہ حضرت مسیح موعود (مرزا صاحب) باوجود مسیح موعود کا خطاب پانے کے دس سال تک یہی خیال کرتے رہے کہ مسیح آسمان پر زندہ ہے۔”
(انوار العلوم جلد 2 صفحہ 463)
 مرزا صاحب اور ان کے بیٹے کے حوالے آپ نے ملاحظہ فرمالئے کہ مرزا صاحب سے پہلے حضورﷺ  کے دور سے لے کر مرزا صاحب تک تمام مسلمانوں جن میں صحابہ کرام ؓ،تمام مجددین،فقھاء،مفسرین اور اولیاء اللہؒ شامل ہیں،ان کا یہی عقیدہ تھا کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا تھا اور وہ قرب قیامت نازل ہوں گے۔ 
بہرحال اس سبق میں ہم چند بزرگان امت کی عبارات پر قادیانی اعتراضات کا تحقیقی جائزہ لیں گے۔ 

1) حضرت حسن ؓ پر قادیانی اعتراض اور اس کا تحقیقی جائزہ:

قادیانی کہتے ہیں کہ جب حضرت علی ؓ کی وفات ہوئی  تو حضرت حسن ؓ نے ان کی وفات کے موقع پر ایک خطبہ دیا جس میں یہ بھی فرمایا تھا کہ 
“لقد قبض الیلتہ عرج فیھا بروح عیسی بن مریم ” 
یعنی جس رات حضرت علی ؓ کی روح مبارک قبض کی گئی وہ وہی رات تھی جس رات کو سیدنا عیسیؑ کو اٹھایا گیا۔
(طبقات کبری جلد 3 صفحہ 28)
قادیانی کہتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوا کہ حضرت حسن ؓ  بھی اس بات کے قائل تھے کہ سیدنا عیسیؑ فوت ہوگئے ہیں۔ 
قادیانیوں کے اس باطل اعتراض کے بہت سے جوابات ہیں۔ 
جواب نمبر 1
اگر اس پوری عبارت پر غور کریں تو قادیانی دجل خود ہی پارہ پارہ ہوجائے گا۔کیونکہ اس عبارت میں حضرت علی ؓ کے لئے “قبض” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور سیدنا عیسیؑ کے لئے “عرج” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ 
اگر سیدنا عیسیؑ کے لئے بھی موت ہی کا قول ہوتا تو “عرج” کی بجائے “قبض” اس فقرے میں ہوتا کیونکہ حضرت علی ؓ کی موت کے لئے “قبض” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ 
اور پورا قول یوں ہوتا۔ 
“لقد قبض الیلتہ قبض فیھا بروح عیسی بن مریم”
اس کا ترجمہ یوں بنتا کہ جس رات حضرت علی ؓ کی روح قبض کی گئی وہ وہی رات تھی جس رات سیدنا عیسیؑ کی روح قبض کی گئی۔ 
حالانکہ یہ الفاظ استعمال نہیں کئے گئے ۔
پس ثابت ہوا کہ حضرت حسن ؓ کے اس قول کا صحیح مطلب یہ ہے کہ حضرت علی ؓ کی وفات اس دن ہوئی جس رات سیدنا عیسیؑ کو آسمان پر اٹھایا گیا۔ 
جواب نمبر 2
جس کتاب کا حوالہ قادیانی دیتے ہیں اس کتاب کا مصنف خود حیات سیدنا عیسیؑ کا قائل ہے۔اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مصنف خود اپنے ہی عقیدے کے خلاف کوئی بات اپنی کتاب میں نقل کرے۔جیسا کہ انہوں نے اسی کتاب میں حضرت ابن عباس ؓ کا ایک قول نقل کیا ہے۔ 
“وان اللہ رفعہ بجسدہ وانہ حی الان وسیرجع الی الدنیا فیکون فیھا ملکا ثم یموت کما یموت الناس”
اور بےشک عیسیؑ بمع جسم کے اٹھائے گئے ہیں اور وہ اس وقت زندہ ہیں۔دنیا کی طرف آیئں گے اور شاہانہ حالت میں زندگی بسر کریں گے اور پھر دیگر انسانوں کی طرح فوت ہوجایئں گے۔
حضرت ابن عباس ؓ کے اس قول کو مصنف نے نقل کر کے کوئی جرح نہیں کی۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مصنف خود سیدنا عیسیؑ کی حیات کا قائل ہے۔ 
اس لئے اگر حضرت حسن ؓ کے قول کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو اس کا یہ مطلب بنے گا۔ 
“عرج فیھا بروح اللہ عیسی بن مریم”
یعنی عیسی بن مریمؑ روح اللہ کو اٹھایا گیا۔ 
کیونکہ ایسا ہونا بڑی بات نہیں۔کئی دفعہ ایسا ہوجاتا ہے کہ راوی کسی لفظ کو الٹ پلٹ ذکر کردیتا ہے۔ایسی بہت سی مثالیں احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ 
جواب نمبر 3
حضرت حسن ؓ کی یہی روایت اور بھی بہت سی کتابوں میں موجود ہے اور وہاں سیدنا عیسیؑ کے فوت ہونے کےبارے میں کوئی بات نہیں لکھی گئی بلکہ سیدنا عیسیؑ کی حیات کو بیان کیا گیا ہے۔ 
جیسا کہ یہی روایت مستدرک حاکم میں یوں موجود ہے۔ 
“عن الحریث سمعت الحسن بن علی یقول قتل لیلتہ انزل القرآن و لیلتہ اسری بعیسی و لیلتہ قبض موسی”
حریث کہتے ہیں کہ میں نے حسن ؓ سے سنا کہ حضرت علی ؓ اس رات قتل کئےگئے جس رات قرآن اترا۔اور عیسیؑ کو سیر کروائی گئی اور موسیؑ کو قبض کیا گیا۔
(مستدرک حاکم روایت نمبر 4742)
اس روایت میں سیدنا عیسیؑ کی حیات کے بارے میں کس قدرصراحت موجود ہے۔کہ اس دن سیدنا عیسیؑ کو سیر کروائی گئی۔اگر حضرت حسن ؓ،سیدنا عیسیؑ کی وفات کے قائل ہوتے تو یوں روایت ہوتی کہ اس رات سیدنا عیسیؑ کو قبض کیا گیا جس طرح سیدنا موسیؑ کے بارے میں آگے روایت میں موجود ہے کہ ان کو قبض کیا گیا۔  
پس ثابت ہوا کہ حضرت حسن ؓ سیدنا عیسیؑ کی وفات کے قائل نہیں تھے بلکہ سیدنا عیسیؑ کی حیات کے قائل تھے۔

2) امام مالکؒ پر قادیانی اعتراض اور اس کا تحقیقی جائزہ:

قادیانی امام مالکؒ سے منسوب ایک عبارت پیش کرتے ہیں جس میں ذکر ہے کہ امام مالکؒ نے یوں فرمایا۔
“وفی العتبیتہ قال مالک مات عیسی” 
عتبیہ میں ہے کہ امام مالکؒ نے فرمایا کہ عیسیؑ فوت ہوگئے ہیں۔
(مجمع البحار و شرح اکمال اکمال المعلم)
قادیانی اس عبارت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام مالکؒ بھی سیدنا عیسیؑ کی وفات کے قائل ہیں۔ 
قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں۔ 
جواب نمبر 1
قادیانی جن کتابوں  کا حوالہ پیش کرتے ہیں یعنی مجمع البحار اور اکمال اکمال المعلم میں یہ بات لکھی ہے۔تو دراصل اکمال اکمال المعلم اور مجمع البحار کے مصنف نے یہ بات ایک اور کتاب “عتبیتہ” سے نقل کی ہے۔جیسا کہ عبارت میں بھی یہ بات لکھی ہے۔
 اور “عتبیتہ” امام مالکؒ کی کتاب نہیں ہے بلکہ اس کتاب کے مصنف کا نام “محمد عتبی قرطبی” ہے۔جن کی وفات 255 ھجری میں ہوئی۔
اس کے علاوہ امام مالکؒ سے منسوب اس قول کی کوئی سند نہیں بلکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ مالک سے مراد امام مالک ہیں یا کوئی اور مالک ہے۔پس جب کسی قول کی کوئی سند بھی موجود نہ ہو اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ جس کی طرف قول منسوب کیا جارہا ہے۔اس سے وہی شخص مراد ہے یا کوئی اور مراد ہے تو اس طرح امام مالکؒ پر وفات سیدنا عیسیؑ کا قائل ہونے کا الزام لگانا سراسر بددیانتی ہے۔ 
جواب نمبر 2
قادیانی امام أبیؒ کی کتاب “اکمال اکمال المعلم” کا جو حوالہ پیش کرتے ہیں۔اس کی پوری عبارت پیش نہیں کرتے بلکہ صرف ایک جملہ نقل کردیتے ہیں۔ 
آیئے پوری عبارت دیکھتے ہیں تاکہ قادیانیوں کا دجل پوری طرح ظاہر ہوجائے۔ 
کتاب کے مصنف نے اس جگہ باب باندھا ہے۔ 
“باب نزول عیسی بن مریمؑ”
(سیدنا عیسیؑ کے نازل ہونے کے بارے میں باب) 
آگے پوری عبارت یہ ہے ۔ 
“الاکثر انہ لم یمت بل رفع ، وفی العتبیتہ قال مالک مات عیسی ابن ثلاث و ثلاثین سنتہ (ابن رشد) یعنی بموتہ خروجہ من عالم الأرض الی عالم السماء قال و یحتمل انہ مات حقیقتہ و یحیا فی آخرالزمان اذا لا بد من نزولہ لتواتر الأحاديث بذلک”
اکثریت کا یہ عقیدہ ہے کہ ان (سیدنا عیسیؑ) پر موت نہیں آئی بلکہ ان کو اٹھالیاگیا۔”عتبیہ” میں ہے کہ مالک نے کہا کہ 33 سال کی عمر میں عیسیؑ فوت ہوگئے۔امام ابن رشد نے کہا ہے کہ یہاں موت سے مراد ان (سیدنا عیسیؑ) کا زمین سے نکل کر آسمان پر جانا ہے۔یا اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ حقیقت میں فوت ہوگئے ہوں۔لیکن آخری زمانہ میں دوبارہ زندہ ہوں گے۔کیونکہ متواتر احادیث بتاتی ہیں کہ انہوں نے ضرور نازل ہونا ہے۔ 
(اکمال اکمال المعلم جلد 1 صفحہ 265)
یہاں اس عبارت میں امام مالکؒ سے منسوب قول کی وضاحت پوری طرح موجود ہے۔کہ اس قول سے مراد یہ ہے کہ سیدنا عیسیؑ زمین سے آسمان پر چلے گئے۔اور دوسری بات کہ بالفرض اگر اس قول سے مراد حقیقی موت بھی لیا جائے تو پھر بھی سیدنا عیسیؑ قرب قیامت زندہ ہوکر زمین پر ضرور تشریف لائیں گے کیونکہ اس بارے میں متواتر احادیث موجود ہیں۔ 
لیجئے پوری عبارت سے قادیانی دجل کی عمارت پوری طرح زمین بوس ہوگئی۔ 
جواب نمبر 3
اسی کتاب “اکمال اکمال المعلم ” میں امام مالکؒ کا ایک قول یہ بھی نقل کیا گیا ہے۔ 
“وفی العتبیتہ قال مالک بینما الناس قیام یستصفون لاقامتہ الصلوۃ فتغشاھم غمامتہ فإذا عیسی قد نزل”
عتبیہ میں ہے کہ مالک نے کہا کہ اس دوران لوگ نماز کے لئے صفیں بنارہے ہوں گے کہ یکایک ان پر ایک بدلی چھاجائے گی۔اور اچانک عیسیؑ نازل ہوجایئں گے۔ 
اس قول میں امام مالکؒ کا عقیدہ سیدنا عیسیؑ کے نزول کے بارے میں کتنا واضح ہے۔اور نزول کے لئے حیات لازم و ملزوم ہے۔یعنی اگر سیدنا عیسیؑ زندہ نہیں ہوں گے تو نازل کیسے ہوں گے۔پس پتہ چلا کہ امام مالکؒ بھی سیدنا عیسیؑ کے رفع و نزول کے قائل ہیں۔ 
جواب نمبر 4
اگر اس قول کی کوئی سند بھی ہوتی اور یہ قول واقعی امام مالکؒ کا ہوتا تو پھر بھی اس سے امام مالکؒ سیدنا عیسیؑ کی وفات کے قائل ثابت نہیں ہوسکتے تھے۔کیونکہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ 
“مات کے معنی لغت میں نام (نیند) بھی ہیں۔” 
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 640 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 445)
ایک اور جگہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ 
“موت کے معنی نیند اور بیہوشی کے بھی ہیں۔”
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 942 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 620)
پس اگر یہ قول واقعی امام مالکؒ کا ہوتا تو اس کا یہی مطلب تھا کہ سیدنا عیسیؑ کو نیند یا بیہوشی کی حالت میں آسمان پر اٹھایا گیا۔ 
جواب نمبر 5
پوری دنیا میں امام مالکؒ کے  مقلدین کثیر تعداد میں موجود ہیں اور وہ تمام سیدنا عیسیؑ کے رفع و نزول کے قائل ہیں۔اگر امام مالک کا عقیدہ وفات سیدنا عیسیؑ کا تھا تو ان کے مقلدین کا عقیدہ کیوں رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کا ہے؟؟ 
فقہ مالکی کی مشہور کتاب “البیان و التحصیل” میں ایک حدیث بیان ہوئی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ عیسی بن مریمؑ ضرور حج یا عمرہ یا دونوں کے لئے تلبیہ پڑھتے ہوئے فج روحاء کے مقام سے گزریں گے۔اس پر امام مالکؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ 
“قال مالک اراد فی رائ لیجمعنھما”
امام مالکؒ نے فرمایا کہ میرے خیال میں حضورﷺ کی مراد یہ ہے کہ سیدنا عیسیؑ حج اور عمرے کو جمع کریں گے۔ 
لیجئے امام مالکؒ تو سیدنا عیسیؑ کے نزول کے قائل ثابت ہوگئے اور نزول کے لئے زندہ ہونا لازم و ملزوم ہے۔پس ثابت ہوا کہ امام مالکؒ بھی سیدنا عیسیؑ کے رفع و نزول کے قائل ہیں۔

3) “امام بخاریؒ پر قادیانی اعتراضات اور اس کے تحقیقی جوابات”:

“امام بخاریؒ پر اعتراض نمبر 1”
قادیانی کہتے ہیں کہ امام بخاریؒ  بھی سیدنا عیسیؑ کی وفات کے قائل ہیں کیونکہ انہوں نے بخاری میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا خطبہ نقل کیا ہے جس میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے یہ آیت پڑھی تھی کہ 
“وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ”
(حضرت) محمدﷺ صرف رسول ہی ہیں ان سے پہلے بہت سے رُسول ہو چکے ہیں۔
قادیانی کہتے ہیں کہ اس آیت میں حضورﷺ سے پہلے تمام رسولوں کے فوت ہونے کا ذکر موجود ہے۔اور تمام رسولوں میں سیدنا عیسیؑ بھی شامل ہیں۔اور امام بخاریؒ نے اس کو اپنی کتاب بخاری میں نقل کیا ہے لہذا امام بخاریؒ بھی سیدنا عیسیؑ کی وفات کے قائل ہیں۔ 
قادیانیوں کے اس باطل اعتراض کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔ 
اس آیت میں حضورﷺ سے پہلے رسولوں کے گزرنے کا ذکر موجود ہے ان کی وفات کا ذکر موجود نہیں ہے جیسا کہ خود مرزا صاحب نے “قدخلت من قبلہ الرسل” کا ترجمہ یوں لکھا ہے کہ 
“وہ صرف ایک رسول ہے اس سے پہلے بھی رسول ہی آتے رہے ہیں۔” 
(جنگ مقدس صفحہ 7 مندرجہ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 89)
اس کے علاوہ قادیانیوں کے پہلے خلیفہ حکیم نورالدین نے اس کا ترجمہ یوں لکھا ہے کہ 
“اور محمد تو ایک رسول ہے۔پہلے اس کے بہت رسول ہوچکے۔” 
(فصل الخطاب صفحہ 28)
خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت کے لکھنے سے امام بخاریؒ کیسے وفات عیسیؑ کے قائل بن سکتے ہیں جبکہ اس آیت میں دور دور تک بھی سیدنا عیسیؑ کی وفات کا نام و نشان نہیں ہے۔
“امام بخاریؒ  پر اعتراض نمبر 2”
قادیانی امام بخاریؒ پر دوسرا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے بخاری میں حضرت ابن عباس ؓ کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں انہوں نے متوفیک کا معنی ممیتک کیا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام بخاریؒ خود سیدنا عیسیؑ کی وفات کے قائل ہیں۔ 
قادیانیوں کے اس اعتراض کے جوابات ملاحظہ فرمائیں۔ 
جواب نمبر 1
کون ہے جو یہ کہتا ہے کہ سیدنا عیسیؑ کو موت نہیں آئے گی؟سیدنا عیسیؑ کو بھی موت آئے گی لیکن ان کی موت کا وقت وہ ہے جب وہ دوبارہ واپس زمین پر تشریف لائیں گے۔اس کے بعد 45 سال زمین پر رہیں گے پھر ان کو موت آئے گی۔ 
حضرت ابن عباس ؓ بھی اسی موت کے قائل ہیں۔ 
قادیانی اگر سچے ہیں تو حضرت ابن عباس ؓ سے منسوب کوئی ایک روایت ایسی دکھا دیں جہاں انہوں نے فرمایا ہوکہ سیدنا عیسیؑ فوت ہوگئے ہیں اور قرب قیامت واپس زمین پر تشریف نہیں لائیں گے۔قادیانی قیامت تک بھی ایسی روایت پیش نہیں کر سکتے۔
جواب نمبر 2
تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس ؓ سے ایک طویل روایت منقول ہے جس میں سیدنا عیسیؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے کے واقعے کا یوں ذکر ہے۔ 
“فألقى علیہ شبہ عیسی ورفع عیسی من روزنتہ بیتہ الی السماء”
اس جوان پر سیدنا عیسیؑ کی شکل ڈال دی گئی اور آپ کو آپ کے گھر کی کھڑکی سے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا۔ 
(تفسیر ابن ابی حاتم جلد 3 صفحہ 1110)
یہی روایت حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ 
“وھذا اسناد صحیح الی ابن عباس ” 
اس کی سند حضرت ابن عباس ؓ تک صحیح ہے۔ 
(تفسیر ابن کثیر جلد 2 صفحہ 450)
ان حوالہ جات سے پتہ چلا کہ حضرت ابن عباس ؓ بھی سیدنا عیسیؑ کے رفع و نزول کے قائل تھے اور بخاری میں جو روایت ان سے منقول ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب سیدنا عیسیؑ دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے تو 45 سال بعد ان کو موت آئے گی۔ 

“خلاصہ کلام”

امام بخاریؒ نے بخاری میں سیدنا عیسیؑ کے نزول کا باب تو قائم کیا ہے اور اس کے ضمن میں سیدنا عیسیؑ کے نزول کے بارے میں بہت سی روایات لائے ہیں۔لیکن سیدنا عیسیؑ کی وفات کے بارے میں کوئی باب قائم نہیں کیا اور سیدنا عیسیؑ کی وفات کے بارے میں ایک روایت بھی نہیں لائے کیونکہ ایسی کوئی روایت موجود ہی نہیں ہے۔ 
امام بخاریؒ،بخاری میں سیدنا عیسیؑ  کے بارے میں جو روایات لائے ہیں ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیں۔ 
روایت نمبر 1

‏‏عَنْ أَبی هُرَيْرَةَ ؓ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:‏‏‏‏ “وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، ‏‏‏‏‏‏فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ۔”

حضرت ابوہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریم (عیسیٰؑ) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، مسوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے۔اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا۔ 
(بخاری حدیث نمبر 2222)
روایت نمبر 2

عَنْ أَبی هُرَيْرَةَ ؓ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:‏‏‏‏ “وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ثُمَّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا

سورة النساء آية 159۔”
حضرت ابوہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریمؑ تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔وہ صلیب کو توڑ دیں گے،سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے۔اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔اس وقت کا ایک سجدہ«دنيا وما فيها» سے بڑھ کر ہو گا۔پھر ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو۔
«وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ويوم القيامة يكون عليهم شهيدا‏»
“اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہو گا جو عیسیٰؑ کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔”
(بخاری شریف حدیث نمبر 3448)
روایت نمبر 3

حَدَّثَنَا ابْنُ بُكَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ؓ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:‏‏‏‏”كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُم۔”

حضرت ابوہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:”تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب عیسیٰ ابن مریمؑ  تم میں اتریں گے (تم نماز پڑھ رہے ہو گے) اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا۔” 
(بخاری حدیث نمبر 3449)
ہم نے تو بخاری سے سیدنا عیسیؑ کے نزول کے بارے میں روایات پیش کر دی ہیں لیکن ہمارا قادیانیوں کو تاقیامت چیلنج ہے کہ بخاری سے یا کسی بھی حدیث کی کتاب سے کوئی ایک ایسی روایت پیش کریں۔ 
جہاں یہ لکھا ہوکہ سیدنا عیسیؑ فوت ہوگئے ہیں اور قرب قیامت واپس زمین پر تشریف نہیں لائیں گے۔ 
قادیانی تاقیامت ایسی روایت پیش نہیں کر سکتے۔
ھاتو برھانکم ان کنتم صدقین )
4) “امام ابن حزم ظاہری پر قادیانی اعتراض کا تحقیقی جائزہ”
قادیانی امام ابن حزم پر بھی الزام لگاتے ہیں کہ وہ بھی سیدنا عیسیؑ کی وفات کے قائل تھے۔  
قادیانیوں کے اس الزام کے بہت سے جوابات ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔ 
جواب نمبر 1 
امام ابن حزم کا واضح عقیدہ کتابوں میں موجود ہے جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ 
“وقد صح عن رسول اللهﷺ بنقل الکواف التی نقلت نبوتہ واعلامہ و کتابہ انہ أخبر انہ  لانبی بعدہ،إلا ما جاءت الأخبار الصحاح عن نزول عیسی علیہ السلام الذی بعث الی بنی اسرائیل وادعی الیھود قتلہ و صلبہ ، فوجب الإقرار بھذہ الجملتہ ” 
اور اللہ کے رسولﷺ  سے صحیح طور پر ان تمام لوگوں نے نقل کیا ہے جنہوں نے آپ کی نبوت ،آپ کی نشانیاں اور آپ کی کتاب کو نقل کیا ہے۔ کہ آپ نے خبر دی ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں بنے گا ، مگر جو صحیح احادیث میں آیا ہے کہ وہی عیسیؑ نازل ہوں گے جن کی بعثت بنی اسرائیل کی طرف ہوئی تھی۔ اور یہود جن کے قتل اور صلب کا دعوی کرتے ہیں۔ وہ اس سے مستثنٰی ہے، ان کے نزول کا اقرار کرنا واجب ہے۔
(الفصل فی الملل والاھواء والنحل جلد 1 صفحہ 146)
اس سے واضح ہوا کہ امام ابن حزم سیدنا عیسیؑ کے دوبارہ نزول کے قائل ہیں۔اور قادیانیوں کا ان پر لگایا گیا الزام غلط ہے۔ 
جواب نمبر 2
ایک اور جگہ امام ابن حزم نے لکھا ہے کہ 
“مسئلتہ : الا ان عیسی بن مریم سینزل” 
ہاں مریم کے بیٹے عیسیؑ نازل ہوں گے۔
(المحلی جلد 1 صفحہ 9)
اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ امام ابن حزم سیدنا عیسیؑ کے دوبارہ نزول کے قائل ہیں اور نزول کے لئے زندہ ہونا لازم و ملزوم ہے۔ پس امام ابن حزم سیدنا عیسیؑ کو زندہ تسلیم کرتے ہیں۔
5) حافظ ابن قیمؒ پر قادیانی اعتراض کا تحقیقی جائزہ:
قادیانی حافظ ابن قیمؒ پر بھی اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کہ وہ بھی سیدنا عیسیؑ کی وفات کے قائل ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ 
“لو کان موسی و عیسی حیین لکانا من اتباعه” 
اگر موسیؑ اور عیسیؑ زندہ ہوتے تو آنحضرتﷺ کی پیروی کرتے۔ 
(مدارج السالكين  جلد 2 صفحہ 313)
قادیانیوں کے اس باطل اعتراض کے بہت سے جوابات ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں۔ 
جواب نمبر 1
قادیانیوں کی روایتی بددیانتی ہے کہ وہ پوری بات پیش نہیں کرتے بلکہ آدھی بات لکھ کر دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
یہ پوری عبارت ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ قادیانیوں نے کس قدر دھوکہ دہی سے کام لیا ہے۔ 
“ومحمدﷺ مبعوث الی جمیع الثقلین فرستالتہ عامتہ لجمیع الجن و الإنس فی کل زمان و لوکان موسی و عیسی حیین لکانا من اتباعہ واذا نزل عیسی بن مریم فإنما یحکم بشریعتہ محمدﷺ ” 
آنحضرتﷺ کی نبوت کافہ تمام جن و انس کے لئے اور ہر زمانے کے لئے ہے۔بالفرض اگر موسیؑ اور عیسیؑ(آج زمین پر) زندہ ہوتے تو آنحضرتﷺ کی پیروی کرتے۔اور جب عیسی بن مریمؑ نازل ہوں گے تو وہ شریعت محمدیہﷺ پر ہی عمل کریں گے۔
(مدارج السالكين جلد 2 صفحہ 313)
اس عبارت سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ حافظ ابن قیمؒ کا مطلب یہ ہے کہ اگر موسیؑ اور عیسیؑ زمین پر زندہ موجود ہوتے تو ان کو بھی حضورﷺ کی پیروی کرنی پڑتی۔اس کے علاوہ حافظ ابن قیمؒ کا عقیدہ سیدنا عیسیؑ کے نزول کا ہے۔اور نزول کے لئے زندہ ہونا لازم و ملزوم ہے۔پس حافظ ابن قیمؒ بھی سیدنا عیسیؑ کے رفع و نزول کے قائل ہیں۔ 
جواب نمبر 2
حافظ ابن قیمؒ کی ہی ایک اور عبارت ملاحظہ فرمائیں جہاں ان کا واضح عقیدہ لکھا ہے۔ 
“وھذا المسیح بن مریم حی لم یمت وغذاؤہ من جنس غذاء الملئکته”
اور مسیح بن مریمؑ زندہ ہیں۔ابھی فوت نہیں ہوئے۔اور ان کی غذا فرشتوں جیسی ہے۔
(التبیان فی ایمان القرآن صفحہ 580)

“خلاصہ کلام” 

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حافظ ابن قیمؒ، سیدنا عیسیؑ کی وفات کے قائل نہیں تھے بلکہ ان کے رفع و نزول کے قائل تھے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.