“حضرت ابو ہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ قریب ہے کہ(عیسیٰؑ)ابن مریم تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔ اس وقت کا ایک سجدہ «دنيا وما فيها» سے بڑھ کر ہو گا۔ پھر ابوہریرة ؓ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو
«وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ويوم القيامة يكون عليهم شهيدا»
“اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہو گا جو عیسیٰ کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔”
حضرت ابو ہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک (عیسیؑ)ابن مریم کا نزول ایک عادل حکمران کی حیثیت سے تم میں نہ ہو جائے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سوروں کو قتل کر دیں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گے۔(اس دور میں) مال و دولت کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی قبول نہیں کرے گا۔”
(بخاری حدیث نمبر 2476 ٬ باب کسر الصلیب و قتل الخنزیر)
“حضرت ابو ہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“قیامت قائم نہیں ہو گی،یہاں تک کہ رومی (عیسائی) اعماق (شام میں حلب اور انطاکیہ کے درمیان ایک پر فضا علاقہ جو دابق شہر سے متصل واقع ہے) یا دابق میں اتریں گے۔ان کے ساتھ مقابلے کے لئے (دمشق) شہر سے (یامدینہ سے) اس وقت روئے زمین کے بہترین لوگوں کا ایک لشکر روانہ ہو گا جب وہ (دشمن کے سامنے) صف آراءہوں گے تو رومی (عیسائی) کہیں گے تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان سے ہٹ جاؤ جنھوں نے ہمارے لوگوں کو قیدی بنایا ہوا ہے ہم ان سے لڑیں گے تو مسلمان کہیں گے۔اللہ کی قسم!نہیں ہم تمھارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے۔چنانچہ وہ ان (عیسائیوں) سے جنگ کریں گے۔ ان (مسلمانوں) میں سے ایک تہائی شکست تسلیم کر لیں گے اللہ ان کی توبہ کبھی قبول نہیں فرمائے گا اور ایک تہائی قتل کر دیے جائیں گے۔وہ اللہ کے نزدیک افضل ترین شہداء ہوں گے اور ایک تہائی فتح حاصل کریں گے۔ وہ کبھی فتنے میں مبتلا نہیں ہوں گے۔(ہمیشہ ثابت قدم رہیں گے) اور قسطنطنیہ کو (دوبارہ) فتح کریں گے۔(پھر) جب وہ غنیمتیں تقسیم کر رہے ہوں گے اور اپنے ہتھیار انھوں نے زیتون کے درختوں سے لٹکائے ہوئے ہوں گے تو شیطان ان کے درمیان چیخ کر اعلان کرے گا۔مسیح (دجال) تمھارےپیچھے تمھارے گھر والوں تک پہنچ چکا ہے وہ نکل پڑیں گے مگر یہ جھوٹ ہو گا۔جب وہ شام (دمشق) پہنچیں گے۔تووہ نمودار ہو جا ئے گا۔اس دوران میں جب وہ جنگ کے لیے تیاری کررہے ہوں گے۔صفیں سیدھی کر رہے ہوں گے تو نماز کے لیے اقامت کہی جائے گی اس وقت حضرت عیسیٰ بن مریمؑ اتریں گے تو ان کا رخ کریں گے پھر جب اللہ کا دشمن (دجال) ان کو دیکھے گاتو اس طرح پگھلےگا جس طرح نمک پانی میں پگھلتا ہے اگر وہ (حضرت عیسیٰؑ) اسے چھوڑ بھی دیں تو وہ پگھل کر ہلاک ہوجائے گا لیکن اللہ تعالیٰ اسے ان (حضرت عیسیٰؑ) کے ہاتھ سے قتل کرائے گااور لوگوں کو ان کے ہتھیارپر اس کا خون دکھائےگا۔”
حضرت نواس بن سمعان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا۔ آپ نے اس (کے ذکر کے دوران) میں کبھی آواز دھیمی کی کبھی اونچی کی۔یہاں تک کہ ہمیں ایسے لگا جیسے وہ کھجوروں کے جھنڈمیں موجود ہے۔جب شام کو ہم آپ کے پاس (دوبارہ) آئے تو آپ نے ہم میں اس (شدید تاثر) کو بھانپ لیا۔آپ نے ہم سے پوچھا
“تم لوگوں کو کیا ہواہے؟” ہم نے عرض کی اللہ کے کے رسول اللہﷺ !صبح کے وقت آپ نے دجال کا ذکر فرمایاتو آپ کی آوازمیں (ایسا) اتار چڑھاؤ تھا کہ ہم نے سمجھاکہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے۔اس پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
“مجھے تم لوگوں (حاضرین) پر دجال کے علاوہ دیگر (جہنم کی طرف بلانے والوں) کا زیادہ خوف ہےاگر وہ نکلتا ہے اور میں تمھارے درمیان موجود ہوں تو تمھاری طرف سے اس کے خلاف (اس کی تکذیب کے لئے) دلائل دینے والا میں ہوں گا اور اگر وہ نکلا اور میں موجود نہ ہوا تو ہر آدمی اپنی طرف سے حجت قائم کرنے والا خود ہو گا اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ (خود نگہبان) ہوگا۔وہ گچھے دار بالوں والا ایک جوان شخص ہے اس کی ایک آنکھ بے نور ہے۔میں ایک طرح سے اس کو عبد العزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں تم میں سے جو اسے پائے تو اس کے سامنے سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے وہ عراق اور شام کے درمیان ایک رستے سے نکل کر آئے گا۔وہ دائیں طرف بھی تباہی مچانے والا ہو گا اور بائیں طرف بھی۔اے اللہ کے بندو!تم ثابت قدم رہنا۔ “ہم نے عرض کی اللہ کے رسولﷺ !زمین میں اس کی سرعت رفتار کیا ہو گی؟آپﷺ نے فرمایا :
“بادل کی طرح جس کے پیچھے ہوا ہو۔وہ ایک قوم کے پاس آئے گا انھیں دعوت دے گا وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی باتیں مانیں گے۔ تو وہ آسمان (کے بادل) کو حکم دے گا۔وہ بارش برسائے گا اور وہ زمین کو حکم دے گا تو وہ فصلیں اگائےگی۔شام کے اوقات میں ان کے جانور (چراگاہوں سے) واپس آئیں گے تو ان کے کوہان سب سے زیادہ اونچےاور تھن انتہائی زیادہ بھرے ہوئے اور کوکھیں پھیلی ہوئی ہوں گی۔پھر ایک (اور) قوم کے پاس آئے گا اور انھیں (بھی) دعوت دے گا۔وہ اس کی بات ٹھکرادیں گے۔وہ انھیں چھوڑ کر چلا جائے گا تووہ قحط کا شکار ہو جائیں گے۔ان کے مال مویشی میں سے کوئی چیز ان کےہاتھ میں نہیں ہوگی۔وہ (دجال) بنجر زمین میں سے گزرے گا تو اس سے کہےگا اپنے خزانے نکال تو اس (بنجر زمین) کے خزانے اس طرح (نکل کر) اس کے پیچھےلگ جائیں گے۔جس طرح شہد کی مکھیوں کی رانیاں ہیں پھر وہ ایک بھر پور جوان کو بلائے گا اور اسے تلوار مار کر (یکبارگی) دوحصوں میں تقسیم کردے گا جیسے نشانہ بنایا جانے والا ہدف (یکدم ٹکڑے ہوگیا) ہو ۔ پھر وہ اسے بلائے گا تو وہ زندہ ہوکر دیکھتےہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا۔وہ (دجال) اسی عالم میں ہو گا جب اللہ تعالیٰ مسیح بن مریمؑ کو معبوث فرمادے گا۔ وہ دمشق کے حصے میں ایک سفید مینار کے قریب دوکیسری کپڑوں میں دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے۔جب وہ اپنا سر جھکا ئیں گے تو قطرے گریں گے۔اور سر اٹھائیں گے تو اس سے چمکتے موتیوں کی طرح پانی کی بوندیں گریں گی۔کسی کافر کے لیے جو آپ کی سانس کی خوشبو پائے گا مرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔اس کی سانس (کی خوشبو) وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر جائے گی۔آپؑ اسے ڈھونڈیں گے تو اسے لُد (Lyudia) کےدروازے پر پائیں گے اور اسے قتل کر دیں گے ۔ پھر عیسیٰ بن مریمؑ کے پاس وہ لوگ آئیں گے جنہیں اللہ نے اس (دجال کےدام میں آنے) سے محفوظ رکھا ہو گاتووہ اپنے ہاتھ ان کے چہروں پر پھیریں گے۔اور انھیں جنت میں ان کے درجات کی خبردیں گے۔وہ اسی عالم میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰؑ کی طرف وحی فرمائےگا میں نے اپنے (پیدا کئے ہوئے) بندوں کو باہر نکال دیا ہے ان سے جنگ کرنے کی طاقت کسی میں نہیں۔آپ میری بندگی کرنے والوں کو اکٹھا کر کے طور کی طرف لے جائیں اور اللہ یاجوج ماجوج کو بھیج دے گا،وہ ہر اونچی جگہ سے امڈتے ہوئے آئیں گے۔ان کے پہلے لوگ (میٹھے پانی کی بہت بڑی جھیل) بحیرہ طبریہ سے گزریں گے اور اس میں جو (پانی) ہوگا اسے پی جائیں گے پھر آخری لوگ گزریں گے تو کہیں گے۔کبھی اس (بحیرہ) میں (بھی) پانی ہوگا۔اللہ کے نبی حضرت عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی محصورہوکر رہ جائیں گے۔حتیٰ کہ ان میں سے کسی ایک کے لیے بیل کا سراس سے بہتر (قیمتی) ہوگا جتنےآج تمھارے لئے سو دینار ہیں۔اللہ کے نبی عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی گڑ گڑاکر دعائیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان (یاجوج ماجوج) پر ان کی گردنوں میں کپڑوں کا عذاب نازل کر دے گا تو وہ ایک انسان کے مرنے کی طرح (یکبارگی) اس کا شکار ہوجائیں گے۔پھر اللہ کے نبی عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی اترکر (میدانی) زمین پر آئیں گے تو انھیں زمین میں بالشت بھر بھی جگہ نہیں ملے گی۔جوان کی گندگی اور بد بو سے بھری ہوئی نہ ہو۔اس پرحضرت عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی اللہ کے سامنے گڑگڑائیں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کے جیسی لمبی گردنوں کی طرح (کی گردنوں والے) پرندے بھیجے گا جو انھیں اٹھائیں گے اور جہاں اللہ چاہے گا جاپھینکیں گے۔پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش بھیجے گا جس سے کو ئی گھر اینٹوں کا ہو یا اون کا (خیمہ) اوٹ مہیا نہیں کر سکے گا۔وہ زمین کو دھوکر شیشےکی طرح (صاف) کر چھوڑےگی۔پھر زمین سے کہاجائے گا۔اپنے پھل اگاؤاوراپنی برکت لوٹا لاؤ تو اس وقت ایک انار کو پوری جماعت کھائےگی اور اس کے چھلکے سے سایہ حاصل کرے گی اور دودھ میں (اتنی) برکت ڈالی جائے گی کہ اونٹنی کا ایک دفعہ کا دودھ لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو کافی ہو گا اور گائے کاایک دفعہ کا دودھ لوگوں کے قبیلےکو کافی ہو گا اور بکری کا ایک دفعہ کا دودھ قبیلے کی ایک شاخ کو کافی ہوگا۔وہ اسی عالم میں رہ رہے ہوں گے۔کہ اللہ تعالیٰ ایک عمدہ ہوا بھیجے گا وہ لوگوں کو ان کی بغلوں کے نیچے سے پکڑے گی۔اور ہر مومن اور ہر مسلمان کی روح قبض کر لے گی اور بد ترین لوگ باقی رہ جائیں گے وہ وہ گدھوں کی طرح (برسرعام) آپس میں اختلاط کریں گےتو انھی پر قیامت قائم ہوگی۔”
(مسلم حدیث نمبر 7373 ٬ کتاب الفتن٬ باب ذکر الدجال)
حدیث نمبر 6
“وعن ابن عباس ؓ فی حدیث طویل قال قال رسول اللہﷺ فعند ذلک ینزل اخی عیسی بن مریم من السماء”
“حضرت ابن عباس ؓ ایک طویل حدیث میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا پس اس وقت میرے بھائی عیسی بن مریمؑ آسمان سے نازل ہوں گے۔”
(کنزالعمال حدیث نمبر 39726 ٬ باب نزول عیسیؑ علیہ السلام)
اس روایت میں سیدنا عیسیؑ کے آسمان سے نازل ہونے کی کس قدر صراحت موجود ہے۔
اس حدیث کو مرزا صاحب کے تسلیم کردہ دسویں صدی کے مجدد علی بن حسام المتقی ہندی نے اپنی کتاب کنزالعمال میں نقل کیا ہے۔
اس کے علاوہ خود مرزا صاحب نے بھی اس حدیث کو تسلیم کیا ہے۔
“عَن عبد الله بن عَمْرو ؓ قال: قال رَسُولُ اللَّهِﷺ: «يَنْزِلُ عِيسَى بن مَرْيَمَ إِلَى الْأَرْضِ فَيَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ وَيَمْكُثُ خَمْسًا وَأَرْبَعِينَ سَنَةً ثُمَّ يَمُوتُ فَيُدْفَنُ مَعِي فِي قَبْرِي فأقوم أَنا وَعِيسَى بن مَرْيَمَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ بَيْنَ أَبَى بَكْرٍ وَعُمَرَ»”
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“آیئندہ زمانہ میں عیسیؑ زمین پر اتریں گے۔وہ نکاح کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی اور وہ 45 سال زمین پر رہیں گے۔پھر ان کو موت آئے گی اور میرے قریب دفن ہوں گے۔قیامت کے دن میں عیسی بن مریمؑ علیہ السلام ابوبکر ؓ اور عمر ؓ کے درمیان قبر سے اٹھوں گا۔”
(مشکوۃ حدیث نمبر 5508 ، باب نزول عیسیؑ)
اس حدیث کو مرقات میں ملا علی قاریؒ نے نقل کیا ہے۔اور ملا علی قاریؒ کو مرزا صاحب نے “عسل مصفی” میں مجدد تسلیم کیا ہے۔
اس کے علاوہ خود مرزا صاحب نے اس حدیث کے مفہوم کو صحیح تسلیم کیا ہے۔
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
“اس حدیث کے معنی ظاہر پر ہی عمل کریں تو ممکن ہے کوئی مثیل مسیح ایسا بھی آجائے جو آنحضرتﷺ کے روضہ کے پاس مدفون ہو۔”
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 470 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 352)
حدیث نمبر 8
“عن ابن عباس ؓ قال قال رسول اللہﷺ لن تھلک امتہ انا فی اولھا وعیسی بن مریم فی آخرھا والمھدی فی وسطھا”
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“وہ امت کبھی ہلاک نہیں ہوگی جس کے اول میں میں ہوں اور آخر میں عیسی بن مریمؑ اور درمیان میں مہدی علیہ الرضوان ہوں گے۔”
(کنزالعمال حدیث نمبر 38671 ٬ باب خروج المہدی)
اس حدیث کو امام جلال الدین سیوطیؒ نے اور علامہ علاءالدین بن حسام الدین نے روایت کیا ہے۔اور ان دونوں کو مرزاقادیانی نے “عسل مصفی” میں مجدد تسلیم کیا ہے۔
جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت نے مدینہ میں ایک بچے کو جنم دیا جس کی آنکھ نہیں تھی ، اس کی کچلیاں نظر آ رہی تھیں، رسول اللہﷺ کو اندیشہ ہوا کہ وہ دجال نہ ہو،آپﷺ نے اسے ایک چادر کے نیچے کچھ غیر واضح باتیں کرتے ہوئے پایا،اس کی والدہ نے اسے اطلاع کر دی،کہا:عبداللہ!یہ تو ابو القاسمﷺ ہیں،وہ چادر سے نکلا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:اسے کیا ہوا ؟ اللہ اسے ہلاک کرے،اگر وہ اس (ابن صیاد) کو اس کے حال پر چھوڑ دیتی تو وہ (اپنے دل کی بات) بیان کر دیتا۔”پھر ابن عمر ؓ سے مروی حدیث کے معنی کی مثل حدیث بیان کی،عمر بن خطاب ؓ نے عرض کیا،اللہ کے رسولﷺ ! مجھے اجازت مرحمت فرمائیں کہ میں اسے قتل کر دوں، رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“اگر تو یہ وہی (دجال) ہے تو پھر تم اسے قتل کرنے والے نہیں ہو،اسے قتل کرنے والے تو عیسیٰ بن مریم ؑ ہیں۔”
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ اسراء (معراج) کی رات رسول اللہﷺ نے ابراہیمؑ، موسیٰؑ اور عیسیٰؑ سے ملاقات کی،تو سب نے آپس میں قیامت کا ذکر کیا، پھر سب نے پہلے ابراہیمؑ سے قیامت کے متعلق پوچھا، لیکن انہیں قیامت کے متعلق کچھ علم نہ تھا، پھر سب نے موسیٰؑ سے پوچھا،تو انہیں بھی قیامت کے متعلق کچھ علم نہ تھا،پھر سب نے عیسیٰ بن مریمؑ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: قیامت کے آ دھمکنے سے کچھ پہلے (دنیا میں جانے کا) مجھ سے وعدہ لیا گیا ہے،لیکن قیامت کے آنے کا صحیح علم صرف اللہ ہی کو ہے (کہ وہ کب قائم ہو گی)،پھر عیسیٰؑ نے دجال کے ظہور کا تذکرہ کیا،اور فرمایا:میں (زمین پر) اتر کر اسے قتل کروں گا،پھر لوگ اپنے اپنے شہروں (ملکوں) کو لوٹ جائیں گے،اتنے میں یاجوج و ماجوج ان کے سامنے آئیں گے،اور ہر بلندی سے وہ چڑھ دوڑیں گے،وہ جس پانی سے گزریں گے اسے پی جائیں گے،اور جس چیز کے پاس سے گزریں گے،اسے تباہ و برباد کر دیں گے، پھر لوگ اللہ سے دعا کرنے کی درخواست کریں گے،میں اللہ سے دعا کروں گا کہ انہیں مار ڈالے (چنانچہ وہ سب مر جائیں گے) ان کی لاشوں کی بو سے تمام زمین بدبودار ہو جائے گی، لوگ پھر مجھ سے دعا کے لیے کہیں گے تو میں پھر اللہ سے دعا کروں گا، تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش نازل فرمائے گا جو ان کی لاشیں اٹھا کر سمندر میں بہا لے جائے گی،اس کے بعد پہاڑ ریزہ ریزہ کر دئیے جائیں گے،اور زمین چمڑے کی طرح کھینچ کر دراز کر دی جائے گی،پھر مجھے بتایا گیا ہے کہ جب یہ باتیں ظاہر ہوں تو قیامت لوگوں سے ایسی قریب ہو گی جس طرح حاملہ عورت کے حمل کا زمانہ پورا ہو گیا ہو،اور وہ اس انتظار میں ہو کہ کب ولادت کا وقت آئے گا،اور اس کا صحیح وقت کسی کو معلوم نہ ہو۔عوام (عوام بن حوشب) کہتے ہیں کہ اس واقعہ کی تصدیق اللہ کی کتاب میں موجود ہے:
«حتى إذا فتحت يأجوج ومأجوج وهم من كل حدب ينسلون»(سورة الأنبياء: 96)
یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج کھول دئیے جائیں گے،تو پھر وہ ہر ایک ٹیلے پر سے چڑھ دوڑیں گے۔
(ابن ماجہ حدیث نمبر 4081 ٬ ابواب الفتن ٬ باب فتنة الدجال و خروج عیسی ابن مریمؑ و خروج یاجوج و ماجوج)
“خلاصہ کلام”
معزز قارئین سیدنا عیسیؑ کے نزول پر یوں تو 100 سے زائد احادیث مبارکہ موجود ہیں لیکن ہم نے 10 احادیث مبارکہ کو پیش کیا ہے۔ان احادیث مبارکہ سے سیدنا عیسیؑ کا آسمان سے زمین پر نازل ہونا ثابت ہوتا ہے۔اور نزول کے لئے حیات یعنی سیدنا عیسیؑ کا زندہ ہونا لازم و ملزوم ہے۔
اگر سیدنا عیسیؑ فوت ہوگئے ہیں تو وہ نازل کیسے ہوسکتے ہیں؟؟
سیدنا عیسیؑ کا آسمان سے زمین پر نازل ہونا ہی سیدنا عیسیؑ کے زندہ ہونے کی دلیل ہے۔
ان 10 احادیث مبارکہ میں حضورﷺ نے وضاحت کے ساتھ سیدنا عیسیؑ کے آسمان سے زمین پر نزول کے بارے میں بتایا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا تھا اور وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے۔