ختم نبوتﷺ کورس” سبق نمبر 15″

سبق نمبر 15

0

“ختم نبوتﷺ کورس”

 ( مفتی سعد کامران )

سبق نمبر 15

“نزول سیدنا عیسیؑ پر قرآنی دلائل”

پچھلے سبق میں ہم نے سیدنا عیسیؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے کے قرآنی دلائل پیش کئے تھے اور جن مفسرین کی مرزاقادیانی نے تعریف کی ہوئی ہے ان کے تفسیری حوالہ جات بھی لکھے تھے۔ 
اس سبق میں ہم سیدنا عیسیؑ کے دوبارہ نزول پر قرآنی دلائل کا جائزہ لیں گے۔ 
اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں سیدنا عیسیؑ کو قیامت کی نشانیوں میں سے بتایا ہے۔یعنی جب سیدنا عیسیؑ کا دوبارہ آسمان سے نزول ہوگا اس کے بعد قیامت نزدیک ہوگی۔جیسا کہ مندرجہ ذیل آیت میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ 

“وَ اِنَّہٗ  لَعِلۡمٌ  لِّلسَّاعَۃِ  فَلَا تَمۡتَرُنَّ بِہَا وَ اتَّبِعُوۡنِ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ”

اور یقین رکھو کہ وہ (یعنی عیسیٰؑ) قیامت کی ایک نشانی ہیں۔اس لئے تم اس میں شک نہ کرو،اور میری بات مانو،یہی سیدھا راستہ ہے۔
(سورۃ الزخرف آیت نمبر 61)
اس آیت میں اللہ تعالٰی سیدنا عیسیؑ کو قیامت کی نشانیوں میں سے قرار دے رہے ہیں۔ یعنی جب وہ نازل ہوں گے وہ وقت قیامت کے بہت قریب ہوگا۔ 
قرآن مجید میں ایک اور آیت میں اللہ تعالٰی سیدنا عیسیؑ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ 

“وَ اِنۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ  یَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ  شَہِیۡدًا”

اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اس(عیسیٰؑ) کی موت سے پہلے اس (عیسیٰؑ) پر ایمان نہ لائے،اور قیامت کے دن وہ ان لوگوں کے خلاف گواہ بنیں گے۔
(سورۃ النساء آیت نمبر 159)
اس آیت کی تشریح میں 2 قسم کے تفسیری اقوال ملتے ہیں۔ 

پہلا قول

پہلا قول یہ ہے کہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ سیدنا عیسیؑ جب دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے تو ہر اہل کتاب سیدنا عیسیؑ کی وفات سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔ 

دوسرا قول

دوسرا قول یہ ہے کہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہر اہل کتاب اپنی موت سے پہلے سیدنا عیسیؑ ایمان لے آتاہے۔ 
مفسرین نے دونوں قسم کے اقوال کو اپنی تفاسیر میں نقل کیا ہے۔لیکن زیادہ راجح پہلا قول ہی ہے۔ 
دونوں اقوال میں تطبیق یہ ہے کہ جب تک سیدنا عیسیؑ کا نزول نہیں ہوتا اس وقت تک ہر اہل کتاب اپنی موت سے پہلے سیدنا عیسیؑ پر ایمان لے آتا ہے۔اور جب سیدنا عیسیؑ کا نزول ہوجائے گا اس وقت تمام اہل کتاب سیدنا عیسیؑ کی وفات سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔
اس آیت سے پتہ چلا کہ سیدنا عیسیؑ کی ابھی وفات نہیں ہوئی اور قرب قیامت جب وہ واپس تشریف لایئں گے تو اہل کتاب سیدنا عیسیؑ پر ایمان لے آئیں گے۔ 
اس آیت کی تشریح درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ 

“عَنْ أَبی هُرَيْرَةَ ؓ،قَالَ:‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:‏‏‏‏ “وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ثُمَّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا۔سورة النساء آية 159”

“حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریمؑ تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔اس وقت کا ایک سجدہ «دنيا وما فيها» سے بڑھ کر ہو گا۔پھر ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو۔
«وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ويوم القيامة يكون عليهم شهيدا‏» 
“اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہو گا جو عیسیٰؑ کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔”
(بخاری حدیث نمبر 3448، باب نزول عیسیٰ بن مریمؑ)
لیجئے قرآن مجید کی ان آیات سے سیدنا عیسیؑ کا دوبارہ نزول بھی ثابت ہوگیا۔ 
اب ان آیات کی تفسیر ان مفسرین سے دیکھتے ہیں جن مفسرین کی مرزا غلام احمد قادیانی نے تعریف کی ہے یا ان کو مجدد تسلیم کیا ہے۔
1)امام جلال الدین سیوطیؒ:
مرزاقادیانی نے امام جلال الدین سیوطیؒ کو نویں صدی کا مجدد تسلیم کیا ہے۔ 
(عسل مصفی جلد 1 صفحہ 162)
اور مرزا صاحب نے امام جلال الدین سیوطیؒ کی تعریف میں یوں لکھا ہے۔
“امام سیوطی کا مرتبہ اس قدر بلند تھا کہ انہیں جب ضرورت پیش آتی وہ حضورﷺ کی بالمشافہ زیارت کرکے ان سے حدیث دریافت کرلیا کرتے تھے۔” 
(ازالہ اوہام صفحہ 151 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 177)
آیت نمبر 1

“وَ اِنَّہٗ  لَعِلۡمٌ  لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمۡتَرُنَّ بِہَا وَ اتَّبِعُوۡنِ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ”

ہماری پیش کردہ پہلی آیت کی تشریح میں امام جلال الدین سیوطیؒ،امام فریابیؒ،سعید بن منصورؒ،مسددؒ،عبد بن حمیدؒ،ابن ابی حاتمؒ اور طبرانیؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ کی یہ تفسیر نقل کی ہے کہ 
“اللہ تعالٰی کے فرمان “وَ اِنَّہٗ  لَعِلۡمٌ  لِّلسَّاعَۃِ” سے مراد سیدنا عیسیؑ کا قیامت سے پہلے تشریف لانا ہے۔”
اس کے علاوہ امام سیوطیؒ نے امام عبد بن حمیدؒ کے حوالے سے حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ تفسیر نقل کی ہے کہ 
“اس سے مراد سیدنا عیسیؑ کا تشریف لانا ہے۔ آپ چالیس سال زمین میں زندہ رہیں گے۔”
(تفسیر در منثور،تفسیر سورۃ الزخرف آیت نمبر 61)
آیت نمبر 2

“وَ اِنۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ  یَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ  شَہِیۡدًا”

ہماری پیش کردہ دوسری آیت کی تشریح میں امام جلال الدین سیوطیؒ نے امام عبدالرزاقؒ، عبد بن حمیدؒ اور ابن منذرؒ کے حوالے سے حضرت ابوقتادہؒ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ 
“جب حضرت عیسیؑ آسمان سے اتریں گے تو تمام دینوں کے پیروکار آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ اور ان پر گواہ ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت عیسیؑ نے اپنے رب کے پیغام کو پہنچایا اور اپنے بارے میں اللہ کا بندہ ہونے کا اقرار کیا۔”  
اس کے علاوہ امام سیوطیؒ نے امام ابن ابی شیبہؒ،عبد بن حمیدؒ،امام مسلمؒ اور امام بخاریؒ کے حوالے سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ 
“رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریمؑ تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔ اس وقت کا ایک سجدہ «دنيا وما فيها» سے بڑھ کر ہو گا۔ پھر ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو۔
«وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ويوم القيامة يكون عليهم شهيدا‏» 
“اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہو گا جو عیسیٰؑ کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔”
(تفسیر در منثور،تفسیر سورۃ النساء آیت نمبر 159)
مرزا صاحب نے جن کی اس قدر تعریف کی ہے ان کا درج ذیل عقیدہ ان کی تفسیر سے ثابت ہوا۔ 
1) سیدنا عیسیؑ کا دوبارہ زمین پر تشریف لانا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ 

 

2) سیدنا عیسیؑ جب قرب قیامت دوبارہ تشریف لائیں گے تو اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے۔
  
2) حافظ ابن کثیرؒ:
مرزا صاحب نے حافظ ابن کثیرؒ کو چھٹی صدی کا مجدد تسلیم کیا ہے۔ 
(عسل مصفی جلد 1 صفحہ 162)
اس کے علاوہ مرزا صاحب نے حافظ ابن کثیرؒ کو ان اکابر ومحققین میں سے تسلیم کیا ہے۔ جن کی آنکھوں کو خداتعالیٰ نے نور معرفت عطا کیا تھا۔
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 168 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 168)
آیت نمبر 1

“وَ اِنَّہٗ  لَعِلۡمٌ  لِّلسَّاعَۃِ  فَلَا تَمۡتَرُنَّ بِہَا وَ اتَّبِعُوۡنِ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ”

ہماری پیش کردہ پہلی آیت کی تشریح میں ابن کثیر لکھتے ہیں کہ 
واضح رہے کہ مراد یہاں حضرت عیسیٰؑ کا قیامت سے پہلے کا نازل ہونا ہے جیسے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا۔

وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا

(النسآء:159)
یعنی ان کی موت سے پہلے ایک ایک اہل کتاب ان پر ایمان لائے گا۔یعنی حضرت عیسیٰؑ کی موت سے پہلے قیامت کے دن یہ ان پر گواہ ہوں گے۔
 اس مطلب کی پوری وضاحت اسی آیت کی دوسری قرأت سے ہوتی ہے جس میں ہے۔ 

وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُوْنِ ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ

(الزخرف:61)
یعنی جناب روح اللہؑ قیامت کے قائم ہونے کا نشان اور علامت ہیں۔ 
حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں یہ نشان ہیں قیامت کے لئے حضرت عیسیٰ بن مریمؑ کا قیامت سے پہلے آنا۔اسی طرح روایت کی گئی ہے۔
حضرت ابو ہریرة ؓ سے اور حضرت عباس سے اور یہی مروی ہے ابولعالیہؒ،ابو مالکؒ،عکرمہؒ، حسنؒ،قتادہؒ،ضحاکؒ وغیرہ سے۔اور متواتر احادیث میں رسول اللہﷺ نے خبر دی ہے کہ قیامت کے دن سے پہلے حضرت عیسیٰؑ امام عادل اور حاکم باانصاف ہو کر نازل ہوں گے۔
(تفسیر ابن کثیر،تفسیر سورۃ الزخرف آیت نمبر 61)
آیت نمبر 2

“وَ اِنۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ  شَہِیۡدًا”

ہماری پیش کردہ دوسری آیت کی تشریح میں ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ 
“جناب روح اللہؑ کی موت سے پہلے جملہ اہل کتاب آپ پر ایمان لائیں گے اور قیامت تک آپ ان کے گواہ ہوں گے۔
 امام ابن جریرؒ فرماتے ہیں اس کی تفسیر میں کئی قول ہیں ایک تو یہ کہ عیسیٰؑ موت سے پہلے یعنی جب آپ دجال کو قتل کرنے کے لئے دوبارہ زمین پر آئیں گے اس وقت تمام مذاہب ختم ہو چکے ہوں گے اور صرف ملت اسلامیہ جو دراصل ابراہیم حنیف کی ملت ہے رہ جائے گی۔ 
ابن عباس ؓ فرماتے ہیں (موتہ) سے مراد موت عیسیٰؑ ہے ابو مالک فرماتے ہیں جب جناب مسیح اتریں گے،اس وقت کل اہل کتاب آپ پر ایمان لائیں گے۔ابن عباس ؓ سے اور روایت میں ہے خصوصاً یہودی ایک بھی باقی نہیں رہے گا۔
 حسن بصریؒ فرماتے ہیں یعنی نجاشی اور ان کے ساتھی آپ سے مروی ہے کہ قسم اللہ کی حضرت عیسیٰؑ اللہ کے پاس اب زندہ موجود ہیں۔جب آپ زمین پر نازل ہوں گے،اس وقت اہل کتاب میں سے ایک بھی ایسا نہ ہو گا جو آپ پر ایمان نہ لائے۔آپ سے جب اس آیت کی تفسیر پوچھی جاتی ہے تو آپ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مسیحؑ کو اپنے پاس اٹھا لیا ہے اور قیامت سے پہلے آپ کو دوبارہ زمین پر اس حیثیت سے بھیجے گا کہ ہر نیک و بد آپ پر ایمان لائے گا۔ 
حضرت قتادہؒ،حضرت عبدالرحمٰنؒ وغیرہ بہت سے مفسرین کا یہی فیصلہ ہے اور یہی قول حق ہے اور یہی تفسیر بالکل ٹھیک ہے،انشاء اللہ العظیم اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی توفیق سے ہم اسے بادلائل ثابت کریں گے۔”
اس کے علاوہ اسی آیت کی تشریح میں مزید لکھتے ہیں کہ 
“صحیح بخاری جسے ساری امت نے قبول کیا ہے اس میں امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ علیہ رحمتہ و الرضوان کتاب ذکر انبیاء میں یہ حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ عنقریب تم میں ابن مریمؑ نازل ہوں گے۔ عادل منصف بن کر صلیب کو توڑیں گے،خنزیر کو قتل کریں گے۔جزیہ ہٹا دیں گے۔مال اس قدر بڑھ جائے گا کہ اسے لینا کوئی منظور نہ کرے گا،ایک سجدہ کر لینا دنیا اور دنیا کی سب چیزوں سے محبوب تر ہو گا۔اس حدیث کو بیان فرما کر راوی حدیث حضرت ابو ہریرة ؓ نے بطور شہادت قرآنی کے اسی آیت (وان من) کی آخر تک تلاوت کی۔ 
صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث ہے اور سند سے یہی روایت بخاری و مسلم میں مروی ہے اس میں ہے کہ سجدہ اس وقت فقط اللہ رب العالمین کے لئے ہی ہو گا۔اور اس آیت کی تلاوت میں قبل موتہ کے بعد یہ فرمان بھی ہے کہ قبل موت عیسیٰ بن مریمؑ پھر اسے حضرت ابو ہریرة ؓ کا تین مرتبہ دوہرانا بھی ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر تفسیر سورۃ النساء آیت نمبر 159)
مرزا صاحب نے جن کی اس قدر تعریف کی ہے ان کا درج ذیل عقیدہ ان کی تفسیر سے ثابت ہوا۔ 
1) سیدنا عیسیؑ کا دوبارہ زمین پر تشریف لانا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ 
2) سیدنا عیسیؑ جب قرب قیامت دوبارہ تشریف لائیں گے تو اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے۔
3) امام ابن جریرؒ:
مرزا صاحب نے امام ابن جریرؒ کے بارے میں
 لکھا ہے کہ
“ابن جریر رئیس المفسرین ہیں۔”
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 168 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 168)
اس کے علاوہ ایک اور جگہ مرزا صاحب نے امام ابن جریرؒ کے بارے میں لکھا ہے کہ 
“ابن جریر نہایت معتبر اور آئمہ حدیث میں سے ہے۔”
(چشمہ معرفت صفحہ 251  روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 261)
آیت نمبر 1

“وَاِنَّهٗ لَعِلۡمٌ  لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمۡتَرُنَّ بِہَا وَ اتَّبِعُوۡنِ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ”

ہماری پیش کردہ پہلی آیت کی تشریح میں ابن جریرؒ،حضرت ابن عباس ؓ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ 
“اس سے مراد سیدنا عیسیؑ کا آسمانوں سے اترنا ہے۔” 
اس کے علاوہ ابن جریرؒ نے حضرت قتادہؒ سے یہ تفسیر نقل کی ہے کہ 
“حضرت عیسیؑ کا آسمانوں سے اترنا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔” 
(تفسیر طبری،تفسیر سورۃ الزخرف آیت نمبر 61)
آیت نمبر 2

“وَ اِنۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ  یَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ  شَہِیۡدًا”

ہماری پیش کردہ دوسری آیت کی تشریح میں ابن جریرؒ،حضرت حسنؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ 
“اہل کتاب حضرت عیسیؑ کی وفات سے پہلے آپ پر ایمان لے آئیں گے۔اللہ کی قسم اس وقت وہ اللہ تعالٰی کے ہاں زندہ ہیں۔لیکن جب وہ آسمان سے اتریں گے تو سب لوگ آپؑ پر ایمان لے آئیں گے۔”
(تفسیر طبری،تفسیر سورۃ النساء آیت نمبر 159) 
مرزا صاحب نے جن کی اس قدر تعریف کی ہے ان کا درج ذیل عقیدہ ان کی تفسیر سے ثابت ہوا۔ 
1) سیدنا عیسیؑ کا دوبارہ زمین پر تشریف لانا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ 
2) سیدنا عیسیؑ جب قرب قیامت دوبارہ تشریف لائیں گے تو اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے۔
4) امام زمحشری:
مرزا صاحب نے امام زمحشری کے بارے میں 
لکھا ہے کہ
“زبان عرب کا وہ بے مثل امام جس کے مقابلے میں کسی کو چون چرا کی گنجائش نہیں۔” 
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 208 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 381)
آیت نمبر 1

“وَ اِنَّہٗ لَعِلۡمٌ  لِّلسَّاعَۃِ لَعِلۡمٌ  لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمۡتَرُنَّ بِہَا وَ اتَّبِعُوۡنِ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ “

ہماری پیش کردہ پہلی آیت کی تشریح میں امام زمحشری لکھتے ہیں کہ 
“سیدنا عیسیؑ قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں۔اور وہ جب اتریں گے تو اس کے بعد دجال کو قتل کریں گے۔اور خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑ دیں گے۔”
(تفسیر الکشاف،سورۃ الزخرف آیت نمبر 61)
آیت نمبر 2

“وَ اِنۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ  یَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ  شَہِیۡدًا”

ہماری پیش کردہ دوسری آیت کی تشریح میں امام زمحشری نے لکھا ہے کہ  
“اور کہا گیا ہے کہ اس کی ضمیر سیدنا عیسیؑ  کی طرف راجع ہے اور (اس کا مطلب یہ ہے کہ) جب وہ قرب قیامت آسمان سے نازل ہوں گے تو اہل کتاب میں سے کوئی ایک بھی نہیں بچے گا جو سیدنا عیسیؑ پر ایمان نہ لے آئے۔اور سیدنا عیسیؑ زمین پر چالیس سال رہیں گے پھر ان کی وفات ہوگی۔” 
(تفسیر الکشاف،سورۃ النساء آیت نمبر 159)
لیجئے مرزا صاحب نے جن کی اس قدر تعریف کی ہے ان کا درج ذیل عقیدہ ان کی تفسیر سے ثابت ہوا۔ 
1) سیدنا عیسیؑ کا دوبارہ زمین پر تشریف لانا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے ۔ 
2) سیدنا عیسیؑ جب قرب قیامت دوبارہ تشریف لائیں گے تو اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے۔

“خلاصہ کلام”

قرآن مجید کی آیات سے اور مرزا صاحب کے تسلیم کردہ مجددین یا تعریف کردہ مفسرین کی تفسیر سے یہ ثابت ہوا کہ سیدنا عیسیؑ کا دوبارہ نزول قرب قیامت ہوگا۔اور کچھ عرصہ وہ زمین پر رہیں گے۔اس کے بعد ان کی وفات ہوگی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.