“ختم نبوتﷺ کورس”
( مفتی سعد کامران )
سبق نمبر 15
“نزول سیدنا عیسیؑ پر قرآنی دلائل”
پچھلے سبق میں ہم نے سیدنا عیسیؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے کے قرآنی دلائل پیش کئے تھے اور جن مفسرین کی مرزاقادیانی نے تعریف کی ہوئی ہے ان کے تفسیری حوالہ جات بھی لکھے تھے۔
اس سبق میں ہم سیدنا عیسیؑ کے دوبارہ نزول پر قرآنی دلائل کا جائزہ لیں گے۔
اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں سیدنا عیسیؑ کو قیامت کی نشانیوں میں سے بتایا ہے۔یعنی جب سیدنا عیسیؑ کا دوبارہ آسمان سے نزول ہوگا اس کے بعد قیامت نزدیک ہوگی۔جیسا کہ مندرجہ ذیل آیت میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ
“وَ اِنَّہٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمۡتَرُنَّ بِہَا وَ اتَّبِعُوۡنِ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ”
اور یقین رکھو کہ وہ (یعنی عیسیٰؑ) قیامت کی ایک نشانی ہیں۔اس لئے تم اس میں شک نہ کرو،اور میری بات مانو،یہی سیدھا راستہ ہے۔
(سورۃ الزخرف آیت نمبر 61)
اس آیت میں اللہ تعالٰی سیدنا عیسیؑ کو قیامت کی نشانیوں میں سے قرار دے رہے ہیں۔ یعنی جب وہ نازل ہوں گے وہ وقت قیامت کے بہت قریب ہوگا۔
قرآن مجید میں ایک اور آیت میں اللہ تعالٰی سیدنا عیسیؑ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
“وَ اِنۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا”
اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اس(عیسیٰؑ) کی موت سے پہلے اس (عیسیٰؑ) پر ایمان نہ لائے،اور قیامت کے دن وہ ان لوگوں کے خلاف گواہ بنیں گے۔
(سورۃ النساء آیت نمبر 159)
اس آیت کی تشریح میں 2 قسم کے تفسیری اقوال ملتے ہیں۔
پہلا قول
پہلا قول یہ ہے کہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ سیدنا عیسیؑ جب دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے تو ہر اہل کتاب سیدنا عیسیؑ کی وفات سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔
دوسرا قول
دوسرا قول یہ ہے کہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہر اہل کتاب اپنی موت سے پہلے سیدنا عیسیؑ ایمان لے آتاہے۔
مفسرین نے دونوں قسم کے اقوال کو اپنی تفاسیر میں نقل کیا ہے۔لیکن زیادہ راجح پہلا قول ہی ہے۔
دونوں اقوال میں تطبیق یہ ہے کہ جب تک سیدنا عیسیؑ کا نزول نہیں ہوتا اس وقت تک ہر اہل کتاب اپنی موت سے پہلے سیدنا عیسیؑ پر ایمان لے آتا ہے۔اور جب سیدنا عیسیؑ کا نزول ہوجائے گا اس وقت تمام اہل کتاب سیدنا عیسیؑ کی وفات سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔
اس آیت سے پتہ چلا کہ سیدنا عیسیؑ کی ابھی وفات نہیں ہوئی اور قرب قیامت جب وہ واپس تشریف لایئں گے تو اہل کتاب سیدنا عیسیؑ پر ایمان لے آئیں گے۔
اس آیت کی تشریح درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
“عَنْ أَبی هُرَيْرَةَ ؓ،قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ: “وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ثُمَّ، يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا۔سورة النساء آية 159”
“حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریمؑ تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔اس وقت کا ایک سجدہ «دنيا وما فيها» سے بڑھ کر ہو گا۔پھر ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو۔
«وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ويوم القيامة يكون عليهم شهيدا»
“اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہو گا جو عیسیٰؑ کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔”
(بخاری حدیث نمبر 3448، باب نزول عیسیٰ بن مریمؑ)
لیجئے قرآن مجید کی ان آیات سے سیدنا عیسیؑ کا دوبارہ نزول بھی ثابت ہوگیا۔
اب ان آیات کی تفسیر ان مفسرین سے دیکھتے ہیں جن مفسرین کی مرزا غلام احمد قادیانی نے تعریف کی ہے یا ان کو مجدد تسلیم کیا ہے۔
1)امام جلال الدین سیوطیؒ:
مرزاقادیانی نے امام جلال الدین سیوطیؒ کو نویں صدی کا مجدد تسلیم کیا ہے۔
(عسل مصفی جلد 1 صفحہ 162)
اور مرزا صاحب نے امام جلال الدین سیوطیؒ کی تعریف میں یوں لکھا ہے۔
“امام سیوطی کا مرتبہ اس قدر بلند تھا کہ انہیں جب ضرورت پیش آتی وہ حضورﷺ کی بالمشافہ زیارت کرکے ان سے حدیث دریافت کرلیا کرتے تھے۔”
(ازالہ اوہام صفحہ 151 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 177)
آیت نمبر 1
“وَ اِنَّہٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمۡتَرُنَّ بِہَا وَ اتَّبِعُوۡنِ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ”
ہماری پیش کردہ پہلی آیت کی تشریح میں امام جلال الدین سیوطیؒ،امام فریابیؒ،سعید بن منصورؒ،مسددؒ،عبد بن حمیدؒ،ابن ابی حاتمؒ اور طبرانیؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ کی یہ تفسیر نقل کی ہے کہ
“اللہ تعالٰی کے فرمان “وَ اِنَّہٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَۃِ” سے مراد سیدنا عیسیؑ کا قیامت سے پہلے تشریف لانا ہے۔”
اس کے علاوہ امام سیوطیؒ نے امام عبد بن حمیدؒ کے حوالے سے حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ تفسیر نقل کی ہے کہ
“اس سے مراد سیدنا عیسیؑ کا تشریف لانا ہے۔ آپ چالیس سال زمین میں زندہ رہیں گے۔”
(تفسیر در منثور،تفسیر سورۃ الزخرف آیت نمبر 61)
آیت نمبر 2
“وَ اِنۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا”
ہماری پیش کردہ دوسری آیت کی تشریح میں امام جلال الدین سیوطیؒ نے امام عبدالرزاقؒ، عبد بن حمیدؒ اور ابن منذرؒ کے حوالے سے حضرت ابوقتادہؒ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ
“جب حضرت عیسیؑ آسمان سے اتریں گے تو تمام دینوں کے پیروکار آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ اور ان پر گواہ ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت عیسیؑ نے اپنے رب کے پیغام کو پہنچایا اور اپنے بارے میں اللہ کا بندہ ہونے کا اقرار کیا۔”
اس کے علاوہ امام سیوطیؒ نے امام ابن ابی شیبہؒ،عبد بن حمیدؒ،امام مسلمؒ اور امام بخاریؒ کے حوالے سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ
“رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریمؑ تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔ اس وقت کا ایک سجدہ «دنيا وما فيها» سے بڑھ کر ہو گا۔ پھر ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو۔
«وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ويوم القيامة يكون عليهم شهيدا»
“اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہو گا جو عیسیٰؑ کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔”
(تفسیر در منثور،تفسیر سورۃ النساء آیت نمبر 159)
مرزا صاحب نے جن کی اس قدر تعریف کی ہے ان کا درج ذیل عقیدہ ان کی تفسیر سے ثابت ہوا۔
1) سیدنا عیسیؑ کا دوبارہ زمین پر تشریف لانا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔