ختم نبوتﷺ کورس” سبق نمبر 14″

سبق نمبر 14

0

“ختم نبوتﷺ کورس”

 ( مفتی سعد کامران )

سبق نمبر 14

“رفع سیدنا عیسیؑ پر قرآنی دلائل” 

معزز قارئین اس سبق میں ہم سیدنا عیسیؑ کے رفع کے بارے میں چند قرآنی دلائل پیش کریں گے۔ 
سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سیدنا عیسیؑ کو یہود قتل کرنا چاہتے تھے۔اور آج تک یہودی یہی کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا عیسیؑ کو قتل کیا ہے۔ 
اور اللہ تعالٰی یہود سے سیدنا عیسیؑ کو بچانا چاہتے تھے۔یہود سیدنا عیسیؑ کو مارنے کی تدبیر کررہے تھے۔اور اللہ تعالٰی سیدنا عیسیؑ کو بچانا چاہتے تھے۔اور یہ بات تو کسی کافر سے بھی پوچھ لیں کہ اگر کسی انسان کو ساری دنیا مارنے پر تل جائے اور اس انسان کو اللہ تعالٰی بچانا چاہتے ہوں تو کون کامیاب ہوگا۔تو یقینا وہ کافر بھی یہی جواب دے گا کہ اللہ تعالٰی کے مقابلے میں ساری دنیا ناکام ہوجائے گی۔اور جس انسان کو اللہ تعالٰی بچانا چاہتے ہیں اس کو ساری دنیا کے انسان بھی مل کر مارنا تو دور کی بات ہے ہاتھ بھی نہیں لگاسکیں گے۔ 
قرآن مجید کی آیت ہے: 

وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ۔

اور ان کافروں نے (عیسیٰؑ کے خلاف) خفیہ تدبیر کی،اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی۔اور اللہ اور سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ 
(سورۃ النساء آیت نمبر 54)
اس آیت میں ذکر ہے کہ یہودی سیدنا عیسیؑ کے خلاف ان کو قتل کرنے کی تدبیر کررہے تھے اور اللہ تعالٰی نے یہود کے خلاف سیدنا عیسیؑ کو بچانے کی تدبیر کی۔ 
جس وقت یہود سیدنا عیسیؑ کو مارنے کی تدبیر کررہے تھے اس وقت اللہ تعالٰی نے سیدنا عیسیؑ سے 4 وعدے فرمائے جو کہ قرآن مجید میں موجود ہیں۔ 

اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا  وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ  فِیۡہِ  تَخۡتَلِفُوۡنَ۔

(اس کی تدبیر اس وقت سامنے آئی) جب اللہ نے کہا تھا کہ:اے عیسیٰ میں تمہیں صحیح سالم واپس لے لوں گا،اور تمہیں اپنی طرف اٹھا لوں گا،اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ان (کی ایذا) سے تمہیں پاک کردوں گا۔اور جن لوگوں نے تمہاری اتباع کی ہے،ان کو قیامت کے دن تک ان لوگوں پر غالب رکھوں گا جنہوں نے تمہارا انکار کیا ہے۔پھر تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے،اس وقت میں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔ 
اس آیت میں اللہ تعالٰی نے سیدنا عیسیؑ کو یہود سے امن کی تسلی دیتےہوئےان سے 4 وعدے کئے۔ 
1)آپ کو صحیح سالم واپس لے لوں گا۔ 
2)آپ کو صحیح سالم واپس لے کر اپنی طرف اٹھا لوں گا۔ 
3)آپ کو یہود کی صحبت سے پاک کروں گا۔ 
4)آپ کے پیروکاروں کو قیامت تک یہود پر غالب رکھوں گا۔ 
معزز قارئین اب اگلا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے سیدنا عیسیؑ سے جو یہ 4 وعدے کئے ان کو کب اور کیسے پورا کیا۔ 
اس کا جواب بھی قرآن مجید میں مذکور ہے۔ 

وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕمَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ  اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚوَ مَا قَتَلُوۡہُ  یَقِیۡنًۢا۔بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕوَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا۔

اور یہ کہا کہ:ہم نے اللہ کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کردیا تھا،حالانکہ نہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا تھا،نہ انہیں سولی دے پائے تھے،بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا۔اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں،انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم حاصل نہیں ہے، اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کر پائے۔بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا،اور اللہ بڑا صاحب اقتدار،بڑا حکمت والا ہے۔ 
(سورۃ النساء آیت نمبر 157، 158)
ان آیات سے پتہ چلا کہ یہود جب سیدنا عیسیؑ کو قتل کرنا چاہتے تھے اس وقت اللہ تعالٰی نے سیدنا عیسیؑ کو آسمان پر اٹھا لیا تھا اور اس طرح سیدنا عیسیؑ سے کئے گئے وعدے پورے ہوگئے۔کہ میں آپ کو صحیح سالم اپنی طرف لے لوں گا اور یہود کی صحبت سے پاک کروں گا اور آپ کے پیروکاروں کو قیامت تک یہود پر غالب رکھوں گا۔ 
کیونکہ جب اللہ تعالٰی نے سیدنا عیسیؑ کو آسمان پر اٹھا لیا تو اس سے یہ وعدے پورے ہوگئے۔اور سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالٰی نے جب آسمان پر اٹھا لیا تو اس کے کچھ عرصے بعد عیسائیوں اس یہودیوں پر غلبہ حاصل ہوگیا۔ جوکہ ابھی تک حاصل ہے۔آج بھی یہود دنیا میں دربدر ہیں۔ 

“ضروری نوٹ”

مسئلہ رفع و نزول سیدنا عیسیؑ پر یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ سیدنا عیسیؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے اور پھر دوبارہ زمین پر نازل ہونے کے بارے میں مرزا قادیانی سے پہلے کے کسی ایک مسلمان مفسر میں اختلاف نہیں۔اور یہ بات خود مرزا قادیانی نے بھی تسلیم کی ہے۔ 
تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالٰی نے سیدنا عیسیؑ کو آسمان پر اٹھالیا تھا اور وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے ۔ 
البتہ مفسرین میں سیدنا عیسیؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے کی کیفیت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

“پہلا قول”

 کچھ مفسرین کا خیال ہے کہ پہلے سیدنا عیسیؑ کو نیند دی گئی پھر ان کو نیند کی حالت میں آسمان پر اٹھایا گیا۔ 

“دوسرا قول”

دوسرا قول یہ ہے کہ سیدنا عیسیؑ کو اسی حالت میں آسمان پر اٹھایا گیا۔ 
یہاں تک تو ہم نے سیدنا عیسیؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے کے دلائل قرآن مجید سے دے دیئے۔ لیکن ممکن ہے کوئی قادیانی کہ دے کہ یہ ساری باتیں ہم نے اپنی طرف سے لکھی ہیں۔ اب آیئے ان آیات کی تفسیر چند ان مفسرین سے دیکھتے ہیں جن مفسرین کی مرزا صاحب نے تعریف کی ہے یا ان کو مجدد بھی تسلیم کیا ہے۔

1)امام جلال الدین سیوطیؒ

مرزا غلام احمد قادیانی نے امام جلال الدین سیوطیؒ کو نویں صدی کا مجدد تسلیم کیا ہے۔ 
(عسل مصفی جلد 1 صفحہ 162)
اور مرزا صاحب نے امام جلال الدین سیوطیؒ  کی تعریف میں یوں لکھا ہے 
“امام سیوطی کا مرتبہ اس قدر بلند تھا کہ انہیں جب ضرورت پیش آتی وہ حضورﷺ کی بالمشافہ زیارت کرکے ان سے حدیث دریافت کرلیا کرتے تھے۔” 
(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 151 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 177)
آیت نمبر 1

“وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕوَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ”

امام سیوطیؒ اپنی  تفسیر درمنثور میں اس آیت کی تفسیر میں ابن جریر اور سدی کے حوالے سے لکھتے ہیں: 
“بنی اسرائیل نے حضرت عیسیؑ اور آپ کے انیس حواریوں کا ایک گھر میں محاصرہ کرلیا۔ حضرت عیسیؑ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم میں سے وہ کون ہے جو میری صورت قبول کرے پھر اسے قتل کر دیا جائے تو اس کے لئے جنت ہے۔ایک آدمی نے اس چیز کو قبول کرلیا۔ حضرت عیسیؑ کو آسمانوں پر اٹھالیا گیا۔
اللہ تعالٰی کے فرمان سے انہوں (یہود) نے مکر کیا اللہ تعالٰی نے بھی خفیہ تدبیر کی۔اور اللہ تعالٰی بہترین خفیہ تدبیر کرنے والا ہے۔”
(تفسیر درمنثور،تفسیر سورۃ آل عمران آیت نمبر 54)
آیت نمبر 2

اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا  وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ  اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ  فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ۔

ہماری پیش کردہ دوسری آیت کی تفسیر میں امام سیوطیؒ نے ابن جریر،امام عبدالرزاق اور ابن ابی حاتم کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے حضرت حسن بصریؒ کا یہ قول نقل کیا ہے:
“میں تمہںیں  (عیسیؑ) کو زمین سے اٹھانے والا ہوں۔”
آگے مزید لکھتے ہیں:
“امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ایک اور سند سے حضرت حسن بصریؒ سے ان الفاظ کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ آپ (عیسیؑ) کو نیند عطا کرنے والا ہوں۔اللہ تعالٰی نے نیند کی حالت میں آپ کو آسمانوں پر اٹھالیا۔حضرت حسنؒ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے یہودیوں سے فرمایا کہ حضرت عیسیؑ مرے نہیں۔وہ قیامت سے قبل آپ کی طرف لوٹیں گے۔”
اس سے آگے امام سیوطیؒ،ابن جریرؒ اور ابن ابی حاتمؒ کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں:
اس کا معنی یہ ہے کہ میں تجھے دنیا سے اٹھانے والا ہوں۔تجھے موت عطا کرنے والا نہیں۔
اس کے آخر میں لکھتے ہیں:
امام ابن منذر نے حضرت حسن بصریؒ سے ان آیات کی یہ تفسیر نقل کی ہے کہ حضرت عیسیؑ اللہ تعالٰی کے ہاں اٹھا لئے گئے ہیں۔ قیامت کے روز سے پہلے انہیں دوبارہ زمین پر اتارا جائے گا۔جنہوں نے حضرت عیسیؑ اور حضورﷺ کی تصدیق کی اور جو ان کے دین پر ہے۔وہ ہمیشہ قیامت تک ان لوگوں پر غالب رہیں گے۔جو ان سے الگ راہ اختیار کریں گے۔
(تفسیر درمنثور،تفسیر سورۃ آل عمران آیت نمبر 55)
آیت نمبر 3

وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ  اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ۔وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا۔بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕوَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا۔

ہماری پیش کردہ تیسری آیت کی تفسیر میں امام جلال الدین سیوطیؒ،امام عبد بن حمیدؒ،ابن جریرؒ اور ابن منذرؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں۔کہ انہوں نے حضرت قتادہؒ کا یہ قول نقل کیا ہے: 
“جنہوں نے یہ کہا کہ ہم نے حضرت عیسیؑ کو قتل کیا وہ اللہ تعالٰی کے دشمنی یہودی ہیں۔جنہوں نے حضرت عیسیؑ کے قتل پر فخر کیا اور گمان کیا کہ انہوں نے حضرت عیسیؑ کو قتل کیا ہے۔اور سولی پر لٹکایا ہے۔ہمارے سامنے یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ تم میں سے وہ شخص کون ہے جس پر میری شبیہ ڈالی جائے کیونکہ وہ مقتول ہے۔تو آپ کے ایک ساتھی نے کہا اے اللہ کے نبی میں حاضر ہوں۔ وہ آدمی قتل کر دیا گیا۔اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کو محفوظ رکھا اور اسے آسمانوں کی طرف اٹھا لیا۔”
اسی آیت کی تفسیر میں امام جلال الدین سیوطیؒ، ابن جریرؒ ،امام عبد بن حمیدؒ اور ابن منذرؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے حضرت مجاہدؒ سے “شبہ لھم” کی یہ تفسیر نقل کی ہے: 
“یہودیوں نے ایسے آدمی کو قتل کیا جو حضرت عیسیؑ تو نہ تھے مگر وہ حضرت عیسیؑ کے مشابہ تھے۔یہودی یہ گمان کرتے تھے کہ حضرت عیسیؑ یہی ہیں۔اللہ تعالٰی نے انہیں زندہ آسمانوں پر اٹھالیا۔” 
لیجئے مرزا غلام احمد قادیانی نے جن کو مجدد تسلیم کیا ہے اور جن کی اس قدر تعریف کی ہے ان کا درج ذیل عقیدہ ان کی تفسیر سے ثابت ہوا۔ 
1)یہود سیدنا عیسیؑ کو مارنا چاہتے تھے اور اللہ تعالٰی یہود سے سیدنا عیسیؑ کو بچانا چاہتے تھے۔ 
2)اللہ تعالٰی نے یہود سے سیدنا عیسیؑ کو بچاکر آسمان پر اٹھالیا۔اور سیدنا عیسیؑ کے پیروکاروں کو قیامت تک یہود پر غلبہ عطا فرمادیا۔

2)حافظ ابن کثیرؒ

مرزا غلام احمد قادیانی نے حافظ ابن کثیرؒ  کو چھٹی صدی کا مجدد تسلیم کیا ہے۔
(عسل مصفی جلد 1 صفحہ 162)
اس کے علاوہ مرزا غلام احمد قادیانی نے حافظ ابن کثیرؒ کو ان اکابر ومحققین میں سے تسلیم کیا ہے۔جن کی آنکھوں کو خداتعالیٰ نے نور معرفت عطا کیا تھا۔
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 168 روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 168)
آیت نمبر 1

وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ۔

ہماری پیش کردہ پہلی آیت کی تفسیر میں حافظ ابن کثیرؒ اپنی مشہور تفسیر ابن کثیر میں لکھتے ہیں:
“بنی اسرائیل کے اس ناپاک گروہ کا ذکر ہو رہا ہے جو حضرت عیسیٰؑ کی طرف سے بھرے تھےکوئی یہ شخص لوگوں کو بہکاتا پھرتا ہے ملک میں بغاوت پھیلا رہا ہے اور رعایا کو بگاڑ رہا ہے،باپ بیٹوں میں فساد برپا کر رہا ہے،بلکہ اپنی خباثت خیانت کذب و جھوٹ (دروغ) میں یہاں تک بڑھ گئے کہ آپ کو زانیہ کا بیٹا کہا اور آپ پر بڑے بڑے بہتان باندھے،یہاں تک کہ بادشاہ بھی دشمن جان بن گیا اور اپنی فوج کو بھیجا تاکہ اسے گرفتار کر کے سخت سزا کے ساتھ پھانسی دے دو،چنانچہ یہاں سے فوج جاتی ہے اور جس گھر میں آپ تھے اسے چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے ناکہ بندی کر کے گھر میں گھستی ہے،لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو ان مکاروں کے ہاتھ سے صاف بچا لیتا ہے اس گھر کے روزن (روشن دان) سے آپ کو آسمان کی طرف اٹھا لیتا ہے۔اور آپ کی شباہت ایک اور شخص پر ڈال دی جاتی ہے جو اسی گھر میں تھا،یہ لوگ رات کے اندھیرے میں اس کو عیسیٰؑ سمجھ لیتے ہیں گرفتار کر کے لے جاتے ہیں۔سخت توہین کرتے ہیں اور سر پر کانٹوں کو تاج رکھ کر اسے صلیب پر چڑھا دیتے ہیں، یہی ان کے ساتھ اللہ کا مکر تھا کہ وہ تو اپنے نزدیک یہ سمجھتے رہے کہ ہم نے اللہ کے نبی کو پھانسی پر لٹکا دیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تو نجات دے دی تھی،اس بدبختی اور بدنیتی کا ثمرہ انہیں یہ ملا کہ ان کے دل ہمیشہ کے لئے سخت ہوگئے باطل پر اڑ گئے اور دنیا میں ذلیل و خوار ہوگئے اور آخر دنیا تک اس ذلت میں ہی ڈوبے رہے۔اس کا بیان اس آیت میں ہے کہ اگر انہیں خفیہ تدبیریں کرنی آتی ہیں تو کیا ہم خفیہ تدبیر کرنا نہیں جانتے بلکہ ہم تو ان سے بہتر خفیہ تدبیریں کرنے والے ہیں۔
(تفسیر ابن کثیر،تفسیر درآیت نمبر 54 سورۃ آل عمران)
آیت نمبر 2

اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا  وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ  اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ  فِیۡہِ  تَخۡتَلِفُوۡنَ۔

ہماری پیش کردہ دوسری آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیرؒ حضرت حسنؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں: 
“رسول اللہﷺ نے یہودیوں سے فرمایا کہ حضرت عیسیٰؑ مرے نہیں وہ تمہاری طرف قیامت سے پہلے لوٹنے والے ہیں۔پھرے فرماتا ہے میں تجھے اپنی طرف اٹھا کر کافروں کی گرفت سے آزاد کرنے والا ہوں،اور تیرے تابعداروں کو کافروں پر غالب رکھنے والا ہوں قیامت تک،چنانچہ ایسا ہی ہوا ، جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کو آسمان پر چڑھا لیا تو ان کے بعد ان کے ساتھیوں کے کئی فریق ہوگئے۔”
(تفسیرابن کثیر،تفسیر سورۃ آل عمران آیت نمبر 55)
آیت نمبر 3

وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚوَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ  اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕمَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ  اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ  یَقِیۡنًۢا۔بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕوَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا۔

ہماری پیش کردہ تیسری آیت کی تفسیر میں ابن کثیرؒ لکھتے ہیں: 
“پورا واقعہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کو نبوت دے کر بھیجا اور آپ کے ہاتھ پر بڑے بڑے معجزے دکھائے مثلاً بچپن کے اندھوں کو بینا کرنا،کوڑھیوں کو اچھا کرنا، مردوں کو زندہ کرنا،مٹی کے پرند بنا کر پھونک مارنا اور ان کا جاندار ہو کر اڑ جانا وغیرہ تو یہودیوں کو سخت طیش آیا اور مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے اور ہر طرح سے ایذاء رسانی شروع کر دی،آپ کی زندگی تنگ کر دی،کسی بستی میں چند دن آرام کرنا بھی آپ کو نصیب نہ ہوا،ساری عمر جنگلوں اور بیابانوں میں اپنی والدہ کے ساتھ سیاحت میں گذاری،پھر بھی انہیں چین نہ لینے دیا،یہ دمشق کے بادشاہ کے پاس گئے جو ستارہ پرست مشرک شخص تھا (اس مذہب والوں کے ملک کو اس وقت یونان کہا جاتا تھا) یہ بہت روئے پیٹے اور بدشاہ کو حضرت عیسیٰؑ کے خلاف اکسایا اور کہا کہ یہ شخص بڑا مفسد ہے۔لوگوں کو بہکا رہا ہے،روز نئے فتنے کھڑے کرتا ہے،امن میں خلل ڈالتا ہے۔ لوگوں کو بغاوت پہ اکساتا ہے وغیرہ۔بادشاہ نے اپنے گورنر کو جو بیت المقدس میں تھا،ایک فرمان لکھا کہ وہ حضرت عیسیٰؑ کو گرفتار کر لے اور سولی پر چڑھا کر اس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھ کر لوگوں کو اس دکھ سے نجات دلوائے۔اس نے فرمان شاہی پڑھ کر یہودیوں کے ایک گروہ کو اپنے ساتھ لے کر اس مکان کا محاصرہ کر لیا جس میں روح اللہؑ تھے،آپ کے ساتھ اس وقت بارہ تیرہ یا زیادہ سے زیادہ ستر آدمی تھے،جمعہ کے دن عصر کے بعد اس نے محاصرہ کیا اور ہفتہ کی رات تک مکان کو گھیرے میں لئے رہا جب حضرت عیسیٰؑ نے یہ محسوس کر لیا کہ اب وہ مکان میں گھس کر آپؑ کو گرفتار کرلیں گے یا آپ کو خود باہر نکلنا پڑے گا تو آپؑ نے صحابہ سے فرمایا تم میں سے کون اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس پر میری مشابہت ڈال دی جائے یعنی اس کی صورت اللہ مجھ جیسی بنا دے اور وہ ان کے ہاتھوں گرفتار ہو اور مجھے اللہ مخلصی دے؟میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں۔اس پر ایک نوجوان نے کہا مجھے یہ منظور ہے لیکن حضرت عیسیٰؑ نے انہیں اس قابل نہ جان کر دوبارہ یہی کہا، تیسری دفعہ بھی کہا مگر ہر مرتبہ صرف یہی تیار ہوئے رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔اب آپ نے یہی منظور فرما لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی صورت قدرتاً بدل گئی بالکل یہ معلوم ہونے لگا کہ حضرت عیسیٰؑ یہی ہیں اور چھت کی طرف ایک روزن نمودار ہو گیا اور حضرت عیسیٰؑ کی اونگھ کی حالت ہو گئی اور اسی طرح وہ آسمان پر اٹھا لئے گئے۔جیسے قرآن کریم میں ہے آیت (اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ۔ (3 ۔ آل عمران:55))
یعنی جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے عیسیٰ میں تم سے مکمل تعاون کرنے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔حضرت روح اللہ کے سوئے ہوئے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد یہ لوگ اس گھر سے باہر نکلے،یہودیوں کی جماعت نے اس بزرگ صحابی کو جس پر جناب مسیحؑ کی شباہت ڈال دی گئی تھی، عیسیٰؑ سمجھ کر پکڑ لیا اور راتوں رات اسے سولی پر چڑھا کر اس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھ دیا۔اب یہود خوشیاں منانے لگے کہ ہم نے عیسیٰ بن مریمؑ کو قتل کر دیا اور لطف تو یہ ہے کہ عیسائیوں کی کم عقل اور جاہل جماعت نے بھی یہودیوں کی ہاں میں ہاں ملا دی اور ہاں صرف وہ لوگ جو مسیحؑ کے ساتھ اس مکان میں تھے اور جنہیں یقینی طور پر معلوم تھا کہ مسیحؑ آسمان پر چڑھا لئے گئے اور یہ فلاں شخص ہے جو دھوکے میں ان کی جگہ کام آیا۔”
(تفسیر ابن کثیر،تفسیر سورۃ النساء،آیت نمبر 155)
لیجئے مرزا غلام احمد قادیانی نے جن کو مجدد تسلیم کیا ہے اور جن کی اس قدر تعریف کی ہے ان کا درج ذیل عقیدہ ان کی تفسیر سے ثابت ہوا۔ 
1)یہود سیدنا عیسیؑ کو مارنا چاہتے تھے اور اللہ تعالٰی یہود سے سیدنا عیسیؑ کو بچانا چاہتے تھے۔
2)اللہ تعالٰی نے یہود سے سیدنا عیسیؑ کو بچاکر آسمان پر اٹھالیا۔اور سیدنا عیسیؑ کے پیروکاروں کو قیامت تک یہود پر غلبہ عطا فرمادیا۔

3)”امام ابن جریرؒ”

مرزا غلام احمد قادیانی نے امام ابن جریرؒ  کے بارے میں
 لکھا ہے:
“ابن جریر رئیس المفسرین ہیں۔”
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 168 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 168)
اس کے علاوہ ایک اور جگہ مرزا غلام احمد قادیانی نے امام ابن جریرؒ کے بارے میں لکھا ہے:
“ابن جریر نہایت معتبر اور آئمہ حدیث میں سے ہے۔”
(چشمہ معرفت صفحہ 251 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 261)
آیت نمبر 1

وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ۔

ہماری پیش کردہ پہلی آیت کی تفسیر میں امام ابن جریرؒ لکھتے ہیں:
“بنی اسرائیل نے حضرت عیسیؑ اور آپ کے انیس حواریوں کا ایک گھر میں محاصرہ کرلیا۔ حضرت عیسیؑ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم میں سے وہ کون ہے جو میری صورت قبول کرے پھر اسے قتل کر دیا جائے تو اس کے لئے جنت ہے۔ایک آدمی نے اس چیز کو قبول کرلیا۔ حضرت عیسیؑ کو آسمانوں پر اٹھالیا گیا۔
اللہ تعالٰی کے فرمان سے انہوں (یہود) نے مکر کیا اللہ تعالٰی نے بھی خفیہ تدبیر کی۔اور اللہ تعالٰی بہترین خفیہ تدبیر کرنے والا ہے۔”
(تفسیر طبری تفسیر سورۃ آل عمران آیت نمبر 54)
آیت نمبر 2

اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا  وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ  اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ  فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ۔

ہماری پیش کردہ دوسری آیت کی تفسیر میں امام  ابن جریرؒ  نے حضرت حسن بصریؒ کا یہ قول نقل کیا ہے:
“میں تمہیں(عیسیؑ) کو زمین سے اٹھانے والا ہوں۔” 
آگے حضرت حسن بصریؒ کے حوالے سے  مزید لکھتے ہیں:
“حضرت حسن بصریؒ  سے ان الفاظ کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ آپ (عیسیؑ) کو نیند عطا کرنے والا ہوں۔اللہ تعالٰی نے نیند کی حالت میں آپ کو آسمانوں پر اٹھالیا۔حضرت حسنؒ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے یہودیوں سے فرمایا کہ حضرت عیسیؑ مرے نہیں۔وہ قیامت سے قبل آپ کی طرف لوٹیں گے۔”
اس سے آگے ابن جریرؒ مزید لکھتے ہیں:
“اس کا معنی یہ ہے کہ میں تجھے دنیا سے اٹھانے والا ہوں۔تجھے موت عطا کرنے والا نہیں۔”
(تفسیر طبری،تفسیر سورۃ آل عمران،آیت نمبر 55)
آیت نمبر 3

وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ  اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ  اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ  یَقِیۡنًۢا۔بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕوَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا۔

ہماری پیش کردہ تیسری آیت کی تفسیر میں ابن جریرؒ حضرت قتادہؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
“جنہوں نے یہ کہا کہ ہم نے حضرت عیسیؑ کو قتل کیا وہ اللہ تعالٰی کے دشمنی یہودی ہیں۔ جنہوں نے حضرت عیسیؑ کے قتل پر فخر کیا اور گمان کیا کہ انہوں نے حضرت عیسیؑ کو قتل کیا ہے۔ اور سولی پر لٹکایا ہے۔ہمارے سامنے یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ تم میں سے وہ شخص کون ہے جس پر میری شبیہ ڈالی جائے کیونکہ وہ مقتول ہے۔تو آپ کے ایک ساتھی نے کہا اے اللہ کے نبی میں حاضر ہوں۔وہ آدمی قتل کر دیا گیا ۔ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کو محفوظ رکھا اور اسے آسمانوں کی طرف اٹھا لیا۔”
اسی آیت کی تفسیر میں امام ابن جریرؒ نے حضرت مجاہدؒ سے “شبہ لھم” کی یہ تفسیر نقل کی ہے: 
“یہودیوں نے ایسے آدمی کو قتل کیا جو حضرت عیسیؑ تو نہ تھے مگر وہ حضرت عیسیؑ کے مشابہ تھے۔یہودی یہ گمان کرتے تھے کہ حضرت عیسیؑ یہی ہیں۔اللہ تعالٰی نے انہیں زندہ آسمانوں پر اٹھالیا۔”
(تفسیر طبری تفسیر سورۃ النساء آیت نمبر 155)
لیجئے مرزا غلام احمد قادیانی نے جن مفسر کی اس قدر تعریف کی ہے ان کا درج ذیل عقیدہ ان کی تفسیر سے ثابت ہوا۔ 
1)یہود سیدنا عیسیؑ کو مارنا چاہتے تھے اور اللہ تعالٰی یہود سے سیدنا عیسیؑ کو بچانا چاہتے تھے۔ 
2)اللہ تعالٰی نے یہود سے سیدنا عیسیؑ کو بچاکر آسمان پر اٹھالیا ۔ اور سیدنا عیسیؑ کے پیروکاروں کو قیامت تک یہود پر غلبہ عطا فرمادیا۔

4)امام زمحشری

مرزا غلام احمد قادیانی نے امام زمحشری کے بارے میں لکھا ہے:
“زبان عرب کا وہ بے مثل امام جس کے مقابلے میں کسی کو چون چرا کی گنجائش نہیں۔” 
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 208 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 381)
آیت نمبر 1

وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ۔

ہماری پیش کردہ پہلی آیت کی تفسیر میں امام زمحشری لکھتے ہیں: 
“واو بنی اسرائیل کے کفار کے لئے ہے جن سے کفر کو محسوس کیا گیا اور ان کا مکر یہ تھا کہ انہوں نے لوگوں کو مقرر کیا تھا کہ ان (عیسیؑ) کو دھوکے سے قتل کریں۔جس وقت اللہ نے عیسیؑ کو اٹھا لیا اور ان عیسیؑ کی شبیہ کو ڈال دیا جنہوں نے دھوکے کا ارادہ کیا تھا حتی کہ اس شبیہ کو قتل کردیا۔یعنی اللہ تدبیر کرنے میں ان سے قوی ہے اور نقصان پہنچانے پر ذیادہ قادر ہے وہاں سے جہاں ان کو پتا بھی نہ چلے۔”
(تفسیر الکشاف سورہ آل عمران آیت نمبر 54)
آیت نمبر 2
ہماری پیش کردہ دوسری آیت کی تفسیر میں امام زمحشری لکھتے ہیں: 
“(اذقال اللہ) یہ ظرف ہے خیر الماکرین کے لئے یا لمکر اللہ کے لئے۔
(أنی متوفیک) یعنی عنقریب میں موت دوں گا تیرے مقررہ وقت پر۔اور اسکا معنی ہےکہ میں تجھے کافروں کے قتل سےبچا لوں گا اور تیری موت کو اس وقت تک موخر کروں گا جو میں نے لکھ رکھی ہے۔اور تجھے تیری طبعی موت دوں گا.نا کہ ان کافروں کے ہاتھوں۔
(ورافعک الی)یعنی آسمان کی طرف جو کہ فرشتوں کا ٹھکانہ ہے۔
(ومطھرک من الذين کفروا) یعنی ان کی بری صحبت سے بچا لوں گا اور کہا گیا کہ میں تجھ کو زمین سے اٹھا لوں گا۔فلاں سے مال کے لینے کی طرح جب تو اس سے پورا وصول کر لے۔اور یہ بھی کہا گیا کہ میں تجھے موت دوں گا تیرے وقت پر آسمان سے نازل ہونے کے بعد اور ابھی اوپر اٹھاتا ہوں۔اور اٹھاوں گا تجھے نیند میں۔
(جیسا کہ یہ قول ہے  اور وہ جو تمہیں تمہاری نیند میں موت نہیں دیتا) (القرآن )
اور تجھے اس وقت اٹھائے گا جبکہ تو نیند میں ہوگا تاکہ تجھے کوئی خوف نہ ہو۔اور جب تو تب بیدار ہوگا اس وقت  آسمان میں امن کے ساتھ اور مقرب ہوگا۔
 (فوق الذین کفروا الی یوم القیامہ) یعنی وہ دلیل کے زریعے غالب ہوں گے اور اکثر احوال میں تلوار کے زریعے سے۔اور اس کےپیروکار ہی مسلمان ہیں اس لئےکہ انہوں نے اصل اسلام میں اس کی اتباع کی۔”
(تفسیر الکشاف،سورہ آل عمران آیت نمبر 55)
آیت نمبر 3

“وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ  اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ  اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ  یَقِیۡنًۢا۔بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا۔”

امام زمحشری ہماری پیش کردہ تیسری آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
“یہود ان (سیدنا عیسیؑ) کو قتل کرنے کے لئے جمع ہوگئے۔پس اللہ تعالٰی نے ان کی خبر اس طرح لی کہ ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔اور ان (عیسیؑ)کو یہود کی صحبت سے پاک کردیا۔”
(تفسیر الکشاف، سورة النساء آیت نمبر 157،158)
لیجئے مرزا غلام احمد قادیانی نے جن کی اس قدر تعریف کی ہے ان کا درج ذیل عقیدہ ان کی تفسیر سے ثابت ہوا۔ 
1)یہود سیدنا عیسیؑ کو مارنا چاہتے تھے اور اللہ تعالٰی یہود سے سیدنا عیسیؑ کو بچانا چاہتے تھے۔ 
2)اللہ تعالٰی نے یہود سے سیدنا عیسیؑ کو بچاکر آسمان پر اٹھالیا۔اور سیدنا عیسیؑ کے پیروکاروں کو قیامت تک یہود پر غلبہ عطا فرمادیا۔

“خلاصہ کلام”

ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات سے اور  مرزا غلام احمد قادیانی کے تسلیم کردہ مجددین اور تعریف کئے گئے مفسرین کی تفسیر سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالٰی نے سیدنا عیسیؑ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا تھا۔ 
(سیدنا عیسیؑ کے قرب قیامت دوبارہ زمین پر نزول کے قرآنی دلائل اگلے سبق میں بیان کئے جائیں گے انشاء اللہ)

Leave A Reply

Your email address will not be published.