جھوٹے مدعی نبوت مرزاغلام احمد قادیانی اور قادیانی جماعت کا تعارف

admin

admin

مرزا صاحب نے اپنے خاندان کے بارے میں لکھا ہے کہ

“میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ (برطانیہ) کا پکا خیر خواہ ہے. میرا والد میرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیر خواہ آدمی تها جنکو دربار گورنری میں کرسی ملتی تهی اور جن کا عرذ مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور 1857ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑه کر سرکار انگریزی کو مدد دی تهی۔یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دیئے تهے ان خدمات کی وجہ سے جو چٹھیات خوشنودی حکام انکو ملی تھیں مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہو گئیں مگر تین چٹھیات جو مدت سے چھپ چکی ہیں انکی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں۔پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی میرزا غلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا اور جب تموں کے گزر پر مفسدوں کا سرکار انگریزی کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا۔پھر میں اپنے والد اور بھائی کی وفات کے بعد ایک گوشہ نشین آدمی تها. تاہم سترہ برس سے سرکار انگریزی کی امداد اور تائید میں اپنے قلم سے کام لیتا ہوں۔”

(کتاب البریہ صفحہ 3 تا 6 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 4 تا 6)

نام و نسب

مرزا صاحب نے اپنے نسب کے بارے میں لکھا ہے کہ

“اب میرے سوانح اس طرح پہ ہیں کہ میرا نام غلام احمد میرے والد کا نام غلام مرتضیٰ اور دادا صاحب کا نام عطاء محمد میرے پردادا صاحب کا نام گل محمد تها اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ہماری قوم مغل برلاس ہے۔ اور میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات سے جواب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمرقند سے آئے تهے۔”

(کتاب البریہ صفحہ 134٬135 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 162،163)
(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 105 روایت نمبر 129 طبع جدید 2008ء)

مرزا صاحب کا نسب وخاندان

مرزا صاحب کے نسب و خاندان کے بارے میں تضاد ہے۔کیونکہ مرزا صاحب نے اپنا نسب و خاندان ایک نہیں بتایا۔

1) “مغل برلاس”

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ ہماری قوم “مغل برلاس” ہے۔

(کتاب البریہ صفحہ 134 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 162)

2) “فارس الاصل”

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ وہ” فارس الاصل” ہیں۔

(کتاب البریہ صفحہ 135 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 163)

3) “فارس الاصل نہیں”

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ ان کا تعلق فارس سے نہیں ہے۔

(اربعین نمبر 2 صفحہ 18 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 365)

4) “چینی الاصل”

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ وہ چینی الاصل ہیں۔

(حقیقة الوحی صفحہ 201 مندرجہ روحانی خزائن جلد نمبر 22 صفحہ 209)

(ان روایات کی روشنی میں مرزا صاحب کی نسل کا پتہ نہیں چل سکا )

تاریخ ولادت و مقام پیدائش

مرزا غلام احمد قادیانی بھارت کے مشرقی پنجاب ضلع گورداسپور تحصیل بٹالہ قصبہ قادیان میں پیدا ہوئے۔

اپنی تاریخ پیدائش کے بارے میں مرزا صاحب نے لکھا ہے:

“اب میرے ذاتی سوانح یہ ہے کہ میری پیدائش 1839ء یا 1840ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی ہے اور میں 1857ء میں سولہ برس کا یا سترہویں برس میں تھا۔”

(کتاب البریہ صفحہ 146 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 177)

کیفیت پیدائش

مرزا صاحب نے اپنی پیدائش کی کیفیت کے بارے میں لکھا ہے:

“میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی جسکا نام جنت تھا اور پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے نکلی تھی اور بعد اسکے میں نکلا تھا۔اور میرے بعد میرے والدین کے گھر میں اور لڑکی یا لڑکا نہیں ہوا اور میں انکے لئے خاتم الاولاد تھا۔”

(تریاق القلوب صفحہ 157 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 479)

ابتدائی تعلیم

مرزا قادیانی نے قادیان ہی میں رہ کر متعدد اساتذہ سےتعلیم حاصل کی جسکی تفصیل خود مرزاقادیانی کی زبانی حسب ذیل ہے۔

“بچپن کے زمانے میں میری تعلیم اس طرح پہ ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تها۔تو ایک فارسی خواں معلم میرے لیے نوکر رکها گیا۔ جنہوں نے قرآن مجید اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الہی تها۔

اور جب میری عمر تقریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کیے گئے جنکا نام فضل احمد تها میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی “فضل” ہی تھا۔

مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑهائے رہے اور میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑهے۔

اور بعد اسکے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑهنے کا اتفاق ہوا۔انکا نام گل علی شاہ تها انکو بهی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑها نے کےلیے مقرر کیا تها۔اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا۔

اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ دن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تهے۔”

(کتاب البریہ صفحہ 148 تا 150 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 179 تا 181)

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ انبیاء کرامؑ کا دینی تعلیم میں کوئی استاد نہیں ہوتا۔انبیاء کرامؑ بذریعہ وحی،اللہ تعالیٰ سے علوم حاصل کرتے ہیں جیسا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نےخود لکھا ہے:

“تمام نفوس قدسیہ انبیاءؑ کو بغیر کسی استاد اور اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر اپنے فیوض قدیمہ کا نشان ظاہر فرمایا۔”

(براہین احمدیہ حصہ اول صفحہ 7 مندرجہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 16)

مرزا صاحب کی ملازمت

مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے نے لکھا ہے:

“بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانے میں حضرت مسیح موعود تمہارے دادا کی پینش وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلا گیا جب آپ نے پینشن وصول کر لی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادهر ادهر پھراتا رہا۔پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو اپکو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔حضرت مسیح موعود اس شرم سے واپس گھر نہیں آئے اور چونکہ تمہارے دادا کا منشاء رہتا تھا کہ کہیں ملازم ہو جائے اس لیے سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہو گئے۔”

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 38، 39 روایت نمبر 49 طبع جدید 2008ء)

مدت ملازمت

مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

“واضح رہے کہ مرزا قادیانی نے سیالکوٹ میں 1864ء سے 1868ء تک ملازمت کی۔”

( سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 443 روایت نمبر 470 طبع جدید 2008ء)

مرزا صاحب کے دوستوں کا چال چلن

مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

“یہ بهی واضح رہے کہ مرزا نظام الدین اور امام الدین صاحبان کا چلن ٹهیک نہیں تھا۔نماز روزہ کی طرف راغب نہ تھے۔تمام خاندان میں صرف مرزا غلام احمد صاحب کو مسجد میں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔”

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 695 روایت نمبر 759 طبع جدید 2008ء)

مختاری کے امتحان میں فیل

مرزا صاحب نے مختاری کا امتحان بھی دیا تھا لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوسکے بلکہ فیل ہوگئے جیسا کہ خود مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

“چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں کرتے تھے اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کر دی اور قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا پر امتحان میں کامیاب نہ ہوئے۔”

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 156 روایت 150 طبع جدید 2008ء صفحہ 142)

مرزا صاحب کی ذاتی زندگی

ازار بند

مرزا صاحب ریشمی ازار بند استعمال کرتے تھے۔کیونکہ سوتی ازار بند کی گرہیں مرزا صاحب سے نہیں کھلتی تھیں۔

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 49 روایت نمبر65 جدید ایڈیشن 2008ء)

گرگابی

مرزا صاحب گرگابی بھی الٹی پہنتے تھے۔

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 60 روایت نمبر83 جدید ایڈیشن 2008ء)

گڑ اور ڈھیلے

مرزا صاحب نے ایک ہی جیب میں کھانے کے لئے گڑ اور استنجا کرنے کے لئے مٹی کے ڈھیلے رکھے ہوتے تھے۔

(براہین احمدیہ پہلا ایڈیشن)

کتا

مرزا صاحب نے ایک کتا بھی رکھا ہوا تھا جس کا نام “شیرو” تھا۔

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 816،817 روایت نمبر 957 جدید ایڈیشن 2008ء)

مرزا صاحب اور کتا

مرزا صاحب کے کھانے کے برتنوں میں کتا بھی کھانا کھاتا تھا۔

(سیرت مسیح موعود صفحہ 16)

مرزا صاحب کی خاص خدمت گزار عورت

ڈاکٹرنی

1۔ مرزا صاحب کی خاص خدمت گزار عورت کا نام “ڈاکٹرنی” تھا جو کہ ڈاکٹر نور محمد صاحب لاہوری کی بیوی تھی۔وہ مدتوں قادیان میں مرزا صاحب کے مکان میں رہی۔مرزا صاحب کو اس سے اتنا پیار تھا کہ جب وہ فوت ہو گئی تو مرزا صاحب نے اس ڈاکٹرنی کا دوپٹہ اپنی کھڑکی کے ساتھ بندھوایا۔

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 631 روایت نمبر 688 طبع جدید 2008ء)

مرزا صاحب کے پاؤں دبانے والی عورت

بھانو

مرزا صاحب کے پاؤں دبانے والی عورت کا نام “بھانو” تھا۔

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 722 روایت نمبر 780 طبع جدید 2008ء)

مرزا صاحب کے کمرے کا پہرہ دینے والی عورتیں

مائی رسول بی بی اور اہلیہ بابو شاہ دین

مرزا صاحب کے کمرے کا پہرہ دینے والی عورت کا نام مائی رسول بی بی اور اہلیہ بابو شاہ دین تھا۔

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 725 روایت نمبر 786 طبع جدید 2008ء)

مرزا صاحب کی 3 ماہ خدمت کرنے والی عورت

زینب بیگم

مرزا صاحب کی 3 ماہ خدمت کرنے والی لڑکی کا نام زینب بیگم تھا جو کہ ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی بیٹی تھی۔

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 789 روایت نمبر 910 طبع جدید 2008ء)

مرزا صاحب کے سامنے ایک عورت کا ننگا نہانا

مرزا صاحب کے سامنے ایک عورت ننگی نہاتی تھی۔ اس کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔

(ذکر حبیب صفحہ 39)

قادیانیوں سے جب گفتگو ہوتی ہے تو قادیانی عموما ایک بات کہتے ہیں کہ اگر کوئی بھی انسان نبوت کا دعوی کرے تو اس انسان کی دعوی نبوت سے پہلے کی زندگی کو دیکھا جائے گا اگر اس کی دعوی نبوت سے پہلے کی زندگی صحیح ہے اور نبوت کے معیار پر پورا اترتی ہے تو اس دعوی نبوت کرنے والے انسان کو سچا مانا جائے گا۔

اس بات کا خلاصہ یہ ہے کہ قادیانی کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کی دعوی نبوت سے پہلے کی زندگی نبوت کے معیار پر پورا اترتی ہے لہذا مرزا صاحب نبی ہیں۔

ایک بات یاد رکھیں کہ حضورﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا کیونکہ قرآن کی نص سے اور احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ نبوت آپﷺ پر ختم ہوگئی ہے اب کوئی نیا نبی نہیں آسکتا۔
لہذا یہ جائزہ لینے سے یا نہ لینے سے مرزا صاحب نے نبی تو ثابت نہیں ہوجانا، کیونکہ نبوت ختم ہوگئی ہے۔

لیکن قادیانیوں کی ہدایت کی دعا کرتے ہوئے یہ جائزہ قادیانیوں کے لئے پیش خدمت ہے۔

مرزا صاحب چور

مرزا صاحب کے بچپن کے حالات میں لکھا ہے کہ مرزاقادیانی چور تھا اور گھر سے چوریاں کرتا تھا۔

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 225 روایت نمبر 244 طبع جدید 2008ء)

مرزا صاحب حرام کھانے والے

جوانی میں اپنے دادا کی پنشن وصول کر کے ساری پنشن اڑا دی یعنی سارا پیسہ ختم کر دیا۔اور گھر والوں کو کچھ نہیں دیا۔اس شرم کی وجہ سے مرزاقادیانی گھر نہیں گیا۔

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 38،39 روایت نمبر 49 طبع جدید 2008ء)

مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

“واضح رہے کہ پینشن کی یہ رقم سات صد روپیہ تھی۔”

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 118 روایت نمبر 132 طبع جدید 2008ء)

اس 700 روپے کا اگر آج کے دور کا حساب لگائیں تو آج کل خام گوشت کی کم از کم قیمت 400 بھی لگائیں تو 700 روپے کے 11200 آنے ہونے اور جو 11200 کلو گوشت کی قیمت اس زمانے میں تھی اگر 400 سے آج کے زمانے کے حساب سے ضرب دیں۔
11200×400=4480000 تو 44 لاکھ 80 ہزار روپے بنتے ہیں۔

یعنی مرزا صاحب نے اپنے دادا کی پینشن کے 44 لاکھ 80 ہزار روپے آج کے حساب سے اڑا کر ختم کردیئے اور پھر اسی شرم سے گھر واپس نہیں آئے۔

لوگوں سے براہین احمدیہ کی 50 جلدیں لکھنے کا وعدہ کیا اور لوگوں سے 50 جلدوں کی قیمت بھی لے لی۔لیکن صرف 5 جلدیں لکھیں۔اس طرح مرزا صاحب 45 جلدوں کے پیسے کھا گئے۔

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ

“پہلے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا۔مگر پچاس سے پانچ پر اکتفا کیا گیا۔اور چونکہ پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے۔اس لئے پانچ حصوں سے وہ عدد پورا ہوگیا۔دوسرا سبب التواء کا جو تئیس برس تک حصہ پنجم لکھا نہ گیا۔یہ تها کہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ انکے دلی خیالات ظاہر کرے۔جنکے دل مرض بد گمانی میں مبتلا تھے اور ایسا ہی ظہور میں آیا۔کیونکہ اس قدر دیر کے بعد خام طبع لوگ بد گمانی میں بڑھ گئے۔ یہاں تک کہ بعض ناپاک فطرت گالیوں پر اتر آئے اور دو چار حصے اس کتاب کے جو طبع ہو چکے تھے۔کچھ تو مختلف مختلف قیمتوں پر فروخت کئے گئے تهے اور کچھ مفت تقسیم کئے گئے تھے۔پس جن لوگوں نے قیمتیں دی تهیں۔ اکثر نے گالیاں ہی دی اور اپنی قیمت بهی واپس لی۔

(دیباچہ براہین احمدیہ صفحہ 7 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 9)

مرزا صاحب فراڈ کرنے والے

مرزا صاحب حکیم نور الدین کے ساتھ مل کر فراڈ کرتے تھے۔مرزا صاحب نے حکیم نور الدین کے ساتھ مل کر ایک ایسا فراڈ کیا ہے جو شاید ہی کسی نے کیا ہو۔
مرزا صاحب حکیم نور الدین سے پیسے منگواتے رہتے تھے۔

ایک دفعہ مرزا صاحب نے حکیم نور الدین سے 500 روپیہ منگوایا۔اور 500 روپے کی رقم اس زمانے کے لحاظ سے اچھی خاصی رقم تھی۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس زمانے میں خام گوشت ایک آنے کا ایک سیر(کلو) ملتا تھا۔

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 165،166 روایت نمبر 167)

اس 500 روپے کا اگر آج کے دور کا حساب لگائیں تو آج کل خام گوشت کی کم از کم قیمت 400 فی کلو بھی لگائیں تو 500 روپے کے 8000 آنے ہونے اور جو 8000 کلو گوشت کی قیمت اس زمانے میں تھی اگر 400 سے آج کے زمانے کے حساب سے ضرب دیں۔ تو
8000×400=3200000

32 لاکھ روپے بنتے ہیں۔
لیکن وہ 500 روپیہ منی آرڈر کے ذریعے نہیں منگوایا۔ کیونکہ اگر منی آرڈر کے ذریعے وہ 500 روپیہ منگوایا جاتا تو اس پر یقینی طور پر ٹیکس بھی لگنا تھا۔ اور ٹیکس بھی اگر 500 روپے پر 20 روپے بھی بنتا تو ٹیکس تقریبا 128000 روپے بننا تھا لیکن مرزا صاحب جیسا لالچی آدمی اتنا ٹیکس دینا کہاں گوارا کرسکتا تھا۔چنانچہ مرزا صاحب نے وہ 500 روپیہ منگوانے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ پہلے 500 روپے کے نوٹ کا آدھا حصہ منگوایا۔جب وہ آدھا حصہ پہنچ گیا تو پھر اگلی دفعہ اسی 500 روپے کے نوٹ کا دوسرا حصہ منگوایا۔
اسی فراڈ کا اشارہ مرزا صاحب کے مکتوبات میں موجود ہے۔

(مکتوبات احمد جلد 2 صفحہ 41،42 مکتوب نمبر ،26،25 جدید ایڈیشن 2008ء مکتوب بنام حکیم نورالدین)

مرزا صاحب کی وراثت

مرزا صاحب نے اپنی دعوی نبوت سے پہلے کی زندگی میں انگریز کی عدالت میں مقدمہ لڑ کر مالی وراثت حاصل کی۔

حالانکہ آپﷺ نے فرمایا:

إِنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ۔

ہمارا (گروہ انبیاءؑ کا) ورثہ تقسیم نہیں ہوتا، ہمارا ترکہ صدقہ ہے۔

(بخاری:حدیث نمبر 3093)

ایک اور روایت میں حضورﷺ نے فرمایا:

“إِنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ۔”

بیشک علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں،اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے،لہٰذا جس نے اس علم کو حاصل کیا،اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے) پورا پورا حصہ لیا۔

(ابن ماجہ:حدیث نمبر 223)

خلاصہ

اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر قادیانیوں کی بات مان کر مرزا صاحب کی دعوی نبوت سے پہلے کی زندگی کو نبوت کے معیار پر پرکھا جائے تو بھی مرزا صاحب چور، حرام کھانے والے، فراڈ کرنے والے اور وراثت لینے والے ثابت ہوتے ہیں۔
اور کوئی نبی نعوذ باللہ چور ،حرام کھانے والا، فراڈیا اور وراثت لینے والا نہیں ہوتا۔

لیجئے قادیانیوں کے اصول کے مطابق مرزا صاحب اپنے دعوی نبوت میں جھوٹے ثابت ہوگئے۔

مرزا صاحب کی بیویاں

مرزا غلام احمد قادیانی کی دو بیویاں تھیں۔

پھجے دی ماں

” پہلی بیوی جسکو “پھجے دی ماں” کہا جاتا ہے اسکا نام حرمت بی بی تھا۔اس سے 1852ء یا 1853ء میں شادی ہوئی۔”

مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

“بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کو اوائل سے ہی مرزا فضل احمد کی والدہ سے جنکو لوگ عام طور پر “پجھے دی ماں” کہا کرتے تھے۔بے تعلقی سی تھی۔جسکی وجہ یہ تھی کہ حضرت صاحب کے رشتے داروں کو دین سے سخت بے رغبتی تھی۔اور انکا انکی طرف میلان تھا اور وہ اسی رنگ میں رنگین تھیں اس لیے حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) نے ان سے مباشرت ترک کر دی تھی۔”

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 30 روایت نمبر 41 طبع جدید 2008ء)

قادیانی ذہنیت کی پستی ملاحظہ فرمائیں کہ مرزا بشیر احمد ایم اے جو مرزا صاحب کی دوسری بیوی نصرت جہاں بیگم کی اولاد میں سے ہے جب اپنی والدہ کا ذکر کرتا ہے تو اسے ام المومنین کے لقب سے یاد کرتا ہے اور جب مرزا صاحب کی پہلی بیوی کا ذکر کرتا ہے تو اسے “پھجے کی ماں” کہتا ہے۔پھجے سے مراد مرزا فضل احمد ہے جس نے مرزا صاحب کو نبی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تها مرزا صاحب نے محمدی بیگم کی وجہ سے حرمت بی بی کو طلاق دے دی تهی۔

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 30 روایت نمبر 41 طبع جدید 2008ء)

پہلی بیوی سے مرزا صاحب کی اولاد

پہلی بیوی سے مرزا صاحب کے 2 بیٹے تھے۔
1) مرزا سلطان احمد
2) مرزا فضل احمد

ان دونوں بیٹوں نے مرزا صاحب کو دعوی نبوت میں کذاب سمجھا تھا۔
مرزا فضل احمد، مرزا صاحب (اپنے باپ) کی زندگی میں مر گیا لیکن مرزا صاحب نے اسکا جنازہ نہ پڑھا۔

( روزنامہ الفضل قادیان 7 جولائی 1943ء صفحہ 3)

پہلے بیٹے مرزا سلطان احمد کو مرزا صاحب نے عاق کر دیا تھا۔
مرزا سلطان احمد کے مرزا صاحب کو نبی نہ ماننے کا حوالہ یہ ہے۔

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 750،751 روایت نمبر 835 ،834 طبع جدید 2008ء)

نصرت جہاں بیگم

دوسری بیوی جسکا نام نصرت جہاں بیگم ہے اس سے نکاح 1884ء میں ہوا.

“نصرت جہاں بیگم کے متعلق مرزا صاحب نے خود اعتراف کیا ہے کہ لوگ میری بیوی پر الزام لگاتے ہیں کہ اسکی میرے بعض مریدوں سے آشنائی ہے۔”

(کشف الغلطاء صفحہ 16 ٬ 20 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 197 ، 203)

مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

“کیا وجہ ہے کہ حکیم نور الدین اور عبدالکریم سیالکوٹی باقی قادیانی جماعت کے برعکس نصرت جہاں بیگم کو ” ام المومنین ” کی بجائے
“بیوی صاحبہ” کہتے تھے؟

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 56 روایت نمبر 77 طبع جدید 2008ء)

نصرت جہاں سے مرزا صاحب کی اولاد

مرزا صاحب کی دوسری بیوی نصرت جہاں سے درج ذیل اولاد ہوئی۔

لڑکے

1) مرزا بشیر احمد (1887ء تا 1888ء)

2) مرزا بشیر الدین محمود احمد (1889ء تا 1965ء)

3) مرزا شوکت احمد (1891ء تا 1892ء)

4) مرزا بشیر احمد ایم اے (1893ء تا 1963ء)

5) مرزا شریف احمد (1895ء تا 1961ء)

6) مرزا مبارک احمد (1899ء تا 1908ء)

لڑکیاں

1) عصمت (1886ءت ا 1891ء)

2) مبارکہ بیگم (1897ء تا1997ء)

3) امتہ النصیر (1903ء تا 1903ء)

4) امتہ الحفیظ بیگم (1904ء تا 1987ء)

ان میں سے فضل احمد (جو پہلی بیوی سے تھا) بشیر اول، شوکت احمد، مبارک احمد، عصمت اور امتہ النصیر کا مرزا صاحب کی زندگی میں میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔

جبکہ باقی اولاد سلطان احمد (پہلی بیوی سے)
بشیر الدین محمود احمد، بشیر احمد، شریف احمد مبارکہ بیگم، امتہ الحفیظ بیگم ) مرزا صاحب کی موت کے بعد بهی زندہ رہی۔

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 104 روایت 128 طبع جدید 2008ء)

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 443 روایت نمبر 470 طبع جدید 2008ء)

مرزا صاحب نے اپنی لڑکی مبارکہ بیگم کا نکاح نواب محمد علی خان سے کیا اور اسکا حق مہر چھپن ہزار روپے مقرر کیا تھا۔

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 338 روایت نمبر 369 طبع جدید 2008ء)

اور اپنی لڑکی امتہ الحفیظ کا نکاح نواب عبداللہ خان سے کیا اور اسکا حق مہر پندرہ ہزار روپے مقرر کیا۔

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 338 روایت 369 طبع جدید 2008ء)

محمدی بیگم

مرزا صاحب کی ان دو بیویوں کے علاوہ ایک اور بیوی بھی تھی جسکے ساتھ بقول مرزا صاحب کے اسکا نکاح آسمانوں پہ ہوا تھا۔

جسکا نام “محمدی بیگم” تھا مگر اسکے ساتھ اس کی شادی ساری زندگی نہ ہو سکی اسکا مفصل تذکرہ آیندہ پیش گوئیوں کے ذیل میں آئے گا۔

مرزا صاحب کی بیماریاں

جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کو درج ذیل بیماریاں لگی تھیں۔حالانکہ مرزا صاحب نے لکھا تھا کہ اسے اللہ کی طرف سے الہام ہے:

“ہم نے تیری صحت کا ٹھیکہ لیا ہے۔”

(تذکرہ صفحہ 685 طبع چہارم 2004ء)

1) “ہسٹریا کے دورے”

مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

“بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹریا کا دورہ بشیر اول ہمارا ایک بڑا بھائی ہوتا تھا (جو 1888ء میں فوت ہوگیا تھا) کی وفات کے چند دن بعد ہوا تھا۔رات کو سوتے ہوئے آپ کو اتھو آیا اور پھر اس کے بعد طبیعت خراب ہوگئی۔مگر یہ دورہ خفیف تھا۔ پھر اس کے کچھ عرصہ بعد آپ ایک دفعہ نماز کے لئے باہر گئے اور جاتے ہوئے فرما گئے کہ آج کچھ طبیعت خراب ہے۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تھوڑی دیر بعد شیخ حامد علی (حضرت مسیح موعود کا پرانا خادم تھا۔اب فوت ہوچکا ہے) نے دروازہ کھٹکھٹایا کہ جلدی پانی کی ایک گاگر گرم کردو۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں سمجھ گئی کہ حضرت صاحب کی طبیعت ہوگئی ہوگی۔چنانچہ میں نے کسی ملازم عورت کو کہا کہ اس سے پوچھو کہ میاں کی طبیعت کا کیا حال ہے۔شیخ حامد علی نے کہا کچھ خراب ہوگئی ہے۔میں پردہ کرا کر مسجد میں چلی گئی تو آپ لیٹے ہوئے تھے۔میں جب پاس گئی تو فرمایا میری طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی۔لیکن اب افاقہ ہے۔میں نماز پڑھا رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی کالی چیز میرے سامنے سے اٹھی ہے اور آسمان تک چلی گئی ہے۔پھر میں چیخ مار کر زمین پر گر گیا اور غشی کی سی حالت ہوگئی۔

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 16،17 روایت نمبر 19 طبع جدید 2008ء)

2) “دورے پر دورہ “

مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

“والدہ صاحبہ فرماتی ہیں۔اس کے بعد آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہوگئے۔خاکسار نے پوچھا کہ دوروں میں کیا ہوتا تھا۔والدہ صاحبہ نے کہا کہ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوجاتے تھے۔اور بدن کے پٹھے کھنچ جاتے تھے۔خصوصا گردن کے پٹھے اور سر میں چکر ہوتا تھا۔”

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 16،17 روایت نمبر 19 طبع جدید 2008ء)

3) “خونی قے”

مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

“پھر یک لخت بولتے بولتے آپ کو ابکائی آئی اور ساتھ ہی قے ہوئی جو خالص خون کی تھی۔جس میں کچھ خون جما ہوا تھا۔اور کچھ بہنے والا تھا۔حضرت نے تکیے سے سر اٹھا کر رومال سے اپنا منہ پونچھا۔اور آنکھیں بھی پونچھیں۔جو قے کی وجہ سے پانی لے آئی تھیں۔”

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 97 روایت نمبر 107 طبع جدید 2008ء)

4) “مراق”

مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

“سیٹھ غلام نبی نے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی) سے فرمایا کہ حضور غلام نبی کو مراق ہے۔تو حضور نے فرمایا ایک رنگ میں سب نبیوں کو مراق ہوتا ہے۔اور مجھ کو بھی ہے۔”

(سیرت المہدی جلد1 صفحہ 822 روایت نمبر 969 طبع جدید 2008ء)

5) “ہسٹریا “

مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

“ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) سے سنا کہ مجھے ہسٹریا ہے۔”

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 340 روایت نمبر 372 طبع جدید 2008ء)

6) “سل”

مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

“بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ تمارے دادا (مرزا غلام مرتضی ) کی زندگی میں حضرت صاحب کو سل ہوگئی۔

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 49 روایت نمبر 66 طبع جدید 2008ء)

7) “نامردی”

مرزا صاحب نے لکھا ہے:

“جب میں نے نئی شادی کی تھی۔تو ایک مدت تک مجھے یقین رہا کہ میں نامرد ہوں۔”

(مکتوبات احمد جلد 2 صفحہ 27 مکتوب نمبر 15 مکتوب بنام حکیم نورالدین)

8) “کالی بلا”

مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی ) نے فرمایا میری طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی۔لیکن اب افاقہ ہے۔میں نماز پڑھا رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی کالی چیز میرے سامنے سے اٹھی ہے اور آسمان تک چلی گئی ہے۔پھر میں چیخ مار کر زمین پر گر گیا اور غشی کی سی حالت ہوگئی۔

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 16،17 روایت نمبر 19 طبع جدید 2008ء)

9) “اوپر اور نیچے والے امراض”

مرزا صاحب نے لکھا ہے:

“دو مرض میرے لاحق حال ہیں۔ایک بدن کے اوپر کے حصہ میں اور دوسرا بدن کے نیچے کے حصے میں۔اوپر کے حصے میں دوران سر ہے اور نیچے کے حصے میں کثرت پیشاب ہے۔اور دونوں مرضیں اس زمانہ سے ہیں جس زمانے میں میں نے اپنا دعوی مامور من اللہ ہونے کا شائع کیا ہے۔”

(حقیقة الوحی صفحہ 307 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 320)

01) “پرانی اور دائمی بیماریاں”

مرزا صاحب نے لکھا ہے:

“مجھے دو مرض دامن گیر ہیں۔ایک جسم کے اوپر کے حصہ میں۔یعنی سردرد اور دوران خون کم ہوکر ہاتھ پاؤں سرد ہو جانا۔نبض کم ہو جانا اور دوسرے جسم کے نیچے کے حصہ میں کہ کثرت پیشاب اور اکثر دست رہنا۔اور یہ بیماریاں قریبا 30 برس سے ہیں۔”

(نسیم دعوت صفحہ 68 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 435)

11) “سخت دورہ اور ٹانگیں باندھنا”

مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

“بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ اوائل میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود(مرزا صاحب) کو سخت دورہ پڑا۔کسی نے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد کو بھی اطلاع دے دی اور وہ دونوں آگئے۔پھر ان کے سامنے بھی حضرت(مرزا صاحب) صاحب کو دورہ پڑا۔والدہ صاحبہ فرماتی ہیں۔اس وقت میں نے دیکھا کہ مرزا سلطان احمد تو آپ کی چارپائی کے پس خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہے۔مگر مرزا فضل احمد کے چہرہ پر ایک رنگ آتا تھا۔اور ایک جاتا تھا۔اور کبھی ادھر بھاگتا تھا۔اور کبھی ادھر۔کبھی اپنی پگڑی اتار کر حضرت صاحب (مرزا صاحب) کی ٹانگوں کو باندھتا تھا۔اور کبھی پاؤں دبانے لگ جاتا تھا اور گھبراہٹ میں اس کے ہاتھ کانپتے تھے۔”

(سیرت المہدی جلد1 صفحہ 25 روایت نمبر 25 جدید ایڈیشن 2008ء)

21) “مقعد سے خون”

مرزا صاحب نے لکھا ہے:

“ایک مرتبہ میں قولنج زحیری سے سخت بیمار ہوا اور سولہ دن تک پاخانہ کی راہ سے خون آتا رہا۔اور سخت درد تھا۔جو بیان سے باہر ہے۔”

(حقیقة الوحی صفحہ 234 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 246)

31) “زبان میں لکنت”

مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

“حضرت مسیح موعود (مرزا صاحب) کی زبان میں کسی قدر لکنت تھی اور آپ پرنالے کو پنالہ کہتے تھے۔”

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 308 روایت نمبر 336 جدید ایڈیشن 2008ء)

41) “کیچڑ تھراپی”

مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

“ایک دفعہ والد صاحب(مرزا قادیانی) سخت بیمار ہوگئے۔اور حالت نازک ہوگئی اور حکیموں نے ناامیدی کا اظہار کردیا۔اور نبض بھی بند ہوگئی مگر زبان جاری تھی۔والد صاحب(مرزا قادیانی) نے کہا کہ میرے اوپر اور نیچے کیچڑ کر رکھ دو۔چنانچہ ایسا کیا گیا اور اس سے حالت روبا اصلاح ہوگئی۔”

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 203 روایت نمبر 200 جدید ایڈیشن 2008ء)

51) “چشم نیم باز”

مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

“آپ کی آنکھیں ہمیشہ نیم بند رہتی تھیں۔اور ادھر ادھر آنکھیں اٹھاکر دیکھنے کی آپ کو عادت نہیں تھی۔بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ سیر میں جاتے ہوئے آپ کسی خادم کا ذکر غائب کے صیغے میں فرماتے تھے۔حالانکہ وہ آپ کے ساتھ ساتھ جارہا ہوتا تھا۔پھر کسی کے بتلانے پر آپ کو پتہ چلتا تھا کہ وہ شخص آپ کے ساتھ ہے۔”

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 363،364 روایت نمبر 406 جدید ایڈیشن 2008ء)

61) “مائی اوپیا”

مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

حضرت صاحب(مرزا صاحب) کی آنکھوں میں مائی اوپیا تھا۔اسی وجہ سے پہلی رات کا چاند نہیں دیکھ سکتے تھے۔

(سیرت المھدی جلد 1 صفحہ 624،روایت نمبر 673،جدید ایڈیشن 2008ء)

17) دائم المرض

مرزا صاحب نے لکھا ہے:

اس عاجز کی عمر اس وقت پچاس برس سے کچھ زیادہ ہے۔اور ضعیف اور دائم المرض اور طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہے۔

(سراج منیر صفحہ 15 مندرجہ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 17)

یہ تو ہم نے مرزا صاحب کی چند بیماریوں کا ذکر کیا ہے ورنہ مرزا صاحب کو پچاس سے زائد بیماریاں تھیں۔

مرزا صاحب کی وفات

مرزا صاحب کی وفات 26 مئی 1908ء کو لاہور میں ہیضہ کی بیماری سے وقتی بیت الخلاء میں ہوئی۔اور پھر مرزا صاحب کو قادیان میں دفن کیا گیا۔

(سیرت المھدی جلد 1 صفحہ 11 روایت نمبر 12،طبع جدید 2008ء)

قادیانی جماعت کا تعارف

مرزا کے جانشین:

حکیم نورالدین

مرزا غلام احمد قادیانی کی وفات 26 مئی 1908ء بروز منگل لاہور میں ہوئی۔اسکا پہلا خلیفہ حکیم نور الدین ہوا جو بھیرہ کا تھا یہ بڑا اجل طبیب تھا اور عالم تھا یہ کشمیر کے راجہ کے پاس رہتا تھا۔راجہ کشمیر نے اسے انگریز کی جاسوسی کے الزام میں نکال دیا تھا اسکا چونکہ مرزا قادیانی سے پہلے سے رابطہ اور تعلق تھا اس لئے دونوں اکٹھے ہو گئے پھر دونوں نے ملکر اس دھندے کو چلایا یہ اسکا دست راست تھا اور عالم میں اس سے بہت اونچا تھا حکیم نور الدین کی خلافت 1914ء تک رہی۔

اسکے بعد خلافت کے دو امیدوار تھے۔
1)مولوی محمدعلی لاہوری
2)مرزا بشیر الدین محمود احمد

مولوی محمد علی لاہوری،مرزا صاحب کا بڑا قریبی مرید تها اور بہت پڑها لکها آدمی تها قابلیت کے لحاظ سے واقعی وہ خلافت کا حقدار تها مگر مقابلہ میں چونکہ خود مرزا صاحب کا بیٹا تها۔اس لئے اسکو کامیابی نہ ہوئی اور چونکہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کے حق میں اسکی والدہ کا ووٹ بھی تھا جسکو مرزائی”ام المومنین” کہتے ہیں اس لئے مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ بن گیا۔ بوقت خلافت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی عمر 24 سال تھی۔

اس کی شہزادوں کی سی زندگی تھی اور خوب عیاش تھا۔1965ء تک یہ خلیفہ رہا اس نے اپنے والد مرزا غلام احمد قادیانی کی سیرت پر کتاب بھی لکھی جسکا نام “سیرت مسیح موعود” ہے اسکے علاوہ بھی اس نے متعدد کتب لکھیں۔

1914ء میں مرزایئوں کے دو فرقے بن گئے۔
1)قادیانی جماعت
2)لاہوری جماعت

مرزا بشیرالدین محمود جس جماعت کا سربراہ بنا اس کو قادیانی جماعت کہتے ہیں۔اور محمد علی لاہوری جس جماعت کا سربراہ بنا اس کو لاہوری جماعت کہتے ہیں۔

قادیانی جماعت

مرزا ناصر احمد

مرزا بشیر الدین محمود کی وفات کے بعد اس کا بیٹا مرزا ناصر احمد قادیانی جماعت کا تیسرا خلیفہ بنا۔یہ 1982ء تک خلیفہ رہا۔8 اور 9 جون 1982ء کی درمیانی شب ہارٹ اٹیک سے فوت ہوا۔

مرزا طاہر احمد

قادیانی جماعت کے تیسرے خلیفہ مرزا ناصر احمد کی وفات کے بعد خلافت کے بارے میں جھگڑا ہوا۔بعض بیٹوں کی رائے تھی کہ مرزا بشیر الدین محمود کے بیٹے مرزا رفیع احمد کو خلیفہ بنایا جائے جبکہ بعض دوسرے بیٹے مرزا طاہر احمد کو خلیفہ بنانے کے حق میں تھے۔

بہرحال اسی کشمکش میں مرزا رفیع احمد کو اغواء کر لیا گیا اور یوں مرزا طاہر احمد جو تیسرے قادیانی خلیفہ مرزا ناصر احمد کا بھائی بھی تھا وہ قادیانی جماعت کا چوتھا خلیفہ بن گیا۔مرزا طاہر احمد 18 اپریل 2003ء تک اپنی وفات تک قادیانی جماعت کا چوتھا خلیفہ رہا۔

مرزا مسرور احمد

مرزا طاہر احمد کی وفات کے بعد ایک ہفتہ قادیانی خلافت کا جھگڑا چلتا رہا۔آخر کار مرزا مسرور احمد قادیانی جماعت کا پانچواں خلیفہ بن گیا۔جو ابھی تک قادیانی جماعت کا پانچواں خلیفہ ہے۔
مرزا مسرور احمد،مرزا بشیر الدین محمود کا نواسہ اور مرزا بشیر الدین محمود کے بھائی مرزا شریف احمد کا پوتا ہے۔

لاہوری جماعت

مولوی محمد علی لاہوری نے 1914ء میں باقاعدہ علیحدہ دکان بنانا چاہی چنانچہ اس نے بعد میں لاہور آکر ایک تنظیم بنائی جسکا نام “انجمن اشاعت الاسلام احمدیہ” رکھا اور خود اس جماعت کا پہلا امیر بنا۔چونکہ مرکز انکے پاس نہ تھا اس لئے اسکا کام زیادہ نہ چلا لیکن بڑا سمجھدار تھا اپنی تنظیم کو خوب مضبوط کیا اور غیر ممالک میں پھیلایا اور غیر ممالک میں اسکی جماعت کو بڑی کامیابی ہوئی۔یہ مرزا کو نبی نہیں مانتے بلکہ محض مصلح یا مجدد مانتے ہیں اور نبوت کو ختم مانتے ہیں (مولوی محمد علی لاہوری کچھ عرصہ تک قادیان میں ہی رہا) پهر اس نے لاہور میں ڈیرا لگایا اور علیحدہ جماعت (انجمن اشاعت الاسلام احمدیہ) کہ بنیاد رکھی۔اسکو اور اسکے ساتھیوں کو غیر مبایعین کے نام سے پکارا جاتا تھا۔یہ لوگ 1920ء تک قادیان میں رہے اور پهر مستقل لاہور آ گئے۔

مولوی محمد علی لاہوری کا جماعتی پالیسی بیان:

مولوی محمد علی لاہوری لکهتا ہے

“گو ظاہر طور پر کوئی اختلاف جماعت میں نہیں ہوا لیکن دو قسم کے اختلافی امور ان ایام میں پیدا ہو گئے تهے جنکے زیادہ قوت پکڑنے میں صرف مولوی نور الدین صاحب کی زبردست شخصیت مانع رہی ان میں سے ایک امر خلیفہ اور انجمن کے تعلقات تهے اور دوسرا امر مسلمانوں کی تکفیر کا مسئلہ تها۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسئلہ نبوت مسیح موعود جو آج کل فریقین کے درمیان اختلاف کا اہم مسئلہ سمجها جاتا ہے در حقیقت اس مسئلہ تکفیر سے پیدا ہوا ہے۔ کیونکہ تکفیر بغیر اسکے صحیح نہ ہو سکتی تهی کہ حضرت مرزا صاحب کو منصب نبوت پر کھڑا کیا جائے چنانچہ اسی بنا پر مارچ 1914ء میں جماعت احمدیہ کے دو گروہ ہو گئے فریق اول یعنی اس فریق کا جو مسلمانوں کی تکفیر کرتا ہے اور آنحضرتﷺ کے بعد دروازہ نبوت کو کهلا مانتا ہے ہیڈ کوارٹر قادیان رہا اور دوسرے فریق نے اپنا ہیڈ کوارٹر لاہور میں قائم کیا۔”

؟(تحریک احمدیت حصہ اول صفحہ 32 از محمد علی لاہوری)*

ہم کہتے ہیں یہ محض انکی منافقت ہے اگر انکا اختلاف حقیقی ہے تو لاہوری جماعت والوں کوچایئے کہ وہ قادیانیوں کو کافر کہیں کیونکہ وہ ایک غیر نبی کو نبی مانتے ہیں اور سلسلہ نبوت جاری مانتے اسی طرح قادیانیوں کوبھی چاہیے کہ وہ لاہوریوں کو کافر کہیں کیونکہ وہ ایک سچے نبی کی نبوت کے منکر ہیں۔

انکے جماعتی امراء کا مختصر تعارف ملاحظہ فرمائیں۔

امیر اول مولوی محمد علی لاہوری

مولوی محمد علی لاہوری کا دور امارت 1914ء سے 1951ء تک رہا۔اس نے پڑھے لکھے جدید طبقہ اور بیرون ملک کام کیا اور جماعت کو منظم کیا۔قرآن کریم کی تفسیر انگریزی اور اردو زبان میں لکھی اور ارتدادی سرگرمیوں میں سرگرم رہا اسکی تفسیر کو دیکھ کر کئی مسلمان رہنما بھی اس سے متاثر ہوئے۔جامعة الازہر مصر میں بھی اس نے اپنا اثر و رسوخ پیدا کیا اور حیات مسیح کے مسئلہ میں انکے بعض حضرات آج بھی اس سے متاثر ہیں۔

(خلاصہ تحریر پندرہ روزہ پیغام صلح یکم تا 31 دسمبر 2013ء شمارہ نمبر 23 ،24)

امیر دوم مولوی صدر الدین

“مولوی صدر الدین کا دور امارت 1951ء تا 1981ء ہے۔مولوی صدر الدین جنوری 1881ء میں پیدا ہوا۔تعلیم کے بعد قادیان میں تعلیم الاسلام ہائی سکول میں بطور ہیڈ ماسٹر کام کرتا رہا۔خواجہ کمال الدین کے ساتھ ملکر تبلیغی پروگرام “رسالہ اسلامک ریویو” انگریزی ترجمہ قرآن،برلن میں لاہوری جماعت کی عبادت گاہ ( بقول انکے مسجد) وغیرہ سلسلوں میں کام کرتا رہا۔لاہور میں احمدیہ مارکیٹ اور دار السلام کالونی تعمیر کروائی۔ 1961ء اور 1962ء میں نائجیریا،لیگوس اور گهانا میں مشن قائم کئے۔1953ء اور 1974ء کی تحریک میں لاہوری گروپ کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار رہا۔”

(خلاصہ تحریر پندرہ روزہ “پیغام صلح “یکم تا 31 دسمبر 2013ء شمارہ نمبر 23، 24)

امیر سوم ڈاکٹر سعید احمد خان

“ڈاکٹر سعید احمد خان کا دور امارت 1981ء تا 1996ء ہے تعلیم کی ابتدا تا نامی گاؤں کے سکول سے کی۔چوتھی جماعت میں مانسہرہ کے سکول میں داخل ہوا۔پهر قادیان میں زیر تعلیم رہا۔فراغت کے بعد ڈاکٹری کے شعبہ سے وابستہ ہوا۔1981ء میں مولوی صدر الدین کے مرنے کے بعد جماعت کا سربراہ بنا۔ایبٹ آباد میں سمر سکول کے نام سے “سالانہ تربیتی کورس” کا آغاز کیا جو اب تک ہر سال منعقد ہوتا چلا آ رہا ہے۔اسکے دور امارت میں دار السلام میں گرلز ہاسٹل تعمیر ہوئی۔افریقہ کورٹس کیس اور 1984ء کی تحریک میں مسلمانوں کے مقابلے میں کام کرتا رہا۔آخر کار 1996ء میں آنجہانی ہوا۔”

(خلاصہ تحریر پندرہ روزہ پیغام صلح یکم تا 31 دسمبر 2013ء شمارہ نمبر 23 24)

امیر چہارم ڈاکٹر اصغر حمید

“ڈاکٹر اصغر حمید کا دور امارت 1996ء تا 2003ء ہے امیر مقرر ہونے سے پہلے انجینئرنگ یونیورسٹی کے شعبہ ریاضی کا ڈین رہ چکا تھا۔اس نے اپنے دور امارت میں قرآن مجید کی روسی زبان میں ترجمہ و تفسیر کروا کر تقسیم کی۔مرزا قادیانی کی کتاب “کتاب البریہ” کا خود انگریزی میں ترجمہ کیا اور لندن جماعت کے ذریعے شائع کروایا۔مرزا قادیانی کے خود ساختہ “نظریہ سفر مسیح” (فلسطین سے کشمیر تک) پر انگریزی میں کتاب لکھی۔دار السلام کی جامع (مسجد) میں توسیع کی۔ہر روز درس قرآن کا سلسلہ شروع کر کے تفسیر کی تکمیل کی۔انجمن احمدیہ اشاعت اسلام لاہور (AAIIL)ویب سائٹ کا آغاز کیا۔2003ء میں آنجہانی ہوا.”

(خلاصہ تحریر پندرہ روزہ پیغام صلح یکم تا 31 دسمبر 2013ء شمارہ نمبر 23 24)

امیر پنجم ڈاکٹر پروفیسر عبدالکریم سعید

پروفیسر ڈاکٹر عبدالکریم سعید 2003ء میں امیر بنا۔اس وقت یہ ایوب میڈیکل کالج میں پروفیسر تھا۔امارت کے بعد ملازمت کو خیر باد کہہ دیا۔یہ تا حال بڑی محنت کے ساتھ ارتدادی سر گرمیوں میں پوری دنیا میں برسر پیکار ہے۔اور جدید تعلیم یافتہ اور سیکولر طبقہ کو زندیق اور مرتد بنانے میں لگا ہوا ہے۔”

(خلاصہ تحریر پندرہ روزہ پیغام صلح یکم تا 31 دسمبر 2013ء شمارہ نمبر 23 ،24)

ان دو پارٹیوں کے علاوہ مرزائیوں کی چند اور پارٹیاں بھی ہیں مگر یہ دونوں پارٹیاں زیادہ مشہور ہیں۔

ان دو پارٹیوں کا مباحثہ چار نکات پر راولپنڈی میں ہوا تھا۔ جو کہ درج ذیل ہے۔
1) مرزا غلام احمد قادیانی کی پیش گوئی متعلقہ مصلح موعود کا مصداق کون ہے؟
2) مرزا قادیانی کی جانشین انجمن ہے یا خلیفہ؟
3) مرزا نبی ہے یا مجدد؟
4)
مرزا کا منکر کافر ہے یا نہیں؟

یہ مباحثہ بصورت رسالہ “مباحثہ راولپنڈی” کے نام سے شائع ہوا۔یہ ایک نہایت اہم رسالہ ہے۔ اس میں دونوں پارٹیوں کے دلائل خود مرزا کی تحریرات سے موجود ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *